پاکستان میں سعود ی عرب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔پاکستان
کو جب بھی کوئی مشکل وقت درپیش ہوتا ہے سعودی عرب بڑھ کر اس مشکل وقت سے
پاکستان کو نکالنے کیلئے میدان میں نکل پڑتا ہے۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کے
قومی اتحاد کی تحریک کے دوران دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پرلانے کیلئے
سعود ی سفیر نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔مذاکرات تو کامیاب ہو گے لیکن
جنرل ضیا الحق نے ۵ جولائی ۱۹۷۷ کوشب خون مار کر حکومت پرقبضہ کر
لیا۔ذولفقار علی بھٹو کو قیدو بند سے گزارنے کے بعد انھیں ۴ اپریل ۱۹۷۹ کو
پھانسی دے کر اپنے راستے سے ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ۱۲
اکتوپر ۱۹۹۹ کو میاں نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کر کے میاں محمد نواز
شریف کو قید کر دیا تو سعودی عرب انھیں دس سالہ معاہدے کے بعد سرور پیلس لے
گیا اور یوں ملک ایک اورقتل سے بچ گیا ۔ میاں صاحب ۱۹۱۷ میں ایک دفعہ پھر
اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے اور جیل میں ان کے پلیٹ لٹس کم ہونے کے
باعث ان کی حالت غیر ہوئی تو پھر سعودی عرب ہی نے کرشمہ دکھایا اور میاں
محمد نواز شریف کوٹ لکھپت جیل سےبخا ظت نکال کر لے گے اور اس دفعہ میاں
صاحب کی منزل لندن کاایون فیلڈ بنا۔ چشمِ فلک نے اپنے تیور بدلے تو کل کے
قیدی حکمران بن گے جبکہ کل کے حکمران قیدی بنادئے گے۔میاں نواز شریف کی
آزمائش تو ختم ہو گئی اور وہ اپنی جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس بھی آ گے
اور ۸ فروری ۲۰۲۴ کے دھاندلی شدہ انتخابات میں اقتدار ان کی بجائے میاں
شہباز شریف کو منتقل کر دیا گیا جبکہ عمران خان کو اپنے انقلابی پروگرام کی
وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے اور ان کا مقدر اڈیالہ جیل کا وہی کمرہ
ٹھہرا جہاں کسی زمانے میں میاں نواز شریف قیدی بنا کرر کھا گیا تھا ۔عمران
خان کی قید نے ملک کو عجیب مخمصے سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل
عمران خان کی رہائی کیلئے بے تاب ہے اوراپنی بغاوت سے ملکی نظام کو داؤ پر
لگا یا ہوا ہے۔نوجوان نسل حکومت کی بات سننے کیلئے تیار نہیں وہ اپنے قائد
کی اڈیالہ جیل سے رہائی کے متمنی ہیں لیکن اشرافیہ ان کی دہائی کو در خورِ
اعتنا نہیں سمجھ رہی جس سے پورا نظام زمین بوس ہو چکا ہے۔بقول شاعر(زندانوں
کا شہر بسا ہے میرے وطن کے اندر۔،۔ دل کا جانی بنا ہے قیدی زندانوں کے اندر
)۔،۔
۲۴ نومبر کو اسلام اباد کی جانب مارچ نے ملک کو یرغمال بنا نا چاہا تو
سیکورٹی فورسز نے پوری قوت سے عمران خان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔لاشیں
اٹھیں ،خون بہا املاک کو نقصان پہنچا اور سینکڑ ٖوں لوگوں کو جیلوں میں ٹھو
نسنا پڑا جس سے ملکی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔اس سارے پسِ منظر کی زہریلی ہواؤں
میں عمران خان جیل کے قیدی بنے ہوئے ہیں اور ریاست ملکی انتشار کی وجہ سے
اپنے معاملات خوش اسلوبی سے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ایک طرف معاشی بد حالی ہے
تو دوسری طرف عدمِ استحکام اور امن و امان کی حالت انتہائی محدوش ہے جس سے
ْعوام متاثر ہو رہے ہیں ۔ملکی معاملات خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں پا رہے
اور ملکی خزانہ دن بدن کم ہو تا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی عوامی
خواہشات کوقتل کر رہی ہے۔قوم ذہنی طور پر تقسیم ہو چکی ہے ۔ایک طرف ریاست
ہے جبکہ عوام کی اکثریت حکومتی اقدامات سے نا خوش ہے وہ اپنے قائدعمران خان
کی جیل سے رہائی چاہتے ہیں لیکن ریاست عمران خان کی رہائی سے خوفزدہ
ہے۔عمران خان ایک پارہ صفت انسان ہیں جو عوامی جذبات کو بھڑکانے میں
اپناثانی نہیں رکھتے ۔وہ جیل سے رہائی کے بعد پھر سڑکوں پر ہوں گے تو ریاست
ان کے سامنے بے بس ہو جائیگی ۔ حکومت اس خوف کے حصار میں قید ہے اور قیدی
کو رہا کرنے سے ڈر رہی ہے۔حالات کی سنگینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور
