*قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَ
( تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتے)
ایک سال بعد چھٹی ملی تو گاؤں کی گرمی کی شدت بھول کر خوشی خوشی گھر جانے
کا ارادہ بنایا۔ گرمی کا یہ حال تھا کہ صبح 6 بجے سے مغرب تک اپنے ہی گھر
کے کمرے میں قیدی بن کر رہنا پڑتا تھا۔ مغرب کے بعد سورج کا غصہ قدرے کم
ہوتا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بھی گلیوں میں شریر لڑکوں کا طرح آوارہ گردی
کرنے نکل پڑتے۔ آج بھی ذرا گرمی کی شدت کم ہوئی تو ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور
میں عشاء کی نماز کے بعد اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا وہیں ساتھ کھانا
کھایا اور کچھ دیر سال بھر کی باتیں اور ملکی حالات پر خوب تبصرے کیے۔ میں
نے اپنی موجودہ جاب کی پریشانیاں اور دن بھر کے کام کی شکایتیں کیں اور
میرے دوستوں نے بھی خوب ہمدردی کا احساس دلایا۔ رات کے 12 بج چکے تھے اور
گاؤں کے ماحول کے مطابق بہت دیر ہوچکی تھی۔ اور اب ہم نے ایک دوسرے سے
رخصتی کی نیت سے الوداعی جملے بولنا شروع کردیے۔ انہوں نے مجھے گھر تک
چھوڑنے کا اسرار کیا اور میں نے بھی یہ آفر بخوشی قبول کی۔
گاؤں کی رات کا سناٹا وہی انسان جانتا ہے جو وہ رہ چکا ہو گلی میں نہ بندہ
نہ بندے کی ذات۔ بس گُپ اندھیرا اور گھروں میں پنکھے چلنے کی آواز۔ اسی
دوران میں نے گلی کی بیچ بینچ پر بیٹھے ایک شخص کو دیکھا جس کو میں جانتا
تھا بلکہ محلہ کی ہی ایک آدمی تھا۔ اکیلے بینچ پر رات کی اس پہر بیٹھ کر
سگریٹ کی ڈبی ہوا میں اچھالتا اور اس کے نیچے گرنے کا انتظار کرتا۔ ہم نے
پاس سے گزرتے ہوئے رسمی سا سلام کیا جس پر اس نے کوئی خاص رد عمل نہ دیا۔
کچھ دور جا کر میں اپنے دوستوں سے سوال کیا " کیا وجہ ہے کی پورا گاؤں رات
کے اس پہر سو رہا ہے اور یہ شخص اس سگریٹ کی ڈبی سے اپنا دل بہلا رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں میرے دوستوں نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے اشارہ کیا کہ
ہمیں کیا معلوم۔ تب میں انہیں کہا کہ میں بتاتا ہوں۔ دن بھر ہر بندہ کسی نہ
کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے ؛مثلاً کام کی پریشانی، مہنگائی، راشن، بچوں
کی سکول کی فیس اور دیگر ضروریات کی پریشانی، مختلف بیماریاں، قریبی رشتے
داروں کے رویوں کا دکھ، وغیرہ وغیرہ۔ اور دن بھر ان تمام پریشانیوں سے لڑتا
جھگڑتا رہتا ہے اور رات ہوتے ہی تھکن سے چُور بستر پر لیٹتے ہی سوجاتا ہے۔
اور پھر نئی صبح ،نیا غم اور نیا حوصلہ، نیا ٹارگٹ۔ اور ان تمام پریشانیوں
میں سے جب کوئی مشکل حل ہو جاتی ہے تو خوشی محسوس کرتا ہے اور اللہ کا شکر
ادا کرتا ہے۔
اب اُس شخص کو دیکھو جس نے حالات سے ڈرتے ہوئے یا دیگر وجوہات کی بنا پر
شادی نہی کی۔ کوئی بیوی بچوں کی پریشانی نہی، کوئی راشن کا غم نا کسی اور
قسم کے مسائل، نا کمانے کا غم نا کام کا پریشانی۔ جب غم ہی نہی تو خوشی بھی
نہی جب کام ہی نہی تو آرام بھی نہی۔
تب میں نے اپنے دوستوں کو یہ بات سمجھائی کہ اللہ پاک بڑا کریم اور علم و
حکمت والا ہے رحمٰن ہے۔ اس نے کوئی بھی شے رائیگاں پیدا نہی کی۔ بلکہ یہ
ہماری ہی کم ظرفی اور کم عقلی ہے کہ بہت جلد مایوس اور نا شکرے ہو جاتے
ہیں۔
اُس شخص کی زندگی کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اسے کوئی پریشانی ہی نہی
اور اسی چیز نے اسے بے سکون کر رکھا ہے ورنہ کوئی پریشانی ہوتی تو وہ بھی
اسے سلجھاتا اور تھک کے سو جاتا۔ پریشانیاں نہ ہوتیں تو خوشیاں کا تصور بھی
نہ ہوتا۔
اللہ رب العزت سورۃ اعراف میں انسان کا یہی نہ شکری کا پہلو بیان کرتے ہیں
کہ تم لوگ بہت ہی ناشکرے ہو، ارشاد فرماتے ہیں:
"وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ
قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَ
اور (اصل) بات ہے کہ ہم نے تمہیں زمین میں رہنے کی جگہ دی، اور اُس میں
تمہارے لئے روزی کے اسباب پیدا کئے۔ (پھر بھی) تم لوگ شکر کم ہی ادا کرتے
ہو."
شام کی، اُداسیاں، دیکھ کر
جس کا گھر ہو، وہ گھر جاتا ہے
(منتظرِ کُن مہدی حسن)
ہمیں اللہ رب العزت کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے کہ گھر بار دیا بیوی بچے دیے
کھانے پینے کے اسباب پیدا کیے تاکہ ہم حلال رزق کمائیں اور اللہ کا شکر ادا
کریں کبھی حالات مشکل ہوں تو صبر کریں اور اللہ سے مایوسی اور نا شکری کے
بجائے دعا کریں۔ |