سماجی تذکیریت کے تناظر میں ناول "کہانی کوئی سناؤ متاشا "

پدری معاشرے میں سماجی تذکیریت کے رجحانات ہمیشہ غالب رہتے ہیں -عورتوں پر تشدد مردانگی کا ثبوت سمجھا جاتا ہے -صنفی امتیاز ،جنسی استحصال ،جنسی زیادتی ،قتل وغیرہ جیسے الفاظ عمومی نوعیت اختیار کر چکے ہیں ان میں سنسنی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی دلخراش واقعہ سامنے آتا ہے - تذکیریت کی رو سے ناول "کہانی کوئی سناؤ متاشا" کا مطالعہ کیا جائے تو مردوں کے کردار حاوی نظر آتے ہیں - تذکیریت جیسے منفی رجحان کا عادی ہندوستانی اور پاکستانی معاشرہ خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہا ہے اسی کی ایک جھلک اس ناول میں نظر آرہی ہے - ناول نگار صادقہ نواب سحر کے اب تک تین ناول، افسانوں کے دو مجموعے، شاعری کے پانچ مجموعے، ڈراموں اور مضامین کا ایک ایک مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ ناول 'کہانی کوئی سناؤ متاشا' ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے پاکستان میں بھی شائع کیا گیا اور اس کا ہندی، تیلگو اور مراٹھی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ صادقہ نواب سحر نے اس ناول میں ایک عام عورت کی کہانی بیان کی ہے ناول کا بیانیہ بالکل سادہ ہے کسی قسم کی سنسنی ،تحیر اور سسپنس کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے - سادہ نثر جس میں الفاظ کی کوئی پُر کاری نہیں ہے بین السطور کوئی کہانی نہیں ہے ایک عام مشرقی لڑکی جس کی زندگی کا آغاز صنفی امتیاز سے ہوتا ہے شعور آنے پر یہ فرق اس کے ذہن میں نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے اپنوں سے ملی نفرت متاشا کو جھوٹ بولنا سکھادیتی ہے اپنا گھر اسے "پھٹکار گھر " لگتا ہے پھر منہ زور حیوانی جبلت کے سامنے وہ لڑکی بے بس ہوجاتی ہے اور موریشور کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے -اسکے بعد معاشی جدوجہد میں حصہ لیتی ہے متاشا کا اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر اپنی ماں اور دادی کے ساتھ علی گڑھ اپنے چھوٹے کاکا کے پاس جانا، زندگی کی معاشی تگ و دو میں ماں بیٹی کا نوکری کرنا، کاکا کا متاشا پر بری نظر رکھنا اس کے جنسی استحصال کرنے کا ارادہ رکھنا ، علی گڑھ چھوڑ کر چھوٹے بھائی پرساد کے ساتھ ایئر ہوسٹس بننے کا خواب لیکر ممبئی چلے جانا ،نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا ریلوے پلیٹ فارم پر راتیں بسر کرنا- اِن نامساعد حالات کا مقابلہ متاشا بڑی ہمت اور حوصلے سے کرتی ہے لیکن وہ اندر سے ٹوٹتی چلی جاتی ہے وہ اپنی عمر سے دو گنی عمر کے مرد جو کہ ،پانچ بچوں کا باپ گوتم ہے اس سے شادی کا فیصلہ کرتی ہے۔ جب وہ علی گڑھ واپس آتی ہے اور اپنے فیصلے سے گھر والوں کو آگاہ کرتی ہے تب اُس کا بھائی گوپی اِس شادی کی مخالفت کرتا ہے۔یہاں ناول نگار نے اِس شادی کے خلاف بھائیوں کی ذہنی کشمکش کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔آہستہ آہستہ اس کی زندگی جوانی کے دور سے گزر کر بڑھاپے تک آ پہنچتی ہے - ناول کے مرکزی کردار متاشا نے اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے -فنی اعتبار سے یہ ناول خودنوشت سوانح کی ہئیت میں بیانیہ وصف میں لکھا گیا ہے۔ ناول کے آغاز میں متاشا نے اپنے پر دادا کے پر دادا کا ذکر کیا ہے جو بہت بڑے شاستری تھے۔ مندر میں پجاریوں سے بھی اونچے عہدے پر تھے اور انھیں راجا کے دربار میں بھی مقام حاصل تھی۔ ان کا لباس سونے کے تاروں اور ہیرے موتیوں سے بنا ہوا تھا۔ ان کے بیٹے نے اپنی پسند سے کسی انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی اور وہ لڑکی ہندو مذہب کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکی بلکہ وہ تو چوکھٹ پھلانگنے سے پہلے ہی بیزار ہو گئی۔ ان کا بیٹا "درگا پرساد" شادی کر کے پہلی بار گھر آیا تو شاستری "جگدما پرساد " نے اپنی شریک حیات کو دونوں پر گوبر اور پانی چھڑکنے کا حکم دیا۔تاکہ بہو شد ہوجائے - وہ انگریز لڑکی گھبرا کر بگھی میں واپس جا بیٹھی اور ساتھ میں درگا پرساد بھی۔

اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’بہو نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ پھر گرجدار آواز سنائی دی۔ رک جاؤ۔ پہلے ان پر گوبر پانی ڈالو پھر لاؤ۔ ماں اس کے سر پر چہرے پر، فراک پر تیزی سے پانی چھڑکنے لگیں۔ انھیں بڑی جلدی تھی، کہیں موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے لڑکی نے جھک کر فراک پر دیکھا۔ انگلی سے چھو کر باس لی۔ ناک سکوڑی۔ چھی…ای…ای کاؤ ڈنگ۔ ‘‘ ۱ ؎ اس اقتباس کا بظاہر تو متاشا سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے دادا پر دادا کے زمانے کا واقعہ ہے لیکن بتانا مقصود یہ ہے کہ ناول نگار نے دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کو کس خوبی سے پیش کیا ہے۔ بہر کیف اس شادی کے بعد جو نسل وجود میں آئی وہ نہ تو پوری طرح برہمن تھی اور نہ ہی کرسچن بلکہ ایک Mash-up تھی، لیکن براہمن گوتر کی پاسدار تھی
دوسری طرف متاشا کے نانا کے پرنانا قنوج کے برہمن تھے اور زمین دار بھی -اس زمانے میں عیسائیت کی تبلیغ ہورہی تھی جس کا اثرات پر نانا پر بھی ہوئے -
متاشا اپنی پیدائش پر والدین کے منفی رویے کا ذکر کرتی ہے خاص طور پر والد نے کئی دن تک اس کا چہرہ نہیں دیکھا - ماں کے ناروا سلوک اور والد کی لاتعلقی کے درمیان پلتی متاشا کو دادی کی محبت بھری گود ملتی ہے - متاشا کی خوبصورتی مردوں کو اس کی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن وہ مردوں سے نفرت کرنے لگتی ہے جس کی وجہ صفحہ ۳۵ پر متاشا کی عصمت دری کا واقعہ ہے وہ بھی اس کے پڑوس کے موریشور کاکا نے کیا جس میں اس کے والد کی رضامندی شامل تھی - خود کو مردوں سے بچاتے متاشا جوانی کے دن گزارنے لگی لیکن معاشی جدوجہد سارے کنبے کے حصے آئی اسی جدوجہد نے متاشا کو ہندوستان کے کئی شہر دکھائے جن میں بن متر پور، رڑکیلا، کولکاتہ، علی گڑھ اور ممبئی بطور خاص ہیں۔ متاشا کی زندگی میں کئی مرد آئے لیکن جس نے بھی نظر ڈالی بری نظر ڈالی متاشا نے ایک شادی شدہ مرد سے شادی کرلی جو کہ متاشا سے عمر میں ۲۲ سال بڑا اور پانچ بچوں کا باپ تھا۔ متاشا اسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتی ہے اور بڑے ہی سلیقے سے آخری سانس تک اس کی خدمت کرتی ہےاور ایک بیٹے کی ماں بن جاتی ہے شوہر کے انتقال کے بعد متاشا کی زندگی پھر بے سکون ہوجاتی ہے وہ سوتیلے بیٹے کے رحم و کرم پر آجاتی ہے -اور اس کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے -کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا - ’’میں جتنی بار بھائیوں کے پاس بھاگ کر جاتی کتے کی طرح ذلیل ہوکر لوٹ آتی"
ایک بیوہ عورت کی مجبوریاں اور آزمائشیں متاشا کے کردار میں مجسم ہوکر سامنے آتی ہے وہ کہتی ہے
"دو سال تکلیفوں کے گذر گئے۔ انکت (سوتیلا بیٹا)کی دست درازی بھی بڑھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ اکیلا ہوتا اور میں دکھائی دیتی وہ گندی سی نظر سے مجھے سرسے پیر تک گھورتا۔
برتن لیتے دیتے وقت ایک گندا ساٹچ میں ہمیشہ محسوس کرتی۔ مجھے گوتم بہت یاد آتے۔‘‘
سوتیلے بیٹے انگت کی دست دراز یوں اور جسمانی تشدد سے تنگ آکر وہ دیپو کو لے کر پہلے منالی اور پھر اڑیسہ چلی جاتی ہے۔ ایسی در بدری میں دیپو کی پرورش بھی اچھے طریقے پر نہیں ہو پاتی ۔ وہ اپنی ماں پر ہو رہے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے جوان ہوتا ہے ۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کاج کرکے ماں کا ہاتھ تو بٹانے لگتا ہے لیکن بے راہ روی کاشکار ہو کر غلط راستے پر چل پڑتا ہے۔ نونیتا نامی لڑکی سے اسے محبت ہوجاتی ہے جس کا ثمر شادی سے قبل نونیتا کے ماں بننے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے - دیپو نونیتا سے انار ن کروانے کا کہتا ہے لیکن دیر ہوچکی ہے
ناول کا آخری حصہ سماج کی ایک نئی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں سماج کے اکثر طبقے مبتلا ہوچکے ہیں اور اسے ریلیشن شپ کا نام دیا گیا ہے -
ایسے تعلقات کے نتیجے میں حمل ، اسقاط حمل ہوتے ہیں - ناول کے اختتامیہ باب میں متاشا دیپو کے بچے کو اپنانے کا فیصلہ کرتی ہے - ایک امید کی کرن مایوسی کے اندھیرے میں جھلملانے لگتی ہے -


