ایمان کی کشش

مکہ میں پیارے رسول ﷺ کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے دس سال گزر چکے تھے ۔ مکہ کے گلی کوچوں میں ہر طرف اسلام کے چرچے تھے۔ بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں کچھ بچے بھی مسلمان ہو چکے تھے۔ پیارے نبی ﷺ کی زبان مبارک میں یہ اثر تھا۔ کہ جو بھی آپ کی زبان سے حق کی آواز سنتا، آپ کے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا اور آپ ﷺ پر جان چھڑ کنے لگتا۔ یہ حالت دیکھ کر مکہ کے کافر بہت جھنجھلاتے ۔ رسول اللہ ﷺ کو جادو گر کہتے اور لوگوں کو روکتے اور ان پر زور ڈالتے کہ ان کی باتیں نہ سنو ۔ انہی دنوں یمن کے ایک مشہور شاعر طفیل مکے میں آئے یہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اور یمن کے لوگ ان کو بہت مانتے تھے جب یہ مکہ پہنچے تو مکہ والوں نے ان کا بڑا شاندار استقبال کیا اور بڑی عزت سے پیش آئے ۔ مگر مکہ والوں کو یہ فکر ہوگئی کہ اگر کہیں طفیل نے محمد ﷺ کا کلام سن لیا تو یہ ضرور مسلمان ہو جائیں گے ۔ وہ کلام ہے ہی ایسا کہ سننے والا بغیر اثر لئے رہ ہی نہیں سکتا۔ اور پھر طفیل تو خود ایک شاعر ہیں کلام کی اچھائی کو پرکھنے والے ہیں ۔ محمد کا اونچا پر اثر کلام اور پھر ان کے سیرت و اخلاق کی کشش طفیل نے اگر ان کو دیکھا تو مسلمان ہو ہی جائیں گے ۔ اور اگر یہ مسلمان ہو گئے تو ان کا پورا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا۔

مکہ والوں کے لئے طفیل کا یہاں آنا ایک بڑا حادثہ بن گیا طفیل نے ان کو بڑی فکر میں ڈال دیا۔ سب سمجھ دار لوگ مل جل کر بیٹھے ۔ آپس میں مشورہ کیا اور یہ طے ہو گیا کہ جیسے بھی ہو طفیل کو حد سے ملنے نہ دیا جائے ۔ کچھ لوگ طفیل کے پاس پہنچے اور اور بڑی رازداری اور خیر خواہی کے انداز میں تفصیل سے کہا۔ آپ نے ضرور ذکر سنا ہوگا۔ ہمارے یہاں ایک صاحب ہیں وہ کچھ دنوں سے اپنے آپ کو نبی کہنے لگے ہیں، بڑے زبر دست جادو گر ہیں ان کی باتوں میں بلا کا اثر ہے۔ ان کی باتیں سننے والا ان کے جادو سے ہر گز نہیں بچتا، جو بھی ایک بار ان کی باتیں سن لیتا ہے بس انہی کا ہو کے رہتا ہے، مکے کے بہت سے بھولے بھالے ان کے جادو میں پھنس گئے ہیں اور اپنے باپ دادا کے دین سے پھر گئے ہیں۔ بہت سے گھرانے ہیں جہاں انھوں نے بیٹھے بیٹھائے باپ بیٹوں میاں بیویوں اور چاچا بھتیجوں میں لڑائی کرا رکھی ہے اور پھر جس پر بھی ان کا جادو چل جاتا ہے وہ ایسا ہکا بکا ہو جاتا ہے۔ کہ پھر وہ کسی کی نہیں بنتا بھلا کیا مجال کہ کوئی اپنی بات سے ہٹا سکے۔ آپ کو یہ سب باتیں ہم نے اس لئے سنا ئیں کہ آپ ہوشیار رہیں۔ طفیل نے ان لوگوں کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور دل میں طے کر لیا کہ کچھ بھی ہواس شخص کی بات ہرگز نہ سنوں گا کہیں میرے اوپر بھی اس کے جادو کا اثر ہو گیا تو کیا ہوگا۔ اور پھر تو طفیل کعبہ میں جب بھی جاتے کانوں میں خوب خوب روئی ٹھونس لیتے کہ کہیں اس شحض کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔

