پاکستان میں جمہوریت کا تصور ہمیشہ ہی مبہم اور کمزور رہا
ہے۔ بظاہر تو ملک میں جمہوری حکومتیں قائم رہی ہیں، لیکن حقیقت میں اختیار
اور طاقت کا مركز کہیں اور ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہ تاثر مزید واضح
ہوتا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہ صرف پس پردہ فیصلے کرتی رہی ہے بلکہ اب وہ
خود مکمل طور پر سامنے آنا چاہتی ہے اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینا
چاہتی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی اور تشویشناک ہے۔ ملک
میں جو کچھ پچھلے دو سے ڈھائی سالوں میں ہوا ہے وہ ملکی تاریخ میں ایک نیا
موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس دوران سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، حکومتوں کی تبدیلی اور
اداروں کے درمیان کشمکش نے عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ عوامی
سطح پر یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کو ایک ڈھال کے
طور پر استعمال کیا ہے اور اب وہ خود براہِ راست سامنے آنا چاہتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور اثر و رسوخ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے لیکن اس حد تک
سامنے آنا کہ ہر سیاسی و حکومتی فیصلہ ان کے زیرِ اثر ہو ایک نیا اور
خطرناک رجحان ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملکی سیاست کو کمزور کر رہی ہے بلکہ
اداروں کے درمیان اعتماد کی کمی بھی پیدا کر رہی ہے۔ اس وقت ایک سوال سب کے
ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ آیا اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ملک کے
مستقبل کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا یا نہیں۔
ملک میں جو سیاسی اور سماجی عدم استحکام نظر آ رہا ہے وہ اس بات کی طرف
اشارہ کرتا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنے عزائم کو جاری رکھا تو ملک میں
جمہوریت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر اسٹیبلشمنٹ خود ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہوئی تو پاکستان کے اتحاد اور سالمیت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک غیر معمولی اور انونی سی صورتحال ہے جس میں ملک کا مستقبل داؤ پر لگ
چکا ہے۔ جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا تسلط ہے وہیں دوسری طرف ملک کی بقا اور
سالمیت کا سوال ہے۔ اللہ کرے کہ ملک کسی بڑے بحران سے بچ جائے اور جمہوریت
کی بحالی ہو سکے۔
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور ملک کو ایک بار پھر استحکام اور ترقی کی راہ
پر گامزن کرے۔
|