میلوں کی بدلتی روایات اور ثقافت کا زوال

میلوں کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور یہ انسانی معاشرت کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔ قدیم دور میں میلے تاریخی اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے، جہاں معاشرے کے لوگ مل بیٹھتے اور اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے تھے۔ یہ میلوں کا آغاز عموماً کسانوں کی زندگی سے جڑا ہوتا تھا، جب فصل پکنے کے بعد منافع حاصل ہوتا تو وہ خوشیاں منانے کے لیے میلوں کا انعقاد کرتے تھے۔ یہ میلوں کی شکل بنیادی طور پر ثقافتی ہوتی تھی اور اس میں دیہی زندگی کے رنگ جھلکتے تھے۔ کسانوں کی یہ تقریبات وقت کے ساتھ ساتھ مقبول ہوئیں اور ہر علاقے میں الگ الگ میلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ ان میلوں میں مقامی کھیل، موسیقی، اور دیگر تفریحی سرگرمیاں شامل ہوتیں، جیسے بیلوں کی دوڑ، لاٹھی کے مقابلے، کبڈی، اور موت کا کنواں۔ یہ تقریبات معاشرتی ہم آہنگی اور تفریح کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔ بچوں، جوانوں اور بزرگوں کے لیے یہ مواقع بے پناہ خوشیوں کا سبب بنتے تھے اور یہ روایات نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ میلوں نے ثقافتی پہلو سے نکل کر مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔ اسلام کے آنے کے بعد ان میلوں کو بعض اوقات ہندوانہ رسومات کا حصہ سمجھا جانے لگا اور انہیں مذہبی مزاج کے مطابق ڈھالا گیا۔ یوں میلوں کا انعقاد بزرگانِ دین کے مزاروں پر ہونے لگا۔ داتا گنج بخشؒ، بابا فریدؒ، سلطان باھوؒ، اور نوشہ گنج بخشؒ جیسے معروف بزرگان دین کے مزارات پر میلوں کا انعقاد عام ہو گیا۔ پنجاب میں سال بھر کسی نہ کسی مزار پر میلہ جاری رہتا، جہاں لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے اور ساتھ ہی میلوں کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے۔ان میلوں میں ہر عمر کے افراد کے لیے کچھ نہ کچھ دلچسپ ہوتا۔ بیلوں کی دوڑ، جوانوں کی کشتی، تھیٹر، موسیقی، موت کا کنواں اور دیگر کھیل ان میلوں کا لازمی حصہ تھے۔اس کے کے علاؤہ مختلف قسم کی مٹھائیاں جن میں جیلبی اور کتلما قابل ذکر ہیں اور بچوں کے کھلونوں کی دوکانیں خواتین کیلئے چوڑیاں نالے پراندے رومال اور بے شمار رنگارنگ اشیاء ان میلوں کی شان تھیں ان میلوں کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہ دیہی ثقافت اور خوشی کے اظہار کا ایک منفرد طریقہ تھے۔ ہر طرف رنگا رنگ تقریبات اور گہما گہمی کا سماں ہوتا۔ لوگوں کے پاس وسائل محدود تھے، لیکن خوشی اور اطمینان بہت زیادہ تھا۔تاہم، جدید دور کی ترقی اور ڈیجیٹل میڈیا کے فروغ نے میلوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ جو میلے ایک وقت میں کئی دنوں تک جاری رہتے تھے، وہ اب محدود ہو کر چند گھنٹوں یا دنوں تک سمٹ چکے ہیں۔ نئی نسل ان میلوں میں دلچسپی نہیں لیتی اور انٹرنیٹ، موبائل، اور دیگر جدید تفریحات میں مگن ہو چکی ہے۔ تھیٹر اور موت کا کنواں جیسے دلچسپ مظاہرے اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس اب انٹرٹینمنٹ کے لیے بے شمار ذرائع موجود ہیں، لیکن ان میں وہ سچی خوشی نہیں جو ان روایتی میلوں میں ہوا کرتی تھی۔میلوں کے زوال کا یہ سفر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری ثقافتی روایات ماضی کے جھروکوں میں دفن ہو رہی ہیں۔ وہ میلے جو کبھی زندگی کی علامت تھے، اب صرف نام کے رہ گئے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو ان روایات کا علم نہیں اور ان کے دلوں میں ان کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب میلوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور ہماری ثقافت کا یہ خوبصورت پہلو محض تاریخ کی کتابوں تک محدود رہ جائے گا۔

 

azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 43 Articles with 45242 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.