اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں کچھ انوکھا لکھنے والا ہوں تو
آپ غلط ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مجھ سے پہلے بہت لوگ بہت کچھ اور
بہت اچھا لکھ چکے ہیں۔ میری اس تحریر کا مقصد ہرگز اُن باتوں کو دوبارہ
دہرانا نہیں ہے۔ میں تو بس اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مجھے لکھنا پسند ہے۔ ایسا
نہیں کہ اس سے پہلے کبھی کچھ لکھا نہیں، بس بات اتنی سی ہے کہ
جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں
وہ زخم زمانے کو دکھانے نہیں ہوتے
"مخمور سعیدی"
بس لکھ کر مٹا دیا کہ کیا بتاءیں دل کا حال جو تمھارے بعد ہوا۔ خیر درد سے
ہمارا رشتہ کچھ چندا نیا نہیں۔ ہم اس کے پرانے ساتھی ہیں اور یہ بھی ہمارا
بہت پرانا ساتھی ہے۔ ہاں کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے۔ اب لگتا ہے ملاقات لمبی
ہو گی یا ہو گءی ہے۔ اگر اپنی زندگی کا کچھ خلاصہ کیا جاے تو فیض صاحب کے
یہ اشعار کافی ہیں کہ
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
"فیض احمد فیض"
ہرگز اپنے حالات آپ کو سنانا مقصد نہیں۔ نہ ہی یہ میرے حالات ہیں۔ بس دل کی
بات ہے۔ کہا نہ بس لکھنا چاہتا ہوں سو لکھ رہا ہوں۔ آپ کو کس نے کہا کہ صرف
وہی لکھ سکتے ہیں جو الفاظ کو ان کے ترتیب کے ساتھ پیش کر سکیں۔ جو نہیں کر
سکتے کیا وہ نہیں لکھ سکتے؟ میں نہیں مانتا۔ ایسے دستور کو میں نہیں مانتا۔
کچھ تکالیف ایسی ہوتی ہیں جو آپ کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں چھڑاے نہیں چھوٹتیں۔
یہ ایسے غم نہیں غم کہنا اس احساس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ایسے تکالیف ہی
کہہ لیا جاے تو شاید ٹھیک ہے۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ ایسی تکالیف
ہوتی ہیں کہ ان کے بارے آپ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔ اگر بتا دو تو رسواءی
آپ کا مقدر بن جاے گی، رشتے ناتے خراب ہو جاءیں گے اور بھی بہت سے ڈر جو
ساتھ ساتھ چپکے رہتے ہیں، لوگ آپ کو برا بھلا کہیں گے، آپ کے بارے غلط گمان
کریں گے، آپ کی نیت پر شک کریں گے، آپ کو جو اب تک اچھا سمجھتے آۓ تھے وہ
بھی آپ کو چھوڑ جاءیں گے۔ کیونکہ آپ سے وہ ہوا جو شاید نہیں ہونا چاہیے
تھا، آپ نے وہ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن انھیں کون سمجھاے کہ کچھ
باتیں خود بخود ہو جاتی ہیں کسی کے قابو میں نہیں ہوتیں۔ کچھ احساسات و
خیالات خود ہی دل میں گھر کر جاتے ہیں اور ایسے بے تکے انداز میں کہ انسان
دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ ان احساسات کا کوءی سر پیر نہیں ہوتا۔ کوءی آغاز
نہیں بس انجام ہے۔ وہ انجام ہے ہمیشہ کا درد۔ جس کی وجہ سے ہے اُسے بھی اس
کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ آپ کو جانتا تک نہیں۔ بس اُس کا درد آپ کے در کا
