ایران سعودیہ تنازعات حقیقت کے آئینے میں

افقِ گفتگو۔از۔ایس ۔یو ۔شجر

1980سے امریکہ اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔جب کہ ایران سے امریکی مخاصمت قریبًا اتنی ہی پرانی ہے۔1978میں جب بھٹوصاحب جیل میں تھے تو انہوں نے اپنے ڈینٹیسٹ ڈاکٹر نیازی کے ذریعے ایک خط باہر بھجوایا۔جس میں انھوں نے ذکر کیا کہ میں نے شاہ ایران کو بھی مطلع کیا ہے کہ امریکہ ویتنام جنگ کا بدلہ لینے کی غرض سے روس کو افغانستان یا ایران میں ”انگیج“کرے گا۔جس کے بعد خطے میں ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے گی۔اسی واسطے میں نے شاہ ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں خود کو غیرجانبدار رکھیں۔شاہ ایران تو خیر اس کے بعد تھوڑی ہی دیر کے مہمان ٹھہرے۔اور روس افغان جنگ کا آغاز ہوگیا۔لیکن امریکہ اپنے اسوقت کے ساتھی صدام حسین کے ذریعے دونوں مسلم ممالک کو لڑوانے میں کامیاب ہو گیا۔اس جنگ کو بھی امریکی پالیسی میکرز عرب وعجم تو کبھی شیعہ سنی لڑائی کا رنگ دینے میں کامیاب ہوگئے۔نتیجتاً دونوں اسلامی ممالک نے خاطر خواہ نقصان اُٹھایا جس کا فائدہ بالواسطہ چوہدری صاحب کو پہنچا۔ایران اور عرب ممالک کے درمیان پہلے سے موجود فاصلے مزید بڑھ گئے۔

ایران کے صوبے اصفہان کے شہر کاشان میں سیدناعمر فاروقؓکو شہید کرنے والے ابولولو مجوسی کا مقبرہ موجود ہے۔ 2007میں دوھا میں عرب علماءکا اجتماع ہوا جس میں عربی علماءنے ایرانی حکومت سے اس مقبرہ کو گرانے کی درخواست کی۔ایرانی حکومت نے اسے لوگوں کیلئے بند کیا تو اس پر ایک طبقہ نے احتجاج کیا ۔26جون 2007کو اصفہان کے گورنرکے دفتر کے سامنے احتجاج ہوا جس میں اس بات پر برہمی کا اظہار کیا گیا کہ مقبرے کو گرایا جا رہاہے۔اور اسے لوگوں کیلئے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔یہ ایران کے کتنے فیصد لوگوں کا مطالبہ تھا اس سے قطع نظر کچھ احباب نے اسے پوری ایرانی قوم کا فیصلہ قرار دے کر بہت سے فتوﺅں کے واسطے راہ ہموار کرلی۔اس واقع کی تشہیر سے بھی دونوں ممالک کے مابین کچھ اچھا تاثر جنم نہ لے سکا۔(یہ معلومات ایک ویب سائٹ دی سرکل آف انسینٹ ایرانی سٹیڈیز پر موجود ہیں)۔

حج کے اجتماع ‘لبنان اور بحرین کے حالات سمیت متعدد ایسے واقعات ہیں جو سعودیہ اور ایران کے درمیان تناﺅ کا باعث بنے ۔جس سے ہمیشہ اغیار نے فائدہ اُٹھایا۔

پندرہ جنوری 2011کے نیویارک ٹائمزکے مطابق اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق کمپیوٹرائزڈ نظام پر حملہ کیا گیا ۔

2010میں جوہری سائنسدان مسعود علی محمدی اور پروفیسر مجید شہر یاری کو تہران میں قتل کر دیا گیا۔جبکہ جولائی 2011میں ایرانی کے ایک جوہری سائنس کے طالب علم کو قتل کر دیا گیاتھا۔ایران کی خفیہ ایجنسیوں کے بقول یہ قتل اسکے جوہری پروگرام کو تلف کرنے کی خاطر اس کے مخالفین کی طرف سے کروائے گئے تھے۔

