قصہ ہماری پہلی کیمپنگ کا۔۔۔۔ آخری قسط (وقار کا سفر نامہ)

زندگی میں کچھ پل اپنے لیے نکال لیں، کچھ جھمیلوں سے نکلیں، مثبت سوچیں، سیکھیں تاکہ دوسروں کو سکھا سکیں

کیمپ کے اختتام پر گروپ فوٹو

کیمپنگ کے اختتام پر وہ مشکل مرحلہ آن پہنچا جو وہی جانتا ہے جو اس صورتحال سے گزرا ہو۔ دوران سفر ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، کسی کو جیکٹ دی، کسی کو گرم مفلر، کسی کو بستر، کسی کو میٹ، کسی کو کیمپ میں جگہ، کسی کو عینک، کسی کو ٹارچ تو کسی کو کوئی برتن، موٹر سائیکل ایڈجسٹ والے ٹولز تو کسی نے بیگ میں سامان رکھنے کیلئے سپیس مانگ لی۔ عموماً کوئی بھی منع نہیں کرتا، سب ہنسی خوشی شیئر کرتے ہیں لیکن واقعی دلی کوفت محسوس ہوتی ہے جب کوئی آپ سے کوئی چیز مانگے مثلاً رسی ادھار مانگی اور واپس کیچڑ یا مٹی میں لت پت اور الجھی ہوئی ملے، یا پلیٹ، کپ مانگا اور واپس آلودہ ملے اور جب سامان سمیٹنے کی باری ہو تو بس وہی سمیٹے جس کا ہے نہایت معیوب عمل ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں کام بھی جلدی ہوجاتا ہے اور ساتھی خود کو تنہا بھی محسوس نہیں کرتے۔ سمجھنے والوں کیلئے اشارہ کافی ہے نا سمجھوں کیلئے یہ الفاظ بھی محض مونگ پھلی ہے دانے کھاؤ چھلکے ادھر ادھر پھینکتے جاؤ۔

رات یہ تو سیکھا تھا کہ کیمپ لگاتے کیسے ہیں اب اتارنے کی باری تھی۔ سیماب صاحب سے دو تین بار کہا کہ کھول دیں کیمپ؟ کیونکہ میں بے تاب تھا اس جہازی سائز کو چھوٹے سے بیگ میں شفٹ کرنے کا عمل دیکھنے کیلئے (اور وہ سست روی کا مظاہرہ کر رہے تھے اس لیے کہ دھوپ سے مکمل خشک ہو جائے اور سمیل نہ کرے) بالاخر کیمپ کھولنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ بھی ایک مکمل ضابطہ ہے تاکہ کیمپ پھٹے نہیں، آلودہ نہ ہو اور زیادہ پھیلاؤ میں نہ رہے۔ فولڈ کرتے رہے، سیماب صاحب ساتھ ساتھ گائڈ کرتے رہے، تمام میخیں ایک جگہ جمع کرتے گئے، رسیاں کھول کے ایک ایک کرکے لپیٹتے رہے، کیمپ کے اندر کپڑے سے مکمل مٹی وغیرہ کو صاف کیا، پہلے اوپر والا حصہ اتارا، پھر مرکزی کیمپ کی چھڑیاں الگ کیں، جو جو چیز مکمل اترتی گئی اسے ساتھ ہی ساتھ صاف کرکے متعلقہ تھیلے میں محفوظ کیا جاتا رہا۔ پھر مرکزی کیمپ کو فولڈ کیا تو وہ پھول سا گیا ظاہر ہے پیراشوٹ کا کپڑا تھا دوہرا کریں تو اندر ہوا کا بھرنا لازمی تھا۔ سیماب صاحب بولے اس کو اوپر سے دبانا نہیں۔ ایسے ہی چھوڑ دیں خود ہی ہوا نکل جائے گی اس کی۔ یوں اوپر دباؤ ڈالنے سے اس کے پھٹنے کے یا سلائیاں اکھڑنے کے چانسز ختم ہوگئے۔ خیر یہ مرحلہ بھی مکمل ہوا۔ سامان واپس موٹرسائیکلوں پر فٹ ہو چکا تھا۔

