آمروں کی ”شُتر مُرغانہ“ سوچ

جو طاقت اور جبر کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں وہ بالعموم حیوانات سے بہت پیار کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور حیوانات سے اُنہیں پیار کیوں نہ ہو، جن پر حکومت کرتے ہیں اُنہیں بھی تو وہ حیوان ہی سمجھتے ہیں اور ویسا ہی سُلوک روا رکھتے ہیں! جنہیں جنگل کا قانون نافذ رکھنے سے شغف ہو وہ جنگل کے جانوروں کو کیوں نہ اپنائیں؟

جانور پالنے کی بھی عجیب ہی منطق ہے۔ جیتے جاگتے انسانوں کو قبر کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے والے حیوانات سے اچھا سلوک کرتے پائے گئے ہیں۔ یہ محبت اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود بھی جانور ہوتے جاتے ہیں! یا پھر شاید یہ کیس ہو کہ جانور اپنائیت محسوس کرکے اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہوں! ہمارے ہاں چند برسوں میں جو ذہنیتیں پروان چڑھی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ جی بھر کے غلط بلکہ حرام کام کیجیے اور پرندوں کو دانہ دُنکا ڈال کر اطمینان سے سو جائیے کہ معصوم پرندوں کی دُعا سے سارے گناہ دُھل جائیں گے! چرند پرند کو کچھ کِھلانا پلانا یقیناً اچھی بات ہے مگر اِس کِھلانے پلانے کے عوض گناہوں کے دُھلنے کی اُمید رکھنا بالیقین سادہ لوحی اور خوش فہمی کی انتہا ہے!

لیبیا کے ”مردِ آہن“ معمر قذافی کے فارم ہاؤس کا بھی باقی ملک کی طرح بہت بُرا حال ہے۔ جس طرح قذافی نے قوم سے منہ موڑ کر رُوپوشی اختیار کی ہے بالکل اُسی طرح اچھا وقت اُن کے فارم ہاؤس سے رُوٹھ گیا ہے! ایک خبر یہ آئی ہے کہ وسیع و عریض فارم ہاؤس میں کئی نسلوں کے اُونٹوں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد شُتر مُرغ بھی تھے۔ خوراک نہ ملنے سے 500 شُتر مُرغ ہلاک ہوچکے ہیں۔

معمر قذافی بھی پیٹ بھر کر عجیب واقع ہوئے ہیں۔ اُنہیں اُونٹوں سے غیر معمولی شغف رہا ہے۔ وہ خود بھی اِقتدار کے خیمے میں اُونٹ کی طرح گھسے اور سب کو نکال باہر کیا۔ اُونٹ کی طرح قذافی کی بھی کوئی کَل سیدھی نہیں پائی گئی۔ بہت سے لوگ اب تک سمجھ نہیں پائے کہ ٹیڑھے پن کے معاملے میں کِس نے کِس کا اثر زیادہ قبول کیا ہے! حد تو یہ ہے کہ قذافی کے سَر پر پرندے پالنے کی دُھن سوار ہوئی تو اُن میں بھی اُونٹ تلاش کیے اور ”شُتر مُرغ“ پالے! اور اُونٹ بھی کئی اور دوغلی نسلوں کے پالتے رہے۔ ہم (بھی) سمجھ نہیں پائے کہ جب شیشہ ایجاد ہو ہی چکا ہے تو اِس قدر اہتمام کی کیا ضرورت تھی؟ اور دوغلی نسل کے اُونٹ پالنے کی تو خیر سِرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی! اُونٹ یا آمر خواہ کِسی نسل کا ہو، اُس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہوتی!

لیبیا کے شہری بھی سوچتے تو ہوں گے کہ کاش معمر قذافی نے پورے ملک کو اپنا فارم ہاؤس سمجھ لیا ہوتا۔ اِس صورت میں وہ شہریوں کو پالنے کے معاملے میں اُسی دُلار کا مظاہرہ تو کرتے جو اُنہوں نے فارم ہاؤس کے جانوروں پر نِچھاور کیا۔ قذافی زندگی بھر انصاف پسندی کا راگ الاپتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے عوام سے ہمیشہ امتیازی سُلوک روا رکھا۔ فارم ہاؤس کا کوئی پسندیدہ جانور مر جاتا تھا تو قذافی اُس کی کھال میں بُھوسا بھرواکر محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ اختلافِ رائے رکھنے والوں کے معاملے میں وہ مَرنے کا انتظار کرنے کے مُکلّف نہ تھے!

