کہاں گئے وہ پہلوان .... اور اکھاڑے؟

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں قُدرت کے بخشے ہوئے صرف زمینی پہاڑ ہی نہیں تھے بلکہ پہلوانوں کی شکل میں کئی مُتحرک پہاڑی سلسلے بھی موجود تھے! اِن پہلوانوں کو دیکھ کر دِل کو خواہ مخواہ یقین سا رہتا تھا کہ ہم بھی کبھی نہ کبھی قوم کے دُشمنوں کو خاک چٹا ہی دیں گے۔ شوبز نے ترقی نہیں کی تھی اِس لیے خود رَو پودوں کی طرح اُگنے والی سیلیبریٹیز بھی نہیں تھیں۔ پہلوان اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے کیونکہ ایک ایک پہلوان (شالا نظر نہ لگے) پانچ پانچ سیلیبریٹیز کے برابر تھا! ”ون ٹو کا فور“ کی اِصطلاح نے شاید اِن پہلوانوں ہی کی بدولت رواج پایا تھا!

کلبس اور سرکاری پارک وغیرہ تو زیادہ تھے نہیں اِس لیے اکھاڑے خوب آباد رہا کرتے تھے۔ موبائل اور ایس ایم ایس کی وباءابھی وارد نہیں ہوئی تھی اور ذہنوں کو آلودہ نہیں کیا تھا اِس لیے نئی نسل کے پاس وقت بھی بہت تھا۔ تب بُنیادی سوال کسی کام کے لیے وقت نکالنے کا نہیں بلکہ لامحدود وقت کے پنجے سے زندگی کو محفوظ رکھنے کا تھا! زہے نصیب! اُس دور کے نوجوان خاصا مثبت سوچا کرتے تھے۔ اُن کا خیال یہ تھا کہ اگر دِماغ نہیں پنپتا تو نہ سہی، کم از کم جسم کو تو طاقت بخش ہی دیں! محدود سی زندگی تھی۔ ذہن بہت اُونچی اُڑان نہیں بھرا کرتے تھے۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں گٹار اور کی بورڈز تو تھے نہیں۔ ایسے میں وہ بازوؤں کی مچھلیاں پُھلاکر ہی صنفِ مخالف کو اپنی متوجہ کرنے کی کوشش کرسکتے تھے اور کرتے تھے! اب کیا روزانہ دو سو بیٹھکیں لگانے اور ڈیڑھ سو ڈنڈ پیلنے کے بعد بھی کوئی یہ نہ چاہے کہ کوئی اُسے چاہے؟ والدین بھی مطمئن رہتے تھے کہ چلو۔۔ شو بازی کے لیے سہی، بیٹا صحت بنا ہی رہا ہے، بگاڑ تو نہیں رہا!

جو نوجوان اکھاڑے میں بیٹھکیں لگانے اور زور آزمائی کے عمل میں ہڈی تُڑوانے اور پَٹّھے چڑھوانے سے بچنا چاہتے تھے وہ باڈی بلڈنگ پر اکتفا کرتے تھے۔ باڈی بلڈنگ چہرے کی تازگی نچوڑ لیا کرتی ہے۔ جب صنفِ مخالف باڈی بلڈرز کے بازوؤں کی مچھلیاں دیکھ دیکھ کر بیزار ہوجایا کرتی تھی تب وہ بے چارے باڈی بلڈنگ کی پریکٹس کے ہاتھوں نُچڑا ہوا اپنا سا منہ لیکر رہ جاتے تھے!

اکھاڑوں میں صرف شیخی بگھارنے والے نوجوانوں کا جمگھٹا ہی نہیں لگا کرتا تھا بلکہ اُن میں کُشتیاں (جی ہاں۔۔ منتخب ایوانوں اور ٹی وی چینلز والی نُورا کُشتیاں نہیں، بلکہ حقیقی کُشتیاں) بھی ہوا کرتی تھیں۔ جن لوگوں نے کبھی پہاڑوں کو ٹکراتے نہ دیکھا ہو وہ اکھاڑوں کا رُخ کرتے تھے! کُشتی دیکھنے سے زیادہ لُطف پہلوانوں کو دیکھنے کا تھا! پہلوانوں کو زور لگاتے دیکھنا بھی کچھ کم پُرلطف نظارہ نہ تھا!