فیصل آباد سے ہمارے ہم سفر انصر صاحب شاہکوٹ کو سدھار گئے، میں جو صبح سات بجے ہی گھر واپسی پر آمادہ تھا لیکن ساتھ آنے والوں کو وہیں چھوڑ کر واپس جانے کو دل نہیں مان رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سچا وہ جو آخر تک ساتھ نبھائے۔۔۔۔۔۔۔۔ طبیعت اس وقت فریش ہوگئی جب سیماب صاحب نے اعلان کیا کہ ہم تو اوپر پہاڑی پر گئے نہیں لہذا اوپر چلتے ہیں پھر واپس نکلیں گے۔ میں تو صبح صبح یہ جہد کر آیا تھا پہلے اجازت چاہی تو دوستوں کی گھورنے والی نظروں نے الرٹ کر دیا، سیماب صاحب ایک ضدی بچے کی طرح بولے چلو فیر تسیں جاؤ اینج تے فیر اینج ای سہی۔ دوسرا حل نکالا کہ دوبارہ ہائیکنگ نہ کرنی پڑے اور ہڈ حرامی سے کام لیا جائے آفر کرائی کہ میں موٹر سائیکل کے پاس رکتا ہوں قیمتی سامان ہے حفاظت ہوجائے گی۔ جواب ملا پارک کے گارڈ سے بات ہوگئی ہے اس کے پاس لگا دیں۔ پھر آفر کرائی کہ ننھا ہارون سو رہا ہے موٹر سائیکل سے چمٹ کے تو میں بچے کے پاس کھڑا ہوتا ہوں تاکہ وہ پریشان نہ ہو تو ایک نے جھٹ سے کاکے کو کندھوں پر اٹھا لیا اور سوالیہ نظروں سے دیکھا میری طرف اور کہا کوئی ہور حکم؟ عاجز آکے کہا میں صبح ہو آیا ہوں آپ لوگ جاؤ۔ سب چل پڑے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے پیچھے جا پہنچا تو دوستوں نے کہا کہ اگر نہ آتے تو کچی ہوجانی سی 😃۔ خیر خوش گپیوں میں، ایک دوسرے کو ہلا شیری دیتے اور نوجوان بزرگ ذکاء اللہ قادری صاحب کے بہانے خود بھی ریسٹ مارتے جا پہنچے چوٹی کے سرے پر۔ اب وہاں جو محفل کشت زعفران بنی وہ بھی کمال تھی۔ دوست ڈراؤن کیمرہ سے شارٹ لیتے رہے، ویلاگر ویلاگ بناتے رہے، تصویر بازی تو لازمی شے ہے۔

واپس نیچے موٹرسائیکلوں کے پاس پہنچے، فوٹو سیشن ہوا اور قادری صاحب جانب خانکاہ ڈوگراں اور ہم عازم لائلپور ہوئے۔ ابھی سانگلہ ہل سے باہر نکلے تھے کہ انٹرکام پر سیماب صاحب نے اپنی بائک میں پیدا ہونے والے کسی نقص بارے آگاہ کیا۔ روکی چیک کی اور پھر سفر شروع لیکن مسئلہ برقرار تھا دارالاحسان پہنچ کے مکینک کو دکھائی تو پتا چلا پچھلے رم کا بیرنگ ٹوٹ گیا ہے۔ یاماہا مکینک کو کال کی، بیرنگ کا نمبر پوچھا۔ وہاں سے نہ ملا اس نے کہا کہ آہستہ آہستہ چلا کے آجاؤ کوئی ایشو نہیں۔ یوں ان کے دوست (نام یاد نہیں) میرے ساتھ بیٹھ گئے، اور سفر شروع ہوگیا۔ ساتھیوں کو بھٹی آٹوز پر چھوڑا اور خود گھر کی سمت روانہ ہوگیا۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 50 Articles with 12737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.