عمرہ زائرین کی پہچان ، پاکستانی بھیک مانگتی خواتین اور بچوں سے محبت


مکہ میں رہائش کے دوران عمرہ زائرین کی پہچان ان کے کپڑوں سے ہوتی ہیں ، لیکن یہاں بھی ایک عجیب سی صورتحال ہے ، پاکستانی ، بنگلہ دیش اور بھارت کے عمرہ زائرین کی اپنی پہچان ہے ، پاکستان کے عمرہ زائرین کے کپڑوں اور نقوش سے ان کی پہچان ہوتی ہیں ، اسی طرح بنگلہ دیش کے عمرہ زائرین کا رنگ اور وہاں کے بزرگ لوگ داڑھیوں کو زیادہ تر خضاب لگاتے ہیں جس سے ان کی پہچان ہوتی ہیں جبکہ بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی بھی اپنی ایک پہچان ہے ، کچھ لوگ دھوتی پہنتے ہیں ، ایک مخصوص ڈیزائن کی سفید رنگ کی ٹوپی پہنتے ہیں جو بھارتی زائرین کی پہچان ہے ، اسی طرح افغانستان سے آئے ہوئے عمرہ زائرین کی پہچان کے ان کے کپڑے ، لمبی تسبیح اور مخصوص انداز میںٹوپی یا پھر کپڑے سے بال چھپانے کی عادت ہے کم و بیش یہی سٹائل کوئٹہ کے لوگوں کا بھی ہے ازبک لوگوں کی اپنی پہچان ہے ، اسی طرح فلپائن کے خواتین و مرد زائرین بھی پہچانے جاتے ہیں جبکہ افریقی ممالک کے زائرین کی پہچان ان کی رنگ سے ہو جاتی ہیں ، اسی طرح حرم پاک میں مخصوص انداز اور رنگ کے کپڑے جو ہمارے ہاں خواتین پہنتی ہیں اس رنگ کے افریقی عمرہ زائرین کپڑے پہنتے ہیں ،جو ان کے علاقوں کی ثقافت کی پہچان بھی ہوتی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود سعودی عرب کے مردوں کے لمبی قمیض کی اپنی پہچان ہے. جو حرم کے بیشتر بازاروں میں ملتی ہیں ، فٹ پاتھ پر اس کی قیمت اگردس سے بیس ریال ہیں تو دکان میں اس عربی انداز کے بڑے قمیض کی قیمت کپڑے کی کوالٹی کے مطابق پچاس سے پچاسی ریال تک ہوتی ہیں ، جو ہمارے جیسے بہت کم لوگ خرید سکتے ہیں ، لیکن بیشتر یورپی ممالک کے عمرہ زائرین یہی لمبی قمیض پہن کر پھرتے ہیں .

حرم میں ہر نماز کے بعد نماز جنازہ ہوتی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ ان جنازوں کوپڑھتے ہیں ، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی کے گھر میںنماز جنازہ نصیب ہوتا ہے یہی صورتحال مدینہ منورہ میں بھی ہوتی ہیں ، ہر نماز کے دوران حرم میں نماز کے دوران بچوں کے رونے کی آواز سنی لیکن کبھی نہیںدیکھا کہ کوئی جا کر کسی خاتون کو کہہ دے کہ خاموش کراﺅ اس بچے کو ہماری نماز خراب ہورہی ہیں ، یہ بہت سبق ہے ہم جیسے مسلمانوں کیلئے ، جو اپنے مساجد میں بچوں کے آنے پر اعتراض کرتے ہیں ان پر غصہ کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہیں حتی کہ ایسے لوگ خصوصا عربی جوڑے دیکھے کہ جن کی خواتین الگ خواتین کے سیکشن میںنماز پڑھتی ہیں اور مرد حضرات ان بچوں کو لیکر مردوں کے حصے میں آکر نماز پڑھتے ہیں ، نفل نماز کے دوران کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھا کہ بچے اپنے والدکے گنجے سر پر نماز کے دوران چپت مارتی رہی لیکن وہ کچھ نہیں بولتے، نماز پڑھنے کے بعد ان بچوں کو گلے لگاتے ہیں ، یہ زندگی کا بہت بڑا سبق تھا جو یہاں پر دیکھنے اور سیکھنے کو ملا. اللہ تعالی ہم سب کو بچوں سے پیار و محبت سے پیش آنے اور صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے .

مکہ میں ہرنماز کے بعد فٹ پاتھ میں خواتین کے عبایا سے لیکر مختلف اشیاءسڑک کنارے فروخت ہوتی ہیں ، بچوں کے کھلونے ، مردوں کے لمبی قمیض جو بعض لوگ خرید کر پہنتے ہیں ،یہاں پر پولیس اہلکار کھڑے ہوتے ہیںجن سے چھپ کر یہ بچے ان چیزوں کو دس ریال ، بیس ریال کی آوازیں لگا کر بیچتے ہیں ، ان میں افریقین خواتین بھی زیاد ہ ہے ، اس طرح کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاتھ پاﺅں نہیں ہوتے وہ بھی چیخیںمار کر لوگوں کواپنی جانب متوجہ کرکے ریال لینے کیلئے کوشاںہوتے ہیں ،ان میں سب سے بری ہماری پاکستانی بھیک مانگنے والی ہوتی ہیں جو عمرہ زائرین کے پیچھے بھاگتی ہیں ،ان کی آوازیں ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر پتہ چلتا ہے کہ یہ پاکستانی ہے، راقم کے اندازے کے مطابق اس میں پنجاب اورسندھ کے سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہوتی ہیں جنہوں نے عربی خواتین کی طرح برقعے تو پہنے ہوتے ہیں لیکن ان کی حرکات و سکنا ت اور بھیک مانگنے کے انداز اور عمرہ زائرین سے زبردستی رقم لینے کیلئے ان کیساتھ بھاگ کر جانے کی عادت بہت ہی بری ہے ، یقینا ہجرہ روڈ پر بیشتر نمازوں کے دوران عمرہ زائرین کے پیچھے بھاگ کر آنے والی پاکستانی خواتین ہی ہیں ، جس کی جانب پاکستانی حکومت کے ذمہ داران سمیت سعودی حکام کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ چیزیںہیں جو پورے پاکستان کوبدنام کررہی ہیں