ایک دن کعبہ میں پیارے رسول ﷺ نماز میں قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ اتفاق کی بات طفیل بھی پہنچ گئے خدا کا کرنا قرآن شریف کی آواز کان میں پڑگئی۔ انھیں یہ آواز بہت بھلی لگی۔ پہلے تو ٹھٹکے لیکن پھر سوچا کہ خود شاعر ہوں اچھی بری بات کو سمجھتا ہوں کلام کی باریکیوں اور خوبیوں سے میں واقف ہوں۔ کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھ سکتا کہ کونسی بات میرے لئے اچھی ہے اور کونسی بری سننا تو چاہیے کہ آخر یہ صاحب کس قسم کی باتیں کرتے ہیں یہ سوچ کر انھوں نے اپنے کان ادھر لگا دیئے۔ پیارے رسول ﷺ قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ اور طفیل کا دل آہستہ آہستہ پگھل رہا تھا۔ ایک ایک آیت ان کے دل پر اثر کر رہی تھی۔

رسول اللہ ﷺ نے نماز ختم کی اور گھر جانے لگے طفیل بھی پیچھے پیچھے ہو لئے رسول اللہ ﷺ جب اپنے دروازے پر پہنچے تو ایک آواز آئی حضرت مجھے بھی اندر چلنے کی اجازت دیجٸے
پیارے نبی ﷺ نے مڑ کر دیکھا کہ یمن کے معزز سردار طفیل آپ سے اندر چلنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ رسول اللہ اللہ بڑی عزت سے انھیں گھر کے اندر لے گئے اپنے پاس بیٹھایا اور آنے کی وجہ پوچھی۔ طفیل نے اپنی پوری آپ بیتی سنائی۔ پیارے نبی ﷺ نے بڑی دل جوٸی سے طفیل کی آپ بیتی سنی۔ پھر طفیل نے کہا حضور مجھے اپنی کچھ باتیں سنائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی چند اثر بھری آیتیں پڑھ کر سنا ئیں۔ طفیل بڑے غور سے قرآن کی آیتیں سن رہے تھے اور انھیں ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ دل کی سیاہی دھل رہی ہے غفلت کے پردے اٹھ رہے ہیں اور حقیقت کا جمال ان کی آنکھوں کو روشن کر رہا ہے۔ جب پیارے رسول ﷺ تلاوت فرما چکے تو طفیل نے کہنا شروع کیا، اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیدا کیا میں نے عرب کا ایک سے ایک اچھا کلام سنا ہے مگر آج تک ایسا اونچا موثر اور پاکیزہ کلام بھی نہیں سنا۔ یہ کلام تو سراسر ہدایت ہے، سراسر نور ہے، سراسر انصاف ہے اس سے منہ موڑ نا ہدایت سے منہ موڑتا ہے۔ خدا کی قسم یہ کسی انسان
کا کلام نہیں ہے۔ یہ انسانوں کے پیدا کرنے والے خدا کا کلام ہے طفیل کہے جارہے تھے اور رسول ﷺ کا دل ان کی ہدایت پر باغ باغ ہورہا تھا۔ پھر آپ ﷺنے طفیل کو اسلام کا کلمہ پڑھایا اور ایمان کے نور سے ان کے سینے کو جگمگا دیا۔ یمن کا یہ معزز مہمان اب ایمان کی عزت بھی پاچکا تھا مکہ میں داخلے کے وقت صرف دنیا کی عزت حاصل تھی اب اسے دین کی عزت بھی حاصل ہو گئی۔ جب طفیل نے یمن کو واپسی کا ارادہ کیا تو پیارے رسول ﷺ سے عرض کیا حضور میرا سینہ تو نورایمان سے جگمگا اٹھا لیکن میرا قبیلہ اور گھر کے لوگ تو کفر کے اندھیرے میں پھنے ہوئے ہیں یا رسول اللہ ﷺ دعافرمائیے کہ اللہ تعالیٰ انھیں بھی ایمان کی دولت بخشے ۔ پیارے رسول ﷺ نے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے ،اے اللہ تو طفیل کو اسلام کا نشان بنا دے کہ اس سے لوگ اسلام کی راہ پائیں۔

