ہم بحیثیت قوم جس قدر عقیدت پسند واقع ہوئے
ہیں کاش اُتنے ہی حقیقت پسند بھی واقع ہوئے ہوتے۔ ہمیں ہر وہ اِنسان بُرا
لگتا ہے جو حقیقت کو بنیاد بناکر کوئی بات کر بیٹھتا ہے۔ اب اِسی بات کو
لیجیے کہ غلام احمد بلور صاحب نے خاصی بلوریں یعنی شفاف اور حقیقت پسندانہ
بات کہی ہے تو لوگ لٹھ لیکر پیچھے پڑگئے ہیں۔ موصوف نے ریلوے کے وزیر کی
حیثیت سے فیصلہ کن رائے دی ہے کہ ریلوے کا محکمہ بند کردیا جائے! اسلام
آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے غلام احمد بلور نے کہا کہ وہ صدر
کو ریلوے کا محکمہ بند کرنے اور مستعفی ہونے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ہمیں اِس
بات پر بلور صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ہوا میں تیر نہیں
چلایا بلکہ ایک بھرپور مثال کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کے مفاد میں صدر کو
صائب مشورہ دیا ہے۔ ریلوے کے وزیر کا کہنا ہے کہ کئی ممالک ریلوے کے بغیر
بھی چل رہے ہیں جن میں افغانستان نمایاں ہے۔ ہم تو خدا لگتی کہیں گے کہ
بلور صاحب کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ افغانستان دُنیا کے نقشے پر ایک
ملک کی حیثیت سے موجود ہے اور ریلوے کے بغیر بھی چل رہا ہے۔ اور ایک
افغانستان پر کیا موقوف ہے، کئی ممالک نے غیر معمولی دانش کا مظاہرہ کرتے
ہوئے ریلوے کا ٹنٹا پالنے سے اب تک اجتناب برتا ہے۔ اور کچھ نہ سہی، لاکھ
ڈیڑھ لاکھ ملازمین کی تنخواہوں کے بوجھ سے تو وہ بچے ہوئے ہیں!
شکر ہے بلور صاحب نے یہ نہیں کہا کہ ریلوے کے بغیر بھی افغانستان قائم و
دائم ہے اور امریکہ جیسی سپر پاور کو منہ دے رہا ہے اور یہ کہ اپنے ہاں
ریلوے ختم کرکے ہم بھی امریکہ سے ٹکر لینے کے قابل ہو جائیں گے!
ہماری کوئی انٹرسٹی یا انٹر پراونشل بس سروس وغیرہ نہیں مگر پھر بھی ہم اِس
بات کے حق میں ہیں کہ ریلوے کے محکمے کو تالا لگادیا جائے کیونکہ ٹرینوں کی
شکل میں مدت سے پٹڑیوں پر خسارہ دوڑ رہا ہے۔ اگر پی آئی اے کو بھی گن لیا
جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ خسارہ اُڑ بھی رہا ہے! اِسی کیفیت کو کِسی شاعر
نے یوں بیان کیا ہے
محبت میں اِک ایسا وقت بھی انسان پی آتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں، طُغیانی نہیں جاتی!!
ہوسکتا ہے آپ یہ سوچیں گے کہ ریلوے کا محکمہ بند کردیا گیا تو دنیا ہم پر
ہنسے گی۔ اگر ہم اپنی بوگیاں اور انجن دنیا کو دکھادیں اور باہر کے لوگوں
کو اپنے ریلوے اسٹیشنز کی سیر کرادیں وہ یہ سوچ کر زیادہ ہنسیں گے کہ اِس
محکمے کو اب تک برقرار کیوں رکھا ہوا ہے! ہم کب تک دنیا کو اپنے اوپر
ہنسواتے رہیں گے؟ اچھا ہے کہ نہ رہے ریلوے، نہ ہنسے دُنیا!
سب سے پہلے تو ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کِن کِن چیزوں کے بغیر
جی رہے ہیں۔
٭ کسی بھی طرز کی حکمرانی کے بغیر بھی حکومت چل رہی ہے! ہم ایسے جمہوری دور
میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں جمہوریت کے سِوا سبھی کچھ جلوہ گر اور
کارفرما دکھائی دے رہا ہے!
٭ قوانین پر عملدرآمدیقینی بنائے بغیر بھی قانون کی وزارت قائم و دائم ہے
نا؟
٭ ٹریفک کے قوانین کا نفاذ برائے نام ہے مگر پھر بھی سڑکوں پر گاڑیاں رواں
دواں ہیں!
٭ انصاف کی فراہمی برائے نام ہے مگر عدالتوں میں مقدمات کو نمٹایا جارہا ہے
اور فیصلے ”قبول“ بھی کئے جارہے ہیں!
٭ کسی بھی طرح کی تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی زحمت گوارا کئے بغیر تعلیمی
ادارے قائم ہیں اور دَھڑلّے سے چلائے جا رہے ہیں!
٭ سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولتیں ناپید ہیں مگر پھر بھی مریض اِن
ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں اور ”شفا یاب“ ہونے کا تاثر لیکر نکلتے ہیں!
٭ کرکٹ بھلے ہی ختم ہوگئی ہو مگر خیر سے قومی کرکٹ ٹیم سلامت ہے اور کرکٹ
کے سِوا تمام کھیل پوری لگن اور جذبے سے کھیل رہی ہے!
