ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ اور اس کے مضر اثرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب دوسری مدت صدارت کے لیے انتخابات جیتا تھا، اسی وقت اہل فکر و نظر نے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس نے اپنی پہلی مدت صدارت میں، جو فیصلے لیے تھے، ان سے نہ صرف عالمی برادری کے سنجیدہ لوگ؛ بلکہ امریکی شہری بھی ناراض تھے۔ اس کی حالیہ فتح کے بعد، جن حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا، ان میں سر فہرست "فلسطین کا مسئلہ" تھا۔ مسٹر ٹرمپ نے فلسطین کا اہم حصہ"غزہ کی پٹی" پر قبضے کے بات شروع کردی ہے۔ اس نے ایک بار نہیں؛ بلکہ کئی بار اپنے بیانات میں ، اس منصوبے کا اعادہ کیا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ مسٹر ٹرمپ 26 / جنوری 2025 کو ایئر فورس ون میں، صحافیوں کے ساتھ بیس منٹ کی گفتگو کی۔ اس دوران، اس نے اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک سےایک غیر سنجیدہ، غیر معقول اور تباہ کن مطالبہ کیا کہ "وہ غزہ سے آنے والے فلسطینی مہاجرین کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قبول کریں۔ اس نے وضاحت کی کہ "میں چاہوں گا کہ مصر لوگوں کو قبول کرے۔آپ صرف پندرہ لاکھ لوگوں کی بات کرتے ہیں اور ہم بس پورے علاقے کو صاف کردیتے ہیں اور کہتے ہیں: 'یہ سب ختم ہوگیا'۔"

ٹرمپ نے چھ فروری 2025 کو اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ قصر ابیض میں، مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا۔ ہم اس کے مالک ہوں گے۔ میں غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں۔ ہم غزہ کو ترقی دیں گے۔ہم علاقے کے لوگوں کو روزگار دیں کے اور شہریوں کو آباد کریں گے۔منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں رہنما جگہ فراہم کریں گے۔ میں نے مشرق وسطی کے دیکر رہنماؤں سے بات کی ہے،انھیں غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کا خیال پسند آیا۔اس منصوبے کے بعد،میں دنیا بھر سے لوگوں کو غزہ میں آباد ہوتے دیکھ رہا ہوں۔"

مسٹر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ غزہ سے فلسطینی ہجرت کرکے اردن، مصر اور دوسرے ممالک چلے جائیں۔ وہ اردن اور مصر سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ غزہ کے تقریبا چوبیس لاکھ شہریوں کو اپنے یہاں آباد کرلیں۔ اس نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے منصوبے کے تحت، غزہ سے منتقل ہونے والے شہریوں کو دوبارہ واپسی کا حق نہیں ہوگا۔ اس نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ٹرمپ کے تعمیر نومیں، غزہ میں جدید سہولیات، سیاحتی مراکز کی تعمیر اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو وہاں آباد کرنا ہے۔

مسٹر ٹرمپ کے اس متنازع، بلکہ غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو ٹرمپ کو اسرائیل کا بہترین دوست قرار دے رہے ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ "تاریخ بدل سکتا" ہے۔ٹرمپ غزہ کا مستقبل مختلف دیکھ رہے ہیں۔ یہ قابل ذکر ہے اور تاریخ بدل سکتا ہے۔ وہ اس منصوبے کا بڑا حامی ہے ۔

ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے خلاف متعدد ممالک کی تشویش:
مسٹر ٹرمپ کے اس بیان پر عالمی سطح پر شید ردّعمل سامنے آیا ہے۔ مسلم ممالک اور متعدد دوسرے ممالک نے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ان ممالک نے ٹرمپ کے اس بیان کو خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے خدشات کوبڑھانے کا سبب قرار دیا ہے۔ فلسطین کے باحوصلہ عوام نے بھی اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ حماس نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ "ہم نقل مکانی کے منصوبے کو ہرگز قبول نہیں کرتے ہیں۔"حماس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جو بھی غزہ پر قبضے کی بات کرے گا، ہم اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتوگوتریس نے یکم فروری2025 کو "ڈپلومیٹک اسٹریٹ پروگرام" کے موقع پر ایک انٹرویو میں کہا کہ "غزہ کی پٹی کے مکینوں کو ان کی سرزمین سے ہٹانا نسلی تطہیر ہے۔فلسطینیوں کا ان کی سرزمین سے انخلا دو ریاستی حل کو ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادے گا۔"