فارم ہاؤس نے قذافی کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ معلوم نہیں کہ اُنہوں نے لومڑیاں پالیں یا نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کو بچانے کے معاملے میں وہ صحرائی لومڑی کی طرح چالاک تھے۔ اگر فارم ہاؤس میں لومڑیاں ہوتیں تو یقیناً ریفریشر کورس کے ذریعے اُن سے بہت کچھ سیکھتیں!

شِکار کے معاملے میں قذافی ببر شیر کا سا مزاج رکھتے تھے یعنی خود کچھ نہیں کرتے تھے اور گارڈز اور نرسوں کی شکل میں غیر ملکی ”شیرنیوں“ کو متحرک رکھتے تھے! قذافی نے دعوے تو شیر ہونے کے کئے مگر قومی خزانے میں دانت سگِ آوارہ کے مانند گاڑتے رہے! از خود نوٹس کے ذریعے قوم کے خیر خواہ بن بیٹھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو قذافی نے اپنی ٹیم میں رکھا وہ بھی قومی وسائل کو اُسی طرح ڈکارتے رہے جس طرح جنگل میں درندے لذیذ گوشت والے جانوروں کو ہڑپ کیا کرتے ہیں۔ اور صاحب! ایک لیبیا اور قذافی پر کیا موقوف ہے، جہاں کہیں بھی اقتدار پر چند اشخاص، عوام کی مرضی کے بغیر، قابض ہو جاتے ہیں وہاں رات دن یہی تماشا ہوتا ہے۔ آمروں کے چیلے قومی اداروں سے جونکوں کی طرح چمٹے رہتے ہیں اور قوم کی جڑیں کو دیمک کی طرح کھوکھلی کرتے رہتے ہیں۔ عوام کو ہوش اُس وقت آتا ہے جب قومی وسائل کا شہتیر بُھربُھرا ہوکر طاقت میں تِنکے کے برابر رہ جاتا ہے!

دنیا بھر میں اہل اقتدار کا وطیرہ ہے کہ اِنسانی شکل میں درندے پال رکھتے ہیں اور کبھی کبھی سیاسی ضرورت کے تحت، طاقت کا توازن درست کرنے کے لیے، اُنہیں کُھلا چھوڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اُلٹا ہے۔ یہاں جب معاملات قابو میں رہتے دِکھائی نہ دیں تب کچھ دیر کے لیے سیاسی درندوں (ٹارگٹ کِلرز) کو باندھ کر رکھا جاتا ہے! نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چرند پرند بھی درندے بن گئے ہیں۔ بقول پروین شاکر
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹاکے گھاس
سُورج کی شہہ پہ تِنکے بھی بے باک ہوگئے!

سیاسی ضرورت کے تحت پالتو جاں نثاروں کو استعمال کرنے کے معاملے میں قذافی نے خاصی نا اہلی اور عدم بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ اگر وہ اقتدار کے آخری دنوں میں پاکستان کا دورہ کرلیتے تو مزید بہت کچھ سیکھ لیتے اور چند ایک منفرد آئیڈیاز لیکر وطن کی راہ لیتے۔

اگر قذافی نے اپنے فارم ہاؤس میں شُتر مُرغ پالے تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہر آمر مزاجاً شُتر مُرغ ہی ہوتا ہے۔ شُتر مُرغ کا دِماغ اُس کی آنکھ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ آمروں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر آمروں کو تو اِس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ دِماغ بچا بھی ہے یا نہیں!

ہر آمر کسی بھی بُحرانی کیفیت کو سامنے دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا اور شُتر مُرغ کی طرح ریت میں سَر دباکر یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا! اِس معاملے میں آمر صاحبان کبوتر کے نقش قدم پر بھی چلتے ہیں جو اپنے سامنے بلی کو پاکر آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اِس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا!

شُتر مُرغ کہنے کو تو پرندہ ہے مگر اُڑ نہیں سکتا۔ آمرانہ طرز حکومت اختیار کرنے والے بیشتر افراد بھی اپنے بھاری وجود سے مخالفین کو ڈرا ضرور سکتے ہیں، وقت آنے پر اُڑ نہیں سکتے!

قذافی نے بھی ”شُتر مُرغانہ“ اور کبوترانہ ذہنیت ہی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پہلے صرف سَر ریت میں تھا، اب اُن کا پورا وجود اپنی شکل گم کرچکا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483460 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More