٭ کوئی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا مگر اِس کے باوجود سرکاری ادارے
چل رہے ہیں۔
٭ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی ابلاغ کا حق ادا کئے بغیر بھی ملک بھر میں
میڈیا کے ادارے قائم ہیں اور خوب پَھل پُھول رہے ہیں!
دیکھا آپ نے؟ جب اِتنے سارے کام ”بحسن و خوبی“ انجام پا رہے ہیں تو پھر ایک
ریلوے کا محکمہ نہ ہونے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟
فضول خرچی ایک خاص حد تک برداشت کی جاسکتی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ
لاکھوں ٹن لوہا مسافر ٹرینوں کی بوگیوں اور مال گاڑی کے ڈبوں کی شکل میں
اِدھر سے اُدھر رُلتا پھر رہا ہے۔ اور دوسری طرف لاکھوں ٹن لوہا پٹڑیوں کی
شکل میں دھول چاٹ رہا ہے یا دھوپ جھیل رہا ہے۔ دنیا کیا سوچے گی کہ ٹرینیں
تو ہم چلا نہیں رہے اور اِتنا سارا لوہا بے مصرف پڑا ہے۔ ٹرینوں کے نصیب
میں تو منزل تک پہنچنا شاید لکھا نہیں۔ پھر کیوں نہ اِتنی بڑی مقدار میں
پڑے پڑے سڑنے والے لوہے کو کسی منزل تک پہنچایا اور ٹھکانے لگایا جائے!
ریلوے اسٹیشنز کو پبلک پارکس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ پرانے ریلوے
اسٹیشن پارک کے ساتھ ساتھ عجائب گھر کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔ چند ایک
ریلوے اسٹیشنز ایسے بھی ہیں جن کی سیر کرکے نئی نسل سیکھ سکتی ہے کہ ساتھ
ستّر سال قبل بنیادی سہولتیں کس نوعیت کی ہوا کرتی تھیں اور اُن کی فراہمی
کا بندوبست کس طرح کیا جاتا تھا! مسافر بوگیوں کو ”موونگ ریسٹورنٹس“ کا
درجہ دیا جاسکتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا۔ آپ
بھی اِس نکتے سے تو اتفاق کریں گے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج
کرانا کوئی بُری بات تو نہیں! ریلوے کی ڈائننگ کار میں کام کرنے والے ویٹرز
کو بھی مہم جوئی کے بین الاقوامی مقابلوں میں بھیج کر قوم کے لیے چند تمغے
جیتے جاسکتے ہیں!
ریلوے کے محکمے میں سوا لاکھ سے زائد ملازمین ہیں۔ بعض ممالک کے تمام
سرکاری ملازمین کی تعداد بھی اِتنی نہیں ہوتی۔ حکومت کو یہ ”ملازم پسند“
پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ چند ماہ کے دوران محکمے کی مالی حالت خراب ہونے سے
ملازمین احتجاج کرتے رہے ہیں جس سے اُن کی خاصی پریکٹس ہوچکی ہے۔ حکومت
چاہے تو سیاسی جماعتوں کو جلسوں کے لیے اچھے اور سخت جان قسم کے بندے فراہم
کرسکتی ہے!
مرزا تنقید بیگ کو پریشان ہونے کا بہانہ چاہیے۔ جب سے ریلوے کی بندش سے
متعلق غلام احمد بلور کا بیان پڑھا ہے، ریلوے انجن کی سیٹی کی طرح شور
مچائے جارہے ہیں۔ بلور صاحب کے بارے میں اُن کے ریمارکس اِتنے خطرناک ہیں
کہ اگر طشت از بام ہو جائیں تو ملک بھر کے پلیٹ فارمز پر اُن کا داخلہ
ممنوع قرار دے دیا جائے! کل ہمیں متوجہ پاکر مرزا کہنے لگے ”ریلوے کے محکمے
کی بدولت ہم اب تک کسی نہ کسی طور بین الصوبائی رابطہ برقرار رکھے ہوئے
ہیں۔“ ہم نے کہا بھائی صاحب! اِسی بات کا رونا ہے کہ ہم عالمی برادری کے
ساتھ مل کر نہیں چلتے۔ مرزا بولے ”اِس میں عالمی برادری کہاں سے آگئی؟“ ہم
نے عرض کیا کہ دُنیا کی خواہش ہے کہ ہمارا ہر صوبہ خود مختار ہو اور دوسرے
کوئی غرض نہ رکھے، اپنے بل پر جیے، کسی پر منحصر نہ ہو۔ اگر ریلوے کا محکمہ
سلامت رہ گیا تو ملک کے چاروں صوبے باہمی انحصار کے جنگل میں بھٹکتے رہیں
گے، کبھی خود مختاری اور خود کفالت کی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے!
مرزا ہماری بات مان جائیں، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ ریلوے کی ممکنہ بندش نے
اُنہیں خاصا جذباتی کردیا ہے۔ جب بھی ٹی وی پر غلام احمد بلور کو دیکھتے
ہیں، زور زور سے کچھ بڑبڑانے لگتے ہیں۔ رب کا شکر ہے کہ جس طرح ہم بلور
صاحب کی کوئی سمجھ نہیں پاتے اُسی طرح مرزا کی بھی کوئی بات کسی کی سمجھ
میں نہیں آتی! |