مہمان بلکہ میزبان بن جاتا ہے۔ آپ اُس کے درد میں گھلتے رہتے ہیں اور وہ
اپنی خوشیوں میں کھِلتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی آپ اُس کے سامنے انجان بن کر
آتے ہیں اور وہ یوں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتا ہے جیسے آپ ہیں ہی نہیں۔
تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ درد حد سے سوا ہو جاتا ہے۔ پھر کوءی خبر آتی ہے، بری یا
اچھی۔ اُس کے لیے اچھی مگر آپ کے لیے بری۔ خبر کیا ہوتی ہے؟ چھوڑیں اس کا
ذکر بھی کوءی آسان کام نہیں۔ اس درد کو سہنا اتنا بھی آسان نہیں۔ اُس وقت
جو ہوتا ہے اُسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس لفظ نہیں ہیں۔ خبر میں ہی آدھی
جان نکل جاتی ہے۔ وقت کی تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن اُسے، ہاں اُسے کچھ بھی
محسوس نہیں ہوتا۔ کسی کے خیالات کی تپش تک محسوس نہیں ہوتی۔ پھر، پھر کچھ
نہیں۔
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
"شکیل بدایونی"
بس پھر جب کچھ نہیں ہو سکتا تو وہ بنتا ہے درد۔ ایسا درد جسے سنبھالتے
سنبھالتے انسان حلکان ہو جاتا ہے۔ جسے اندر ہی اندر دباتے دباتے وجود بلکہ
روح کھوکھلی ہوتی جاتی ہے۔ یہ درد آپ کسی کے سامنے بیان بھی نہیں کر سکتے۔
یہ داستان کسی کو سنا بھی نہیں سکتے۔ نام تو چھوڑیں، مکام بھی چھوڑیں، نشان
بھی چھوڑیں، رنگ بھی چھوڑیں، میرے خیال میں سب کچھ چھوڑ دیں۔ آپ کچھ بھی
بیان نہیں کر سکتے۔ آپ اتنے بےبس ہیں کہ شاید ہی کوءی ہو گا۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
"مرزا غالب"
واقع ہی یہ درد بے دوا ہوتا ہے۔ اس کی کوءی دوا نہیں۔ مگر رکیں ایک دوا تو
ہے؟
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
"کلیم عاجز"
بات تو آپ سمجھ ہی گۓ ہوں گے کہ اس کا علاج کیا ہے۔ ہاں بالکل صحیح سمجھیں،
موت! موت ہی وہ شے ہے جو درد سے نجات دیتی ہے۔ بس اس کے علاوہ اس کا اور
کوءی اور علاج نہیں، کوءی اور دوا نہیں۔ ورنہ یہ درد انسان کو مارتی ہے
ضرور مارتی ہے مگر تڑپا تڑپا کر۔ ایسی ایسی خبریں سنا سنا کر کہ دل تڑپ
اٹھتا ہے۔ دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ وہ وہ بیماریاں اپنے اندر محسوس ہوتی ہیں جن
کا تصور شاید اس سے پہلے آپ نے نہ کیا ہو۔ لیکن موت جلدی نہیں آتی۔ درد
والوں کو موت بھی نہیں آتی۔ وہ بھی دور کھڑی مزے لیتی ہے آپ کی تکلیف کے۔
اے خدا اتنی تکلیف میرے ہی نصیب میں کیوں؟ خدا اس تکلیف کو ختم کر دے۔ مجھے
اس عزیت بھرے درد سے نجات دلا دے۔ آپ بس یہ دعاءیں کرتے رہ جاتے ہیں اور
کبھی کبھی قدرت کو بھی آپ پر رحم نہیں آتا۔ وہ بھی آپ کو اسی حال میں چھوڑے
رکھتی ہے۔ پتا نہیں کیا چکر ہے۔ آج میری باتیں بے ربط ہیں لیکن آنے والے
وقتوں میں ایسا نہیں ہو گا۔ اُس وقت سب ٹھیک ہو گا۔ امید ہے۔ اپنا خیال
رکھیے گا پھر ملاقات ہو گی۔ خدا حافظ۔
دعا کیجیے گا کہ سب کو درد سے نجات ملے آمین۔ذ
|