مزے کا رمضان

تمام روزے داروں، دسترخوان داروں، افتار داروں، پیٹ کھوجا داروں اور ایمانداروں کو خوش آمدید، امید ہے رمضان اچھے سے گزر رہا ہے۔ نہیں تو بھی میں کیا کر سکتا ہوں۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ آج کیوں نہ رمضان پر بات کی جاے، بلکہ پوسٹ مارٹم کیا جاے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ بار بار ایسا موقع تھوڑی نہ ملتا ہے۔ میری اس تحریر کو مذہبی لوگ ہرگز نہ پڑیں۔ سادا الفاظ میں دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ آپ کے لیے نہیں؟ میرے لیے! شاید لگ جاے میری کوءی بات بُری؟ تو آیے شروع کرتے ہیں رمضان کا پوسٹ مارٹم!

رمضان میں کءی طرح کے روزے دار ہوتے ہیں لیکن میں آج صرف تین طرح کے روزے داروں کا ذکرِ خیر کر رہا ہوں۔ ایک وہ جو روