کرپشن وقت کا ایک اہم موضوع ہے
کیونکہ شاید آج کرپشن کے خلاف لوگ سوچنے اور غور و فکر کرنے لگے
ہیں۔انسانیت کے اندر وہ روح بیدار ہو رہی ہے جو چاہتی ہے کہ برائیاں ختم
ہوں، بھلائیاں پروان چڑھیں۔ ناانصافی کا خاتمہ ہو اور عدل قائم ہو۔ظالم ،جابر
اور ڈکٹیٹر حکمرانوں نے جو عام انسانوں کو غلامی کے طوق پہنا رکھے ہیں وہ
گلوں سے اتریں اور انسان آزادہو جائیں۔آزادی ملک کی نہیں بلکہ انسانوں کے
حقوق کی آزادی۔یعنی وہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکیں،حکومتیں ان کے حقوق
ادا کریں اور ادا کرنے کا نظم قائم کریں ،یہ نظم ایسا ہو جہاں شفافیت ہو،
ایمانداری ہو،احساس ذمہ داری ہواوران لوگوں پر گرفت ہو جو اس کام میں رکاوٹ
بنتے ہیں،اور یہ سب کام زبانی نہیں بلکہ عملی ہونے چاہیں۔آج کرپشن کا مسئلہ
کسی خاص ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف کم ترقی یافتہ
ملکوں میںہی پایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف یہ مسئلہ ترقی پذیر قوموں اور
ملکوں میں بھی اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ہند میں بلکہ
نیو یارک کی وال سٹریٹ پر بھی انسانوں کے ساتھ ان ہی جیسے مٹھی بھر انسانوں
کی جانب سے جب غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور لوگوں کے حقوق
جب سلب کیے جاتے ہیں تو فضا میں occupy wall streeکے نعرے گونج اٹھتے ہیں۔
کرپشن ایک ناسور:
واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام ہو خصوصاً سرکاری اور بعض مواقع پر غیر سرکاری
اداروں میں بیٹھے ذمہ دار اس کام کو کرنے سے قبل رشوت چاہتے ہیں۔کاروبار
میں بدعنوانی،بھتہ خوری،سرکاری رقوم میں خرد برد۔اس سے بھی آگے بڑھیے تو
تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن کے وقت "ڈونیشن " کے نا م پرلی جانے والی رشوت،
سرکاری اسپتالوں میں دواﺅں اور دیگر اشیاءمیں خرابی و چھیڑ چھاڑ اور قانونی
چارہ جوئی کرنے والے ذمہ داران اور ان کے اداروں میں کھلے طور پر لی جانے
والی رشوت ۔معلوم ہوتا ہے کرپشن ایک ناسور ہے جو چہار جانب رچ بس چکا ہے۔
جس سے چھٹکارا پانا اور جس کو دور کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین ہو گیا
ہے۔مہذب معاشرے میں رشوت قابل قبول نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ وہ ناسور ہے جو
اخلاقی، ثقافتی،سیاسی اور قانونی نظاموں کا تانا بانا بکھیر دیتا ہے اور اس
کی انتہا یہ ہے کہ یہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر نظام وقت کی
تباہی کا باعث بنتا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن کیونکہ انسانوں میں رچ بس چکا
ہے لہذا انسانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اداروں کے نظم و نسق میںی شفافیت
اور اینٹی کرپشن اقدامات کے ذریعہ قابو پایا جا سکتا ہے۔اگر یہ مان لیا
جائے کہ شفافیت اور اینٹی کرپشن اقدامات کے ذریعہ کرپشن پر قابو پایا جا
سکتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ادارہ بھی اس اقدام کے لیے قائم کیا
جائے گا کیا اس میں یہی طرز فکر و عمل رکھنے والے افراد نہ ہوں گے؟کیا یہ
اینٹی کرپشن کے اقدامات کرنے والے حضرات اسی معاشرے کا حصہ نہیں ہوں گے جو
