صوبہ بلوچستان قدرتی ذخائر سے مالامال پاکستان کا ایک اہم
صوبہ ہے۔اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی معیشت آنے
والے وقتوں میں گوادر ہی سے جڑی دکھائی دیتی ہے اور پاکستان کے مستقبل کی
بنیاد بلوچستان کی ترقی،خوشحالی اور سا لمیت پر منحصر ہے، لیکن اس کے
باوجود سماجی اور اقتصادی اعشاریوں کے اعتبار سے اسے نسبتاً پسماندہ صوبہ
تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم افواج پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے
اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں جن
میں ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ملک دشمنوں نے پاکستان
خصوصاً بلوچستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے صوبے میں جاری ترقیاتی
منصوبوں، ان پر کام کرنے والے ملکی وغیر ملکی انجینئروں،غیر مقامی مزدوروں
اور ان پر استعمال ہونے والی مشینری کو مسلسل نشانہ بنایاہے۔تاکہ کسی نہ
کسی طرح ترقیاتی عمل کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جاسکیں، مگر بلوچستان کی
خوشحالی ریاست کی اولین ترجیح ہونے کی وجہ سے صوبے نے ترقی اور امن کی جانب
سفر جاری رکھا ہوا ہے اور دوران ترقی کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں
جبکہ بہت سے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ان کامیابیوں میں پاک فوج
اور دیگر اداروں جبکہ جنوبی بلوچستان میں ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کااہم
ترین کردار ہے۔رواں سال بلوچستان کا بجٹ 750بلین مختص کیا گیا ہے جس میں
وفاقی حکومت کی جانب سے 520بلین حکومت بلوچستان کو دے دئیے گئے جبکہ اسے
رائیلیٹزکی مد میں 254ارب روپے کا سالانہ منافع بھی ہوتا ہے۔پاک فوج نے ایک
ادارہ جاتی اقدام کے ذریعے بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے تعلیم،صحت اور
مواصلات اور دیگر شعبوں میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔غیر ملکی
میڈیا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان کے
انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام کررہی ہیں،ترقیاتی منصوبے
مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا
جائے گا جس سے بلوچ عوام کی زندگی بدل جائے گی اور اس وقت گوادر پورٹ کی
وجہ سے گوادر علاقائی اور عالمی تجارتی مرکز بن چکا ہے۔اور یہی بات پاکستان
دشمنوں کو ہضم نہیں ہوپارہی ہے،راقم اس بات کاذکر اپنے گذشتہ متعدد کالموں
اور مضامین میں کرچکا ہے کہ سی پیک منصوبے کے معاہدے کے بعد امریکہ اور
بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظرآئے۔امریکہ کو معلوم ہے کہ سی
پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہوگا بلکہ
وہ اس کی اثر سے نکل جائے گا اور دوسری جانب چین بڑی اقتصادی قوت بن جائے
گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت
بننے کے بعد دفاعی حوالے سے پاکستان کو چیلنج نہیں کرسکتا تو سی پیک پایہ
تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت وحیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ
میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا،اور یہ حقیقت ہے کہ دفاعی لحاظ سے
پاکستان بھارت سے سو گناہ زیادہ مضبوط ہے، کیونکہ پاکستان کا دفاع ہمیشہ سے
مضبوط ہاتھوں میں ہے،تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے امن اور ترقی کو سبوثار کرنے کے لیے بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی
راء کے ایجنٹوں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سمی دین بلوچ اور ماما قدیر جیسے
سہولت کاروں اور غداروں کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو
فروغ دیا،اس سلسلہ میں سی پیک کو خصوصاً نشانہ بنایا گیا۔سی پیک منصوبے کے
تحت 2025میں پاکستان کی معیشت میں تیزی آئے گی،جو قومی ترقی کے لیے ایک اہم
سنگ میل ثابت ہوگی۔اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت خصوصی اقتصادی
زونز(SEZs)،توانائی کے نئے منصوبے،صنعتی ترقی اور جدید انفراسٹرکچر کی
تعمیر پر کام جاری ہے،جن سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔سی
پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل،پاکستان اور
چین کے درمیان گہرے تعلقات کی علامت ہے۔ سی پیک پہلے مرحلے میں 43منصوبے،جن
کی مجموعی مالیت 25ارب امریکی ڈالرزہے،کامیابی سے مکمل کیے گئے۔یہ منصوبے
نہ صرف پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد گار ثابت ہوئے بلکہ خطے
کی مجموعی خوشحالی کے لیے بھی اہم ہیں۔سی پیک کے تحت 8,800میگا واٹ بجلی
پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل کی گئی ہے،جس سے توانائی کے بحران پر قابو
پانے میں مدد ملی ہے۔اس کے علاوہ،سٹرکوں،پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی
تعمیر سے نہ صرف نقل وحمل کے نظام میں بہتری آئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں
میں بھی اضافہ ہوا ہے۔افواج پاکستان کی مشترکہ کوششوں کی بدولت پندرہ سوکلو
میٹر کی سڑکوں کا جال بچھاکر بلوچستان کے عوام کی بڑی منڈیوں تک رسائی
یقینی بنائی گئی۔سولہ ارب روپے کی لاگت سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کے پہلے مرحلے
کی تکمیل اور خصوصی اقتصادی زون کا قیام بھی افواج پاکستان کی کوششوں سے
مکمل ہوا۔بلوچستان کی ترقی کے لیے ویژن 2030کے تحت صوبے میں ترقی کا سفر
تیزی سے جاری ہے۔پاک فوج اور حکومت پاکستان نے وقت کے تقاضوں کے مطابق
بلوچستان میں محرومیوں کے خاتمے کے لیے مختلف شعبہ جات میں جامع حکمت عملی
کے تحت تیزی سے کام کیا۔خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبے بھر میں
ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا جس کا مقصد صرف مستحکم بلوچستان ہے۔سوال
پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے اور وہ کون لوگ
ہیں جو اس صوبہ کی ترقی اور وہاں کے عوام کی خوشحالی نہیں دیکھنا
چاہتے۔بلوچستان کی پسماندگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مسائل کا ذکر تو کرتے
ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور ان میں رکاوٹیں
ڈالنے والوں کا ذکر نہیں کرتے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ
بلوچستان کی ترقی میں اہم ترین رکاوٹ وہاں امن اومان کی کاوشوں میں خلل
ڈالنے کی کوششیں ہیں۔دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے دشمنوں کی آلہ کار بن کر
بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتیں۔دراصل ماہ رنگ بلوچ،سمی دین
بلوچ جیسے عناصر بلوچستان کے عوام کے دشمن ہیں،دشمن ممالک کی مالی مدد
(فارن فنڈنگ)ڈالروں کے لیے اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر جلانے کے درپے ہیں۔یہی
عناصر ایک طرف بلوچستان کے سادہ لوح اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو شیطان کی
طرح ورغلاکر اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔دوسری طرف ان کو ریاستی اداروں اوردوسرے
صوبوں کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کرکے ریاست کے خلاف بغاوت پر
اکساتے ہیں اورمعصوم بے گناہ بچوں،بوڑھوں اور خواتین کے قاتلوں کو لاپتہ
افراد بناایک پراپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی حقیقت محض ایک ڈرامے کے سواء
کچھ نہیں۔
|