سعودی عرب نے ٹرمپ کے اس منصوبہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر قابض اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کی بے دخلی کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی ہے۔ اس نے اپنے مؤقف کو غیر متزلزل قرار دیتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ مصر اور اردن نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ مصری حکام نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متبادل منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی بے دخلی کے بغیر، غزہ کی تعمیر نو کی جاسکتی ہے۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے بھی اس منصوبہ کو خطے میں عدم استحکام کا باعث قرار دیا ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کی زمین سے، فلسطینیوں کی بے دخلی کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ حاکان فیدان نے اس منصوبے کو "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی، خطے میں مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم نے ٹرمپ کے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے، اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی سے خطے میں مزید کشیدگی اور عدم استحکام پیدا ہوگا۔

ٹرمپ کے اس بیان پر یورپی ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور اس کی حیثیت میں تبدیلی قابل قبول نہیں۔ یورپی یونین نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق اور دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔جرمنی کے وزیر خارجہ نے اس بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کی طرح غزہ بھی فلسطینیوں کا ہے اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنا، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ پر کسی تیسرے فریق کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ چینی وزیر خارجہ نے 19/ فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زور دیتے ہوئے کہا کہ "غزہ اور مغربی کنارہ سیاسی سودے بازی کے لیے بارگیننگ چپ نہیں ہے؛ بلکہ فلسطینیوں کا وطن ہے اور چین دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ "

ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا منصوبہ اور عالمی سطح پر اس کے منفی اثرات:
عملی طور پر ٹرمپ کے اس منصوبے کے نفاذ کے امکانات غیر یقینی ہے۔ مگر ٹرمپ کی اس طرح کی بیان بازی سے قابض اسرائیل کو حوصلہ ملتا ہے۔ وہ اپنی انضمامی کاروائی کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ عالمی سطح پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ وہ اثرات سیاسی، معاشی، سیکیورٹی وغیرہ کے شعبے میں ظاہر ہوں گے۔ ٹرمپ کے اس غیر ذمےدارانہ بیان سے مزاحمتی تنظیمیں، شدت پسند رویہ اختیار کر سکتی ہیں۔ اس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے اور مشرق وسطی میں، کشیدگی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ٹرمپ اس منصوبے پر عمل در آمد کی کوشش کرتا ہے؛ تو امریکہ کے یورپ سے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے اقوام متحدہ میں امریکہ پر سخت سفارتی دباؤ پڑ سکتا ہےاور امریکہ کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جب ٹرمپ اپنے اس مکروہ منصوبہ کو لے کر آگے بڑھے گا اور مشرق وسطی میں عدم استحکام اور کشیدگی میں اضافہ ہوگا؛ تو تیل کی قیمت آسمان چھوسکتی ہے، جو عالمی معیشت پر منفی اثرڈال سکتا ہے۔ عرب ممالک میں عوامی غم و غصہ بڑھے گا، جس سے حکومتوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں۔ پھر عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات محدود ہو سکتے ہیں، جس سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے مشرق وسطی اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں امریکہ مخالف جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ امریکہ کے اندر بھی سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے اور امریکہ میں داخلی سطح پر عوامی احتجاج اور مخالفت بڑھ سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ امریکی ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ کچھ ریپبلکن سیاسی قائدین بھی اس پر اعتراض کریں۔ عالمی سطح پر امریکہ کی پوزیشن کمزور ہوسکتی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔

قابض اسرائیل کے ظلم وجبر اور بمباری کی وجہہ سے غزہ میں پہلے سے ہی خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی کمی ہے۔ اگر امریکہ یا اسرائیل غزہ کو قبضہ کر تا ہے؛ تو یہ بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر ہونے کا خطرہ ہوگا، جو اردن، مصر اور دیگر ممالک کی سرحدوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ پھربین الاقوامی امدادی ایجنسیوں پر، ان کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کا دباؤ بڑھے گا۔

کیا ٹرمپ اپنے داماد کی تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے؟
ٹرمپ ایک تاجر ہے۔ وہ اپنی تجارت کو پیش نظر رکھ کر،منصوبے تیار کرتا ہے، جو پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ مبینہ طور پر یہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اپنے داماد جیرڈکشنر کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے غزہ پر قبضے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔جیرڈ کشنر نے غزہ کے حوالے سے ماضی کی کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو آج اس کے خسر کہہ رہے ہیں۔ وہ ماضی میں غزہ کی پٹی کی ترقی اور وہاں کے شہریوں کی منتقلی کے بارے میں، اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس نے غزہ کی پٹی کو "واٹر فرنٹ پراپرٹی"قرار دیتے ہوئے،کہا تھا کہ اگر غزہ کی پٹی کو ترقی دی جائے؛ تو یہ ایک پرکشش سیاحتی مقام بن سکتا ہے۔ اس نےکہا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے شہریوں کو نکال کر، اس علاقے کی "صفائی" کرے؛ تاکہ وہاں ترقیاتی منصوبے نافذ کیے جا سکیں۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غزہ کی پٹی کوئی بکاؤ پلاٹ نہیں اور اسے کسی کے باپ نے خریدا نہیں ہے؛ بلکہ وہ فلسطین کا ایک اہم حصہ ہے، جو فلسطینیوں کے لیے مختص ہے۔