پہلے سے موجود ہے یا کہیں اور سے آئیں گے؟جب یہ حضرات خود اسی معاشرے کا
حصہ ہوں گے جو معاشرہ اِس سماجی برائی اور اخلاقی بگاڑ میں ملوث ہے تو
کیونکر اور کیسے وہ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ اس برائی پر گرفت
پاسکیں گے؟حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے وہ ادارے جن کی ذمہ داری ہے
کہ وہ رائج کرپشن کو ختم کریں آج سب سے زیادہ خود وہ اس برائی میں مبتلا
ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز ہند میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والون پر لوگ
خود انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔کرپشن جو آج ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کیے جا
رہا ہے ایک اہم مدا ہے لیکن اس مدے کو اٹھانے والوں کو اپنے گریبان میں
ضرور جھانک لینا چاہیے۔بابا رام دیو اور ان کے ساتھی بال کرشن کا جالی
پاسپورٹ،بابا کے ٹرسٹ،کمپنیز اور تنظیموں کے حسابات میں انکم ٹیکس کی خلاف
ورزیاں۔انا ہزارے کے ہند سوراج ٹرسٹ کے تعلق سے سپریم کورٹ کا نوٹس، ایک
پارٹی کی کھل کر مخالفت اور ایک "خاص"کی حمایت۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھی
ان سے ایک ایک کرکے دور ہوتے جا رہے ہیں۔اور وہ لوگ بھی جو ان کے شانہ
بشانہ تو نہ صحیح لیکن ان کے کام سے دلی ہمدردی ضرور رکھتے تھے ۔آج وہ کہنے
پر مجبور ہیں کہ"میں انا کا کل تک حامی تھا، آج غیر جانبدار ہوں، کل شایدان
کی مخالفت میں کھڑا ہو جاﺅں۔البتہ ان کی سادگی اور زندگی کی تعریف ہمیشہ
کروں گا،لیکن ان سے کچھ سوال ضرور پوچھنا چاہتا ہوں،انا آپ نے کہا تھا کہ
کسی پارٹی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن اب تو آپ صاف صاف کانگریس کی
کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور آپ کے ساتھیوں میں سے ایک کرن بیدی درپردہ بی
جے پی کی حمایت کر رہے ہیں، جو لوگ کسی فائدے کے لالچ کے بغیر آپ کی مہم
میں شریک ہوئے تھے،یہ تو ان کے ساتھ دھوکہ ہے"(منگل سنگھ،دینک ہندوستان)
۔پھر دیکھیں مودی کا انشن اور حکومت کا 100کروڑ روپیہ کا استعمال نیز مودی
پر الزام لگانے والوں پر مودی کا عتاب۔اڈوانی کہ جس کی ایک یاترا نے پورے
ملک کا امن و امان تہس نہس کر دیا تھا۔اسی طرز پر نکلی ایک اور یاترا اور
یاترا سے قبل مختلف مقامات پر مسلمانوں کے جان و مال کی کھیلی جانی والی
ہولی۔اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا مشتبہ کردار۔ یہ تمام واقعات اس جانب متوجہ
کرتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے خودہی کرپٹ ہیں ۔پھر جب کہ
برائی کو ختم کرنے والے خود اسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوں تو کیونکر وہ اپنے
جسم اور آتما کو سب سے پہلے پاک و صاف نہیں کرتے؟ان کے اندر کیسے ہمت ہو
جاتی ہے کہ وہ خود برائی کرتے رہیں اوردوسروں کو بھلائی کی ترغیب دیں؟ کیا
وجہ ہے کہ ان کا ضمیر ان کو نہیں جھنجوڑتا اور کیونکر وہ دوسروں کو نیکی کی
نصیحت کرنے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں؟ مالک برحق جس نے مجھے بھی پیدا کیا