اکھاڑوں کا ایک فائدہ اور بھی تھا۔ مَحلے یا علاقے کی خواتین کو برتن مانجھنے کے لیے مِٹّی بھی آسانی سے مل جایا کرتی تھی۔ پہاڑ نُما پہلوانوں کی کُشتی یا دھینگا مُشتی سے مِٹّی دَب دَب کر باریک اور بُھربُھری ہو جایا کرتی تھی اور برتن چمکانے میں (شوہروں کی!) خاصی معاون ثابت ہوتی تھی۔

دیسی پہلوانوں کا بنیادی مسئلہ کُشتی تھا، نہ ہے۔ دیسی کُشتی لڑنے والے بیشتر پہلوانوں نے سرکاری افسروں اور منتخب نمائندوں کا سا مزاج پایا ہے۔ یعنی یہ کہ اُن کی زیادہ توجہ ہمیشہ کھانے پینے پر مرکوز رہی ہے!

اگلے اور اچھے وقتوں میں پہلوانوں کو دیکھ کر خوراک کے معاملے میں قوم کی خود کفالت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ اب پہلوانوں ہی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں خوراک کا بحران بار بار کیوں سَر اُٹھاتا ہے! اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ گزرے زمانوں میں صرف راجہ مہا راجہ ہی گویّا نُما پہلوانوں اور پہلوان نُما گویّوں کو پالنے کے متحمل ہوسکتے تھے! اُن زمانوں میں پکے راگ گانے کے لیے ورزش اور زور آزمائی لازم سمجھی جاتی تھی۔ یہ اہتمام شاید گویّوں کو اِتنا مضبوط بنانا تھا کہ خالص راگ سُن کر کِسی کا خُون کھَول اُٹھے تب بھی وہ گانے والے کا تن و توش دیکھ کر چُپکا بیٹھا رہے!

آپ پہلوانوں کی خُوراک کو فضول خرچی کا مظاہرہ قرار دے سکتے ہیں مگر اچھا ہے کہ یہ بات کبھی کسی پہلوان کے منہ پر کہنے کی غلطی آپ سے سرزد نہ ہو! خوراک پر اُنگلی اُٹھانے والے کو پہلوان ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کچّا چبا جائیں گے! جو لوگ کُشتی دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ کسی دَنگل کے منعقد نہ ہونے پر پہلوانوں کو دستر خوان پر دیکھ کر بھی دَنگل ہی کا مزا لیتے ہیں! صبح و شام مَن بھر کھانے کو پچھاڑ کر پیٹ کے اکھاڑے میں دھکیلنا بھی کوئی معمولی مہارت تو نہیں!

ہمارے پہلوان فن پر کم اور تن پر زیادہ توجہ دیتے آئے ہیں۔ دیسی گھی کو خوراک کا اِس حد تک خوراک کا حصہ بنایا گیا کہ مارکیٹ میں دیسی گھی خال خال ملتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلوانی کا فن خود پہلوانوں تلے دب کر رہ گیا!

پھر یہ ہوا کہ اکھاڑے ہی مِٹّی چاٹنے لگے۔ جس طرح لاکھوں سال کے عمل میں ڈائنوسار معدوم ہوئے تھے بالکل اُسی طرح دیسی کُشتیاں اور پہلوان بھی وقت کی گرد میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ وقت یوں بے دردی سے پہلوانوں اور کُشتی کو پچھاڑ دے گا۔

جب دَنگلوں کا دور ختم ہونے لگا تو بہت سے پہلوان سنیما گھروں میں دادا گیری کرکے گزارا کرنے لگے۔ لگے ہاتھوں وہ سنیما سے ملحق گلیوں میں بھی ”لمبو گلی کا دادا“ بن کر گھر کا چولہا جلتا رکھنے کا اہتمام کرنے لگے۔ مگر ہائے ری بدقسمتی! وقت نے پھر کروٹ بدلی اور جو پہلوان کروٹ بھی مُشکل سے بدل پاتے تھے اُن کے لیے سب کچھ بدل گیا۔ کلوشنکوف اور ٹی ٹی کلچر آیا تو ڈیڑھ پسلی کے لونڈے بھی بدمعاش بن گئے اور بے چارے پہلوانوں نے ایک طرف ہو جانے میں عافیت محسوس کی!