(باوجود)نظم
---
مرا سوال دوسرا تھا تم نے کیا سمجھ لیا
میں آرزو کے محل کی مسحور اک پری سی تھی
جس کی چال میں لچک تھی جس کے ہونٹ پہ ہنسی...
تم آرزو کے محل کی دیوار سے لگے ہوئے
کھڑے تھے میری زندگی کی ڈور سے جُڑے ہوئے
میں آنکھ بھر کے دیکھتی تمہیں
تو پوچھتی کہ تم نے ڈور کیوں ہے تھام لی
مگر نظر جو آئے تم تو آنکھ کب اُٹھی مِری...؟
جھکی نظر سے میں نے یہ کہا کہ میں وجود ہوں
تمہاری زندگی کی اُلجھنوں کے باوجود ہوں
میں آرزو کے محل کی مسحور اک پری سی تھی
تمہارے لوہے کے محل کی زنگ سے بھری ہوئی
رنگ کا غلاف اوڑھے شان سے تنی ہوئی
گلی میں مجھ کو چھوڑ کر
وجود کی تلاش میں نکل نہ جاؤ تم کہیں....!
(صادقہ نواب سحر)

ناول کی کہانی ہمارے سماج کی ایک عام عورت کی کہانی ہے جس کی ساری زندگی قربانیاں دیتے ہوئے گزرتی ہے - جو کہ سماجی دباؤ کا شکار ہوتی ہے ناول نگار نے حساس موضوعات کا احاطہ سادگی اور خوبصورتی سے کیا ہے
--نادیہ عنبر لودھی
 

Nadia Umber Lodhi
About the Author: Nadia Umber Lodhi Read More Articles by Nadia Umber Lodhi: 53 Articles with 91728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.