اور آپ کو بھی اور اس دنیا میں موجود ہر انسان و جاندار کو پیدا کیا وہ
کہتا ہے کہ:"تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نذدیک یہ سخت
ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں"(الصف:۳-۲)۔معلوم ہوا کہ
جو لوگ برائیوں کے خاتمہ کی سعی و جہد کرنے والے ہوں اُن کو خود اس برائی
سے پاک ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو ان کی سعی و جہد رائیگاں جائے
گی۔وہ خود جھوٹے ثابت ہوں گے اور دنیا کی نظر میں مکار،عیار ،چال باز
اورمفاد پرست کہلائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ:
میڈیا کہ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی دونوں
عوام کے سامنے لا کر رکھ دے۔افسوس کہ وہ آج سرمایہ داروں ،ملٹی نیشنل
کمپنیز اور سیاست دانوں کے ہاتھ بک چکی ہے۔ایک جانب وہ کرپٹ لوگ ہیں جو
کرپشن کے نام پر اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ِ عمل ہیں تو دوسری جانب سستے
اور کم داموں پر بک جانے والے صحافی اور رپورٹرس کہ جن کے دام کہیں1000روپے
کا ایک نوٹ ہے تو کہیں صرف 500روپے۔مفاد پرستوں نے میڈیا کی تصویر مسخ کر
کے رکھ دی ہے یہی وجہ ہے کہ دن رات اور ہفتہ کے ساتوں دن خصوصاً ہندی
الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیاایک خاص نظریہ و مقصد سے وابستہ افراد کے
کوریج میں مصروفِ عمل ہے۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی
میڈیا میں فاسسٹ اور ہندوتو وادی منفی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی
جا رہی ہے یا دوسرے لفظوں میں سچائی کے علمبرداورں کو یہ لوگ خریدنے میں
بہت تیزی کے ساتھ کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔توجہ طلب پہلو ہے کہ جب حقیقت
کی عکاسی کرنے والوں کے بازار لگے ہوں اور ان کی خرید و فروخت جاری ہو تو
کیسے ممکن ہے کہ وہ جو رپورٹیں میڈیا میں پیش کریں اس میں جانب دارانہ رویہ
وہ اختیار نہ کرتے ہوں گے؟پھر یہ بھی کہ جانب داری چاہے وہ کسی بھی قسم کی
ہو ایک برائی ہے جو انسان کو سچ کہنے ،لکھنے اور بیان کرنے سے روک دیتی
ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کی بیان کی جانے والی رپورٹوں میں جانب داری کی
بو محسوس کی جاتی ہے اور یہ طرز عمل خود کرپشن کے دائرے میں آتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ:
معاملہ یہ ہے کہ کرپشن جو آج موضوع بحث بنا ہوا ہے وہ موجودہ چند سالوں میں
پیدا ہونے والی برائی نہیں۔یہ کوئی نئی اور انوکھی چیز بھی نہیں۔حقیقت یہ
ہے کہ کرپشن ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میںموجود رہی ہے۔دنیا کی کوئی تہذیب
نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ اس لعنت سے مکمل طور پر پاک و محفوظ ہے یا
رہی ہے۔البتہ یہ ممکن ہے کہ پہلے اس کا دائرہ محدود ہوا کرتا تھا اور یہ
زہر اپنی مرضی سے لوگ پیا کرتے تھے لیکن آج ہر کس نا کس مجبور ہے کہ وہ اس
زہر کا پیالہ اپنے منھ سے لگائے۔پھر جس میں اس زہر کو برداشت کرنے کی
صلاحیت بڑھتی جائے وہ اسی قدر اس کا گرویدہ بن جاتا ہے۔
اگر آج ہم یہ عہد کر لیں کہ اس برائی کے خلاف آواز اٹھائیں گے، اپنے ذاتی
