نونہالوں کا ساحرؔلدھیانوی

تحریر وتحقیق: ذوالفقار علی بخاری

گزشتہ دنوں ”بچّے من کے سَچّے“ کے نام سے ایک شعری مجموعہ دیکھنے کا اتفا ق ہوا۔جسے ساحرؔ پبلشنگ ہاؤس،ممبئی نے اکتوبر1998میں شائع کیااوراِسے مرتب کرنے والی سرورشفیع ہیں۔اُنھوں نے اِس مجموعے کے پیش لفظ میں ایک انکشاف کیا۔اُنھوں نے لکھا کہ صاحب کتاب نے اپنے اولین مشاعرے میں جو نظم پڑھی وہ آج اردو کی مشہور ترین نظموں میں سے ایک ہے اوروہ ہے ”تاج محل“۔
اِس نظم کے خالق ہیں ساحرؔ لدھیانوی جن کا اصل نام عبدالحئی ہے۔والد کا نام فضل محمد اوروالدہ کا نام سردار بیگم تھا۔ساحرؔلدھیانوی سے اُن دنوں متعارف ہوا تھا۔ جب مرحوم والد ”تلخیاں“ کومطالعے کی غرض سے خرید کر گھر لائے تھے۔نوعمری میں ”تاج محل“ متاثرکن لگی اوراُن کا نام کبھی ذہن سے محو نہ ہو سکا جو ساحرؔلدھیانوی کی لفظی جادوگری کا کرشمہ قرار دوں گا۔
کئی برس بعد ساحرؔلدھیانوی ”بچّے من کے سَچّے“کی بدولت دل میں گھر کر گئے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی انفرادیت اوراسلوب کو کچھ ایسا رکھا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ جن موضوعات پراُنھوں نے نونہالوں کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ دیگرشعراء نے کی ہو گی۔جس طرح سے فلمی شاعری میں اپنا لوہا منوایا ہے ویسے ہی بچوں کے لیے کچھ الگ مزاج کا لکھا ہے۔

ساحرؔلدھیانوی اُن لوگوں میں سے تھے جوزمانے کے ساتھ چلنے کی بجائے زمانہ بدلنے کے خواہاں تھے۔جس شعری مجموعے کا تذکرہ کیا ہے وہ ساحرؔلدھیانوی کی نظموں کا ہے۔




شاعری سے سحر کرنے والے ساحرؔ لدھیانوی کا جنم 8مارچ1921کو ہوا۔آپ نے بیک وقت ہندی اوراردو زبان میں شاعری کی اورفلمی گیت لکھے۔اِسی مجموعے سے علم ہوا کہ لدھیانہ کی زراعتی یونیورسٹی نے ایک نیا پھول ایجاد کیا اور اُس کا نام ”گل ساحر“ رکھا۔ ساحرؔ کو دو مرتبہ فلم فئیر ایوارڈ ز ملے، ایک1964میں فلم ”تاج محل‘‘ کے گیت پر اوراوردوسرا1977میں فلم ”کبھی کبھی“ کی شاعری پر حاصل ہوا۔ادبی خدما ت پر1971میں ”پدم شری“ کا خطاب ملا، 1972ء میں مہاراشٹر حکومت کی طرف سے ”جسٹس آف پیس“ایوارڈ، 1973ئمیں ”آؤ کہ کوئی خواب بنیں“ پر”سویت لینڈ نہرو ایوارڈ“ اور ”مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ“ دیے گئے۔ ساحرؔلدھیانوی کی نظموں کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔جب کہ 8مارچ 2013ء کو ادبی خدمات کے اعتراف میں محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ساحرؔ لدھیانوی کی وفات 25اکتوبر1980کو ممبئی میں ہوئی۔