حکومت پر عوام کا اعتماد کمزور ہو تا جا رہا ہے۔انتشار اپنے پنجے گاڑ رہا
ہے لیکن حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔وہ غدار اور ملک دشمنی کا
راگ الاپ کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہے لیکن اس کی بات بن
نہیں رہی۔صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور معاملات کی گھمبیر صورتِ حال سے نبر
آزما ہونے کیلئے حکومت نے مذاکرات کی میز سجانے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ملک
میں سیاسی استحکام کی راہ کو ہموار کیا جا سکے ۔ کے پی کے اور بلوچستان میں
عوامی جذبات جس طرح بپھرے ہوئے ہیں اس پر قابو پانا حکومت کے بس میں نہیں
ہے۔پارا چنار (کے پی کے) میں جس طرح کی بد امنی کا فضا پیدا ہو چکی ہے وہ
ریاستی امور کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں
لیکن امن ہے کہ قائم ہونے کانام نہیں لے رہا۔بلوچستا ن کا معاملہ بھی ایسے
ہی ہے ۔ہر روز سیکورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں جس سے سیکورٹی فو رسز کے
افرادجامِ شہادت نوش کر رہے ہیں۔یہ واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں جبکہ ریاست
اس مشکل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔بی ایل اے حکومت کو کھلا چیلنج دے
رہی ہے لیکن حکومت بے بس بنی ہوئی ہے حالنکہ اس کیلئے اسے بصیرت کا مظاہرہ
کرنا ہو گا۔بقولِ شاعر۔ (کشتی ِ ِ طوفاں ہے بری طرح سے طوفانوں میں گری
ہوئی۔،۔ کھینچ کر اس کو ساحل پر دل والے ہی لائے ہیں)۔،۔
ایک طرف عوامی بے چینی اور ملکی حالات حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا
ہے تو دوسری طرف عالمی رائے عامہ حکومت پر اپنا دباؤ ڈال رہی ہے ۔امریکہ
بہادر کی جانب سے مخصوص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے اور اس کے قائدین کو
جیلوں میں بند کرنے پر شدید تحفظات ہیں ۔وہ ایسے تمام اقدامات کو واپس لینے
کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔یورپی یونین،انگلینڈ،فرانس اور دوسرے کئی یورپی
ممالک اس معاملے میں بڑے واضح ہیں۔وہ سیاست کو ذاتی انتقام اور تعصب سے دور
رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں ۔امریکہ اس معاملے میں سرِ فہرست ہے اور اس کے
دواہم مشیر بغیر کسی لگی لپٹی کے حکومت کو وارننگ دے رہے ہیں ۔ پاکستان کی
ساری تجارت یورپ اور امریکہ سے منسلک ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ ،جنگی سازو
سامان اور کمیوٹرٹیکنا لوجی یورپی اقوام سے ہی حاصل ہو تی ہے اس لئے حکومت
یورپی اور امریکی دباؤ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی اس لئے ڈائیلاگ کی
پٹاری سے مخصوص جماعت کیلئے ریلیف کا راستہ نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ زور
آور اس سارے منظر نامے کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور حکومت کوکسی
سمجھوتے کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ بہت ہو چکا لہذا اب چوہے بلی کا کھیل بند
ہو جانا چائیے۔عوامی رائے کا احترام ہونا چائیے ۔انتخابات شفاف اور غیر
جانبدار ہونے چائیں تا کہ ملک میں امن و سکون ہو اور معاشی اور مالیاتی بد
حالی کا خاتمہ ہو۔خدا را عوامی حاکمیت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے
عوامی رائے کو قبولیت کی سند عطا کریں تا کہ خوشخالی اور ترقی کا نیا باب
رقم کیا جا سکے۔اداروں کو اپنی حدود میں رہنا ہو گا نہیں تو اس ملک میں
سیاسی استحکام کبھی نہیں آئے گا۔ہم نے اس ملک میں طاقت کے مظاہر ے بڑے
دیکھے ہیں اور ان کا انجام بھی سب کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ وقت آ گیا ہے کہ
ہر کوئی آئین کے سامنے سر نگوں ہو جائے کہ یہی سب سے بہترین راہ ہے۔یہی ملک
کی ترقی،استحکام اور اس کی مضبوطی کی راہ ہے اور ہمیں ذاتی انا اور برتری
کی قربانی دے کر اس راہ پر چلنا ہو گا ۔یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے جس
میں ملکی بقا کا راز پنہاں ہے ۔ ( خونِ دل دے کرنکھاریں گے رخِ برگِ
گلاب۔،۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے)۔،۔
|