اسٹرائڈ (شہاب ثاقب) وسٹا کو
اپنی طویل تاریخ میں جن حادثات سے دوچار ہونا پڑا اس کی تصویر اب واضح ہونے
لگی ہے۔
خلائی سیارے ڈان سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کا جائزے لینے سے معلوم
ہوتا ہے کہ اس بہت بڑی چٹان نما شہابیہ کے جنوبی قطبی خطے میں دو بڑے شدید
نوعیت کے کٹاؤ ہیں۔
ہبل خلائی ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے ایک کا پہلے ہی سے علم
تھا۔
لیکن ڈان کی پیمائشوں سے پتا چلتا ہے کہ وسٹا کے اسی خطے پر اس سے قبل بھی
خلائی اجزام آ کر ٹکرائے تھے۔
دونوں مرتبہ وسٹا کی سطح پر ان اجزام کے ٹکرانے سے بہت وسیع اور گہرے گڑھے
پڑ گئے تھے اور اس سے پورا وسٹا ہل گیا تھا۔
سائنسدانوں کو یقین ہے کہ وسٹا کے خطے استواء اور شمالی کرۂ میں جو گہری
گہری دراڑیں دکھائی دیتی ہیں وہ ان اجزام کے ٹکرانے سے بنی ہیں۔
امریکہ کی ریاست بالٹی مور میں جون ہاپکنز یونیورسٹی کی فزکس کی لیباٹری کی
ڈیبرا بزکوسکی کا کہنا ہے کہ وسٹا کی تصاویر سے کچھ چیزیں دکھائی دیتی ہیں
لیکن اسی کی سطح کا قریب سے جائزہ لینے سے اس کے خدو خال واضح ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ اسی خطے میں ایک اور ٹکراؤ
کے اثرات ہیں‘۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اس چیز کا علم نہیں
تھا جب تک انہیں سطح کی تصاویر حاصل نہیں ہوئی تھیں۔
وسٹا کی سطح پر ان گڑھوں کو رومی دیویوں کی رہباؤں کے نام پر وسٹال ورجنز
رکھا گیا ہے۔ ڈان کے خلاء میں جانے سے قبل وسٹا کی جتنی بھی تصاویر تھیں وہ
ہبل خلائی دوربین سے لی گئی تھیں۔
ان بڑے بڑے گڑھوں کی وجہ سے وسٹا کی شکل ایک ایسے فٹ بال کی طرح نظر آتی ہے
جس سے ہوا نکل گئی ہو۔
اس سال جولائی میں شہاب ثاقب پر ڈان کے پہنچنے کے بعد سائنسدان اس خطے کی
سطح کا تفصیل سے جائزہ لینے کے قابل ہوئے ہیں۔
اس کے مرکزی حصے میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ کس
اور شہابیہ کے ٹکرانے سے بنا ہو گا۔
اس پہاڑ کی اونچائی بائیس کلو میٹر ہے جو کہ کوہ ہمالیہ کی اونچائی سے
دوگنا ہے۔
اس پہاڑ کا کئی ہفتوں قبل ہی پتا چل گیا تھا لیکن ڈان خلائی جہاز کے شہاب
ثاقب کے مدار میں قریب سے قریب تر ہونے سے اس کی سطح کے بارے میں اور زیادہ
سے زیادہ معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔
وسٹا کی سطح کے بارے میں ان معلومات سے پتا چلتا ہے کہ ریا سلویہ کا کٹاؤ
اصل میں ایک اور کٹاؤ کے اوپر بنا ہے۔ ویا سلویہ کا کٹاؤ ڈہائی ارب سال
پرانا ہے۔
ڈان خلائی جہاز کے وسٹا کے قریب پہچنے کے بعد ہی سائنسدانوں کو وسٹا کے
ساتھ خلائی اجزام کے ایک سے زیادہ مرتبہ ٹکراؤ کا پتا چلا ہے۔
اس ساری تحقیق سے شاید اب یہ گھتی بھی سلجھ سکے کہ وسٹا کے شہابیے زمین پر
کیسے پائے گئے ہیں۔
زمین کی سطح پر ملنے والے کم از کم پانچ فیصد خلائی اجزام ایسے ہیں جو کہ
وسٹا سے ٹوٹ کر آئے ہیں۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ سب وسٹا کے جنوبی خطے کا
حصہ تھے اور جو اس سے ٹوٹ کر آئے ہیں۔ |