اِس کتاب کا انتساب کچھ یوں ہے۔
”محترم جناب اسحاق جمخانہ والا کے نام،جو میرے بھائی ساحرؔلدھیانوی کے عزیز دوست اورہندوستان کے ایک عظیم تعلیمی ادارے انجمن اسلام کے صدر ہیں۔“
ایک خاص بات پیش لفظ میں پڑھنے کو ملی۔اُسے من و عن پیش کررہا ہوں کہ اِن سطور نے کئی اہم انکشافات کر دیے ہیں جسے نہ صرف قارئین بلکہ شعرا/ادیبوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
”بچو! تم جانتے ہو ساحرؔ صاحب اتنے مشہور کیوں تھے؟ بات صرف ہے کہ وہ اپنی شاعری میں صرف سچ بولا کرتے تھے۔انھوں نے زمیندار کو غریب کسانوں پر ظلم کرتے دیکھا تھااس لئے انھیں زمینداروں، سرمایہ داروں غرض ہر اُس شخص سے نفرت ہوگئی جو دوسرے انسانوں پر زور زبردستی کرتا ہو،جو دوسروں کاحق چھینتا ہو،انہوں نے اپنی نظموں اورغزلوں میں ظالموں،دھنوانوں اورزمین داروں کے خلاف آواز بلند کی اوریہ آواز عام انسانوں کو بہت بھائی۔اس لئے وہ ساحرؔ لدھیانوی سے پیار کرنے لگے۔“
سرورشفیع پیش لفظ میں لکھتی ہیں:
”پیارے بچّو! ساحرؔصاحب بچّوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر یعنی بچّے،من کے سَچّے۔یہ ساحرؔ صاحب کے گیت کا مُکھڑا ہے اوراس کتاب کا پہلا گیت بھی۔تم جب یہ کتاب خوب اچھی طرح پڑھ لو گے تو تمہیں سمجھ میں آئے گا کہ ساحرؔ لدھیانوی نے بچّوں کے لئے کتنی پیاری پیاری نظمیں لکھی ہیں۔“
بچے من کے سچے (نظم) میں ساحرؔلدھیانوی نے بہت سے خوب صورت درس دیے ہیں۔
جھگڑا جس کے سات کریں، اگلے ہی پل پھر بات کریں
ان کو کسی سے بَیر نہیں،ان کے لئے کوئی غیر نہیں
٭٭
انسان جب تک بچہ ہے، تب تک سمجھو سچّا ہے
جوں جوں اس کی عمر بڑھے،من پر جھوٹ کا میل چڑھے
ایک اور نظم ”بھارت کے بچّو“ کا شعرملاحظہ کیجیے۔
یہ جو ہے اک چھوٹا سا بستہ
عِلم کے پھولوں کا گلدستہ
ساحرؔلدھیانوی کی ایک اور نظم ”بچوں کی سرکار“ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں کتنے بہترین اسباق بیان کیے جا رہے ہیں۔
جو یہ بھی عیاں کرتے ہیں کہ اُنھیں بچوں کی نفسیات کے بارے میں کتنا علم تھا۔
قومی دولت کے خزانے ہوں بھرے
خود ہی لے لے جس کو جو درکار ہو
عید دیوالی سبھی مل کر منائیں
آدمی کو آدمی سے پیار ہو
ملک میں بچوں کی گر سرکار ہو
”ہندوستانی بچے“ میں شامل دو اشعار نے میری توجہ حاصل کی ہے۔یقین ہے کہ باذوق احباب اِس کے حقیقی پیغا م کو سمجھ سکیں گے۔
بہت دنوں تک اس دنیا میں ریت رہی ہے جنگوں کی
لڑی ہیں دھن والوں کی خاطر فوجیں بھوکے ننگوں کی
٭……٭
رہ نہ سکے اب اس دنیا میں یگ سرمایہ داری کا
تم کو جھنڈا لہرانا ہے محنت کی سرداری کا
”بچّو بناؤ، نیا ہندوستان“میں اِن اشعار کو دیکھیں تو بچوں کو بہت گہری بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہی ہے جب قران کا کہنا
جو ہے وید پُران کا کہنا
پھر یہ شور شرابہ کیوں ہے؟
اتنا خون خرابہ کیوں ہے؟
”انسان کی اولاد“ کے اشعارمیں بھی بہت سے پیغامات چھپے ہیں۔