گزشتہ پیر کو امریکہ کے اہلکار اسٹیون چو نے ایران کے جوہری پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم ملک ٹال مٹول اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے..امریکی اخبار کے مطابق صدر اوباما نے عالمی جوہر ی توانائی ایجنسی پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق خفیہ معلومات طشت ازبام کر دے ۔تاکہ ایران کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔نیویارک ٹائمز نے اوبامہ انتظامیہ کے سینئر حکام کی جانب سے بتایا ہے کہ ایران کو بے یارومددگار کرنے کیلئے امریکہ کے مرکزی بینک سے مالی ٹرانزیکشنز پر پابندی ‘پٹرولیم مصنوعات پر پابندی سمیت مختلف آپشنز پر غور کیا جارہا ہے تاکہ ایران کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق امریکہ پچھلی دہائی سے عرب ممالک کو ایران سے خوفزدہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیاہے۔جس سے ایک طرف یہودی تاجروں سے عربیوں کی تجارت میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب ان مسلم ممالک میں موجود خلیج خاصی واضح ہوگئی ہے۔نیز فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف عرب سے اٹھنے والی آواز میں بھی وہ دم خم نہیں رہا جو کبھی اس حوالے سے عربوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ میرے خیال کے مطابق یہ اس اُمہ کے لیئے نہایت ابتلاءکا وقت ہے۔

مزید برآں سعودی سفیر کے قتل کا منصوبہ ایک ایسا افسانہ ہے جو تاریخ کے آئینے میں تعصبات کی ان نظروں سے دیکھا جائے جسے ان دونوں ممالک کے دشمنوں نے جگر کا خون پلایا ہے تو یہ ایک خوفناک حقیقت لگتا ہے۔لیکن اگر اسے ایران کے جوہری نظام‘تہران کی اسرائیل مخالف پالیسی اور کسی حد تک اسلامی نظام کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ گوئبلز کے جانشینوں کی من گھڑت کہانی ہے۔جسے وہ سعودیہ کے شیشہ میں اُتار کر مسلم ممالک کی رہی سہی قوتوں کو بھی چکناچور کرناچاہتے ہیں۔ظاہر ہے مشرق وسطی کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اسی کو ہی پہنچے گا۔تو وہ کیوں نے ایسے منصوبے بنائے جس سے وہ ایک تیر سے دو شکار کرسکے۔سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔ممکن ہے(خدا نہ کرے)کہ ایران کے ساتھ کوئی عرب ملک الجھ پڑے اور امریکی اسلحہ کی مانگ بڑھ جائے کیونکہ اس سے اس کی معیشت کو کندھا ملے گا۔اور مستقبل میں اس کے طفیلی اسرائیل کی راہ میں بھی کوئی کانٹانہ رہے گا۔

سعودی سفیر عدیل الجبیرپر قاتلانہ حملے کے منصوبے سے متعلق امریکہ اور ایران دونوں نے اقوام متحدہ کو مراسلے روانہ کردیئے ہیں۔جس میں امریکہ نے موءقف اختیار کیا ہے کہ اس منصوے کی پلاننگ ‘ احکامات اور سرپرستی کی ڈوریں ایران کے اعلٰی حکومتی عہدیداران تک جاتی ہیں۔جبکہ ایرانی حکومت نے اسے کھلم کھلا بہتان اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے سختی سے رد کیا ہے۔اقوام متحدہ کا رد عمل کیا ہوگا اسے جانچنے کیلئے آپ فیصلوں کی پرانی فہرست اُٹھا کر دیکھ لیجئے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران سعودی حکام کو اس ضمن میں اپنے اعتماد میں لے سکے گا یا نہیں اور یہی اصل امتحان ہے ایرانی حکومت کا؟تاحال سعودیہ کے وزیر خارجہ سمیت متعد د اعلٰی حکام ایران سے سخت برہم نظر آئے ۔جسے اگر ایران کی سفارتی کمزوری یا ان ممالک کے درمیان پید ا کی گئی تلخ فضا کا نتیجہ قرار دے دیا جائے تو اس میں کوئی ابہام نہیں ۔لیکن ایران پر چونکہ الزام ہے اس لیئے اسے چاہیئے کہ سعودی حکام سے براہ راست رابطہ کرے اور پاکستان کو اس ضمن میں اپنا کردار اداکرن چاہئے ۔نیز تمام امت مسلمہ کو خیر کی تمنا رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی بھی فقہ کے مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کرنا ہو گاوگرنہ باطل ان کی گردن پر ہی سوار رہے گا اورعموماًتمام مسلم ممالک اور بالخصوص سعودی ایران تنازعات حقیقت کے آئینے میں آنے سے محروم رہیں گے۔
 
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.