معاملات میں اس برائی سے سب سے پہلے خود لڑیں گے، اپنے گھر، خاندان،معاشرے
کو اس برائی سے پاک و صاف کریں گے تو کوئی طاقت نہیں جو آپ کو اس فیصلے سے
روک سکے۔لیکن شرط یہی ہے کہ اس برائی سے سب سے پہلے اپنی ذات کو پاک و صاف
کر لیں یا کم از کم پاک و صاف کرنے کا عہد کر لیں۔اس کے لیے اسلام آخرت کا
تصور پیش کرتا ہے۔آخرت پر جس درجہ ہمارا ایمان محکم ہوگا اس عقیدہ کے ساتھ
کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ملنی ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہوگی،جہاں
ذرہ برابر نیکی اور بدی کھول کر رکھ دی جائے گی، جہاں ناانصافی نہیں ہوگی
بلکہ عدل قائم ہوگا، اور اُسی عدل کا تقاضہ ہوگا کہ ہم جنت میں جائیں یا
دوزخ میں۔اگر یہ عقیدہ مضبوط ہو جائے۔ یہ یقین ،یقین کامل میں تبدیل ہو
جائے،تو پھر ہم نیکی و بدی کو خوب اچھی طرح پہچان سکیں گے، نیکو کاری اور
پارسائی کے اوصاف سے ہم متصف ہوں گے۔ہمارا ذہن پاکیزہ ہوگا اور ہمارا جسم
آلائشوں سے پاک ہوکر حرص و ہوس اور ترغیبات کے جال میں پھنسنے سے بچ جائے
گا۔اس کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ خصوصاً مسلمان اور عموماً تمام انسان
جنہوں نے مال وزرکے حصول اور دنیاوی آسائشوں کو ہی حاصل زندگی سمجھ لیا ان
میں دنیا کی محبت کم ہو اور مرنے کے بعد جواب دہی کا احساس زیادہ ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری فکر اور ہماراطرز عمل مادیت پرستی ،بے حیائی
اور اخلاقی بگاڑ کی اس عمومی فضا سے پاک ہو جس میں یہ برائی پروان چڑھتی
ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ برائی جب ہی ختم ہو سکتی ہے جبکہ اس برائی کو برائی
تسلیم کیا جائے اوراس برائی کے خلاف بڑے پیمانہ پر آواز اٹھائی جائے۔ اُس
نظام باطل سے نجات حاصل کی جائے جو نظام اس برائی کو پروان چڑھانے میں
معاون و مدد گار ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہ خود باطل نظریات سے مرعوب
ہوں اور نہ ہی اہل وطن کو مرعوب ہونے دیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود بھی
اسلامی تعلیمات و اقدار سے مکمل طور پر واقف ہوں اور ساتھ ہی اہل وطن کو
بھی واقف کرائیں۔حقیقت یہ ہے کہ سرسے پیرتک خود کرپشن میں غرق کسی حکومت سے
کرپشن کے خاتمہ اور اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ لہذا دوسروں کے جھنڈے اپنے
ہاتھوں میں اٹھانے کے سابقہ رویہ میں تبدیلی آنی چاہیے۔آج جن کے کاندھے سے
کاندھا ملا کر آپ کرپشن کے خلاف بگل بجا رہے ہیں بہت ممکن تھا کہ اگر آپ
برائی کو اس کی موجودہ صورت میں بیان کرتے تو وہ آپ کے شانہ بشانہ ہوتے اور
آپ اس مہم کو لیڈ کرتے۔ایسا نہیں ہے کہ وقت گزر گیا اور دوبارہ نہیں آئے
گا، ایسا بھی نہیں ہے کہ افسوس کریں اور خاموش بیٹھ جائیں۔بہت سارے ایشوز
زندہ ہیں جو عام انسانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنے ہوئے ہیں۔آپ متحد ہو
جائیے!لوگوں کی خدمت کرنے کا عزم کر لیجیے!آپ دیکھیں گے کہ دنیا آپ کے
نظریہ اور آپ کے طریقہ کو اختیار کرے گی۔شرط وہی پرانی ہے جو کہیں وہ کریں
اور دنیا کو امتحانِ آزمائش سمجھیں،جہاں ٹھہرنا نہیں بلکہ امتحان دے کر کوچ
کر جانا ہے اوررزلٹ آپ کا منتظر ہے!! |