تو بدلے ہوئے وقت کی پہچان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
٭……٭
تو امن کا اورصلح کا ارمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
”لوری“ کے اشعار دیکھیں کتنے مزے دار ہیں۔
چمپا بھی سو گئی، سلیمی بھی سو گئی
ابّا بھی محوِخواب ہیں، آپا بھی سو گئی
گڑیا کی چور،کلموئی عذرا بھی سوگئی
لے اب تو تیری ننھی سی مینا بھی سو گئی
”سَچّے کا بول َ بالا“میں سچائی کا پیغام اُجاگر کیا گیا ہے۔
سَچّے کا ہے بول َ بالا
سنورے بھائی جھوٹے کا ہے مُنہ کالا
اسی نظم میں آگے کچھ یوں بیان ہوا ہے۔
سچ کی راہ پہ چل کے اُن کو
یہی انعام ملا
ننھا بالک بھوک سے مرگیا
”کہتے ہیں اِسے پیسہ بچّو!“کو ہم منظوم ڈرامہ کہ سکتے ہیں۔اِس میں پیسے کے حوالے سے کئی اہم پیغامات نونہالوں تک پہنچائے گئے ہیں جیسا کہ
ایک ایسا وقت بھی تھا جگ میں جب اس پیسے کا نام نہ تھا
چیزیں چیزوں سے تُلتی تھیں، چیزوں کا کچھ بھی دام نہ تھا
٭……٭
چیزوں سے چیز بدلنے کا یہ ڈھنگ بہت بیکار سا تھا
لانا بھی کٹھن تھا چیزوں کا، لے جانا بھی دشوار سا تھا
٭……٭
انسانوں نے تب مل کر سوچا، کیوں وقت اتنا برباد کریں
ہرچیز کی جو قیمت ٹھہرے، وہ چیز نہ کیوں ایجاد کریں
اس طرح ہماری دُدنیا میں،پہلا پیسہ تیّارہوا
اوراِس پیسے کی مسرت میں،انسان ذلیل و خوار ہوا
”بچّے من کے سَچّے“ کے مجموعے میں بچے من کے سچے، بھارت کے بچے، میرا مُنا، بچوں کی سرکار، ہندوستانی بچے، بچوبناؤ ہندوستان، انسان کی اولاد، بچّہ ہے مہان، لوری، ننھّے گلُفام،میرے مُنّے، ننھّی پری،ننھّی لاڈلی، ممی ّکے لئے گیت، بھیا کو سندیسا، ماماجی کا لاکٹ، اوبیٹا،مُرغا، مُرغی، او بچّو سن لو بات، سچّے کا بول بالا، سوال، کہتے ہیں اِسے پیسہ بچّو جیسی نظمیں شامل ہیں۔
اِنھیں پڑھ کر محسوس ہوا کہ جیسے ساحرؔ لدھیانوی نونہالوں کی ایک خاص رخ پر تربیت کرنے کے خواہاں تھے تاکہ اُنھیں زندگی میں زیادہ مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔راقم الحروف کو محسوس ہوا کہ وہ سچائی کی راہ پر نونہالوں کو گامزن کرنے کے خواہاں تھے۔”بچّے من کے سَچّے“کے مطالعے سے احساس ہوا کہ حق و باطل کی جنگ لڑنے والے کسی ایک زمانے کے نہیں ہوتے ہیں اُن کی جہدوجہد تاریخ میں امر ہو جاتی ہے۔ اگرچہ کچھ موضوعات تلخ اورالفاظ بھاری بھرکم دکھائی دیتے ہیں لیکن پیغام کی چاشنی اِسی میں پنہاں ہے تاہم تحقیقی مقالوں میں اِس پرگفتگو کی جانی چاہیے تاکہ ادب اطفال میں ایسے موضوعات پر کام کیا جا سکے۔راقم الحروف کی خواہش ہے کہ ساحرؔلدھیانوی کی بچوں کے لیے لکھی گئی شاعری پرمسلسل تحقیق ہونی چاہیے اوروقت کے تقاضوں کے مطابق اثرات پربحث ہونی چاہیے تاکہ نئی نسل کو ساحرؔلدھیانوی کی شخصیت کو سمجھنے اوراُن کی شاعری کی روشنی میں اپنی سوچ بدلنے کا موقع مل سکے۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 396 Articles with 535394 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More