تاریخ پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہر سلطنت اپنے ہی بوجھ سے گرتی ہے۔ یہ کُلیہ پاکستان میں پہلوانوں اور کُشتی کے زوال پر بھی اطلاق پذیر ہوتا ہے! مگر صرف پہلوانوں کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔ مُلک کے اور بہت سے شعبوں کی طرح اکھاڑوں اور دیسی کُشتی کی تباہی میں بھی اہل سیاست کا ہاتھ ہے۔ سب سے بے رحم کردار منتخب اداروں کا رہا ہے جنہوں نے کُشتی کے فن کو اپناکر خود اکھاڑوں میں تبدیل کرلیا ہے! مُنتخب ایوانوں کی نوعیت بدلنے سے اکھاڑوں کے لیے زیادہ کیام، تھوڑا سا پنپنے کی بھی گنجائش نہیں رہی! بعض مَنچلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مِٹّی سے اَٹے اکھاڑوں میں وہ دھینگا مُشتی کہاں جو منتخب اداروں کی عمارات میں سنگ مرمر کے فلورز پر ہوا کرتی ہے! عوام کے بہترین مفاد میں (!) اُن کے مُنتخب نمائندے جب باہم دست و گریباں ہوتے ہیں تو پوری قوم مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے دیسی کُشتی کے دَنگل بھول کر ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتی ہے! میڈیا میں دَنگلی ایونٹس بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ سیاسی پاکستان کا رُستم کہلانے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں بھی ہوش رُبا رفتار سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ داؤ پیچ سیکھنے اور پنجہ آزمائی کے لیے روایتی پہلوان کِسی منتخب ادارے کا رُخ کریں تو سیاسی پہلوانوں کے عزائم اور اُن کا عملی اِظہار دیکھ کر زیادہ آسانی سے دَنگل کی تیاری کرسکتے ہیں!

عوام کے بعض منتخب نمائندے، اللہ نظر بد سے بچائے، کُشتی کے فن کو فروغ دینے میں تن و توش اور انداز و فن دونوں اعتبار سے نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں! اِنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے پہلوان ختم ہوسکتے ہیں نہ کُشتی۔ جن لوگوں کو معاشرے اور حکومت سے یہ شِکوہ ہے کہ پہلوانی کے فن کو فروغ دینے پر توجہ نہیں دی جارہی وہ منتخب ایوانوں کی کارروائی دیکھنے کی کوشش کیا کریں! تلخ کلامی، دُھول دَھپّا، چھینا جَھپٹی اور دھینگا مُشتی.... کیا ہے جو ”کارروائی“ کا حصہ نہیں! اور جو کچھ کارروائی سے حذف کردیا جاتا ہے اگر اُس پر بھی نظر دوڑائی جائے تو مزا نہ آنے پر پیسے واپس!

کہتے ہیں کہ گاما پہلوان نے ریلوے انجن کو اپنے زور بازو سے روک دیا تھا۔ انگریز کی چلائی ہوئی ٹرینیں واقعی اِتنی طاقتور تھیں کہ اُنہیں روکنے میں کامیاب ہونے والے کو طاقتور گردانا جاسکتا تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ ریلوے انجن کو روکنے کے لیے پہلوان ہونا تو دور کی بات ہے، دو پَسلی کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ کوئی بھی ذرا سی طاقت استعمال کرکے انجن ہی نہیں، پوری ٹرین کو روک سکتا ہے! اب وفاقی وزیر ریلوے ہی کو دیکھ لیجیے۔ ذرا اُن کی صحت پر غور فرمائیے اور پھر اِس امر کا جائزہ لیجیے کہ اُنہوں نے تن تنہا بیسیوں ٹرینیں اِس طرح روک دی ہیں کہ ٹَس سے مَس ہونے کا نام نہیں لے رہیں! بات شروع ہوئی تھی دیسی کُشتی اور خالص دیسی پہلوانوں سے اور پہنچ گئی منتخب ایوانوں اور ٹرینوں تک۔ منتخب ایوانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ اب اُن میں کوئی بھی، کِسی خاص دِقّت کے بغیر پہنچ سکتا ہے۔ رہا ٹرینوں کا معاملہ تو جناب! اب ٹرینوں نے تو کہیں آنا جانا چھوڑ ہی دیا ہے اِس لیے بات کو خود چل کر اُن تک پہنچنا پڑتا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524883 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More