طفیل ایمان کی تڑپ لئے گھر پہنچے بوڑھے والد سے ملاقات ہوئی طفیل بولے ابا میں کفر کے اندھیروں سے ایمان کی روشنی میں آگیا ہوں ابا اب میرا آپ کا کوئی رشتہ نہیں میں مکہ کے سچے رسول ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اب میرا رشتہ صرف اسی شخص سے ہے جو اس رسول ﷺ کا کلمہ پڑھے اور اسلام کو اپنا دین مانے طفیل کی یہ دل سے نکلی ہوئی باتیں سن کر والد سوچ میں پڑ گئے۔ اچھا ایمان میں یہ قوت ہے کہ اس سے باپ بیٹے کا رشتہ بھی ختم ہو سکتا ہے کیا ایمان کا رشتہ باپ بیٹے کے رشتے سے بھی زیادہ ہے طفیل کے باپ عمرو دوسی نے سوچا اور اپنے بیٹے سے کہا طفیل لاؤ ہمیں بھی سناؤ اس رسول کی باتیں طفیل نے سمجھا کر باپ کو اسلام کا پیغام سنایا۔ حق کی کشش نے کام کیا اور بوڑھے باپ نے بیٹے سے کہا۔ طفیل بیٹے تم میرے بیٹے ہو اور میں تمہارا باپ ہوں میں بھی اسی نبی پر ایمان لاتا ہوں جس پر تم ایمان لائے ہو۔ طفیل کی آنکھیں خوشی سے بہہ پڑیں اور بولے ابا جان چلئے غسل فرما لیجئے اور اسلام کا کلمہ پڑھ کر اللہ کے پیارے بن جائیے۔ عمرو دوسی نے غسل کیا کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔ باپ کے بعد محبت کرنے والی بیوی سے ملاقات ہوئی۔ بیوی کو دیکھ کر طفیل کی آنکھوں میں محبت کے آنسو آگئے مگر وہ فورا ہی سنبھلے اور بیوی سے کہا۔

پیاری بیوی اب ہمارا تمہارا کیا رشتہ میں تو مکہ والے نبی پر ایمان لا چکا ہوں اور تم ایمان کی روشنی سے محروم ہو میں اسلام کی روشنی میں چل رہا ہوں اور تم کفر کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہو ، ایمان اور کفر کا کیا ساتھ میرا رشتہ تو صرف ان لوگوں سے ہے جو اس خدا کی بندگی کریں جس کا کوئی شریک نہیں اور اس رسول پر ایمان لائیں ، جسے خدا نے ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ طفیل کی اثر بھری تقریر سن کر بیوی کے دل کے دوازے بھی کھل گئے۔ حق کی کشش نے اسے بھی کھینچ لیا اور وہ کہنے لگی۔ پیارے شوہر آپ میرے شوہر ہی ہیں اور میں رہتی زندگی تک آپ کی رفاقت ہی میں رہوں گی۔ میں بھی اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو ساری کائنات کا خالق ہے اور ایمان لاتی ہوں اس رسول ﷺ پر جس پر آپ ایمان لائے ہیں طفیل کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا ان کا چہرہ حق کی فتح پر چمک رہا تھا اور وہ یہ سوچ ہے تھے کہ کتنی کشش ہے ایمان میں؟۔
( بحوالہ سیرت النبی)


 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 434 Articles with 244797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.