عالمی برادری اور سنجیدہ لوگوں کی ذمے داریاں:
مسٹر ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر قبضے کے منصوبے کا اظہار کرکے، بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب عالمی برادری کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ سب سے پہلے تو اقوام متحدہ کو اس حوالے سے سفارتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اپنے ارکان ممالک کی مدد سے امریکہ کے اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دے اور اسے اس سے باز رکھے، غزہ کے باشندے کی جبری منتقلی کو روکنے کا انتظام کرے،قابض ریاست اسرائیل کی انضمامی کاروائی پر لگام لگائے اور اسرائیل کو مجبور کرے کہ وہ جون 1967 سے پہلی والی پوزیشن پر واپس جائے۔

عالمی برادری کو واضح طور ایک ساتھ ہوکر، ٹرمپ کے اس منصوبے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔اگر عالمی برادری اس طرح کے منصوبے پر ابھی لگام نہیں لگاتی ہے؛ تو کوئی بھی طاقتور ملک، کسی بھی کمزور ملک پر قبضہ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے عرب لیگ، او آئی سی، یورپی یونین،افریقی یونین، برسک، سارک وغیرہ کے ارکان ممالک کو چاہیے کہ وہ متحرک ہوں اور سب مل کر ،ٹرمپ کے اس منصوبے کی مخالفت کریں اور فلسطین کی حمایت کا اعلان کریں۔اس حوالے سے ترکی، سعودی عرب، چین، روس،جنوبی افریقہ،الجزائر، ہندوستان،پاکستان،قطر،ملیشا وغیرہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ممالک اسرائیل پر اقتصاری پابندی لگا کر، اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے روک سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے اس منصوبے کے خلاف انسانی حقوق کے ادارے کو بھی فعال ہونا چاہیے۔قابض اسرائیل نے گذشتہ پندرہ مہینے میں، غزہ کی پٹی کو جس طرح تباہ وبربادکیا ہے، اس حوالے سے انسانی حقوق کے ادارے اپنی رپورٹیں تیار کرے اور دنیا کو بتائیں کہ غزہ کے باشندے کس طرح کے مصائب وآلام سے دوچار ہیں۔ پھر ان کی جبری بےدخلی کا منصوبہ کتنا نقصاندہ ثابت ہوگا۔اسی طرح کچھ طاقتور ممالک ٹرمپ کے اس منصوبے کے خلاف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ دائر کرکے، ٹرمپ کے اس منصوبے کو چیلنج کرے۔

قابض اسرائیل نے جب اکتوبر 2023 میں، غزہ کے ناتواں اور مظلوم عوام پر حملہ شروع کرکے، نسل کشی کا ارتکاب کیا، اس وقت دنیا بھر کے مہذب اور انسانیت نواز لوگوں نے قابض اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ کے خلاف پرزور طریقے سے احتجاج کیا اور غزہ کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ آج بھی اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ٹرمپ کے اس منصوبے کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جائے۔ ہر ملک کے شہری اپنے حکمرانوں پر دباؤ بنائے کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کی پرزور مخالفت کرے۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں ان کو چاہیے کہ فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائیں اور عوامی رائے عامہ کو مضبوط بنائے۔سول سوسائٹی کی شخصیات کو آگے آنا چاہیے اور انھیں اس منصوبے کے خطرات پر روشنی ڈال کر، لوگوں کو باخبر کرنا چاہیے۔

ان چاروں پلیٹ فارمس سے مضبوطی سے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے۔اس طرح ہم فلسطینی عوام کو مزید ظلم وجبر سے بچا سکتے ہیں۔ اگر ان چاروں پلیٹ فارمس سےآواز نہیں اٹھتی ہےاور مسٹر ٹرمپ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو مشرق وسطی میں جو جنگ وجدل شروع ہوگا، اسے کوئی روک نہیں پائے گا۔ سیاسی، معاشی، سیکیورٹی اور ماحولیاتی طورپر اس کا نقصان پوری دنیا کو ہوگا۔
 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 186 Articles with 242334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.