مکہ میں قیام کے چوتھے روز سے یہی روٹین بنائی کہ رات کو حرم پاک میں جا کر صبح سات بجے تک رہتا ، بعد ازاں ہوٹل آکر سو جاتا اور پھر گیارہ بجے پھر واپس جاتااو ر عشاءکی نماز پڑھنے کے بعد واپس ہوٹل آکر سوجاتا ، ا س دوران مختلف اوقات میں طواف بھی کئے اور بیشتر طواف اوپری منزل میں کئے ، ہمارے ہاں لوگ نیچے خانہ کعبہ کے نزدیک جا کر جانے کی خواہش میں احرام باندھ کر ایسے جاتے ہیں جیسے یہ عمرہ کرنے آئے ہوں ، متعد دمرتبہ ساتھی عمرہ زائرین نے کہا کہ آپ بھی ایسا کریں لیکن اگر خانہ کعبہ آکر بھی صرف کعبہ کے نزدیک طواف کرنے کی ہمت نہیںہوئی ، کیونکہ نیچے خانہ کعبہ نزدیک ہونے کی وجہ سے پچاس منٹ میں طواف مکمل ہو جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اوپر ی منزل میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے ، آج اوپر ی منزل پر کنسٹرکشن ہورہی ہیں اس لئے یہ وقت زیادہ بھی کبھی کبھار ہوجاتا لیکن مزہ تو تب ہے جب دل سے ہو ، صرف اپنے تھکنے کی خاطرنیچے جاکر عمرہ کرنا بھی عجیب لگتا ہے ، .اور یہ عادت ہم ایشیائی لوگوں میں بشمول افغانستان ، بنگلہ دیش او ر بھارتی مسلمانوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں ، ہم نے وہاں پر ایسے ازبک ، یورپی شہری بھی احرام میںدیکھے جو خانہ کعبہ کی اوپری منزل پر طواف کررہے تھے ،

خانہ کعبہ کے طواف کے دوران ایک عجیب سی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہیں ، ہمارے ایشیائی بیشتر بوڑھوں پر مشتمل عمرہ زائرین ہوتے ہیں ، جبکہ اس کے مقابلے میں یورپی ممالک سے لیکر ازبک اور دیگر تمام نوجوان اور جوان ہوتے ہیں ، خواتین کی بھی اس طرح کی صورتحا ل ہوتی ہیں، شائد اس کی وجہ ہماری مالی اور معاشرتی مجبوریاں اور مسائل بھی ہوں لیکن جب ہمارے پاس کچھ نہ رہتا تو پھر ہمیں اللہ یاد ہو جاتا ہے ، خیر پھر بھی یہ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ کسی کو اپنے گھر کی طرف بلالے ، ورنہ دنیا میں ہر ایک کے پاس دولت ہوتی ہیں لیکن یہ بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے جنہیں خانہ کعبہ اور اپنے محبوب مصطفی کے در میں بھیج دیتاہے.

خانہ کعبہ کی طرف جاتے ہوئے ایک افغانی سے ملاقات ہوئی ، اس نے پشتو میں بات کی ،اس دوران اس نے میرے علاقے کا پوچھا جب بتایاکہ پشاور کے اس علاقے سے ہوں تو پھر اس نے بتایا کہ وہاں اس نے وقت گزارا ہے وہاں پر ایک مخصوص افغان لیڈر کا دفتر تھا جنہوں نے ہمیں اس وقت استعمال کیا ہمیں جہاد جہاد کا بتاتا رہا او ر وہ اثاثے بناتا رہا ، اس نے بتایا وہ ساڑھے گیارہ سو ڈالردیکر یہاں پہنچا ہے ، اس نے ٹریول ایجنٹس کے حوالے سے بتایا کہ وہ ہمیں لوٹتے ہیں ، کم و بیش یہی صورتحال پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہیں ، جبکہ اس کے مقابلے میں بھارتی عمرہ زائرین کو نوے ہزار روپے میں عمرے ٹریول ایجنٹ لایا تھا جنہیں دو وقت کھانابھی ہوٹل میں ملتا تھا انکو جعورانہ سے عمرہ بھی ٹریول ایجنٹ نے کروایا تھا ، یعنی بھارت سے ایک عمرہ اور پھر جعورانے سے دوسرا عمرہ ٹریول ایجنٹ نے کروایا تھا ، جبکہ پاکستان اور افغانستان کے ٹریول ایجنٹ اس معاملے میں ڈاکو ثابت ہوئے ہیں .

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 668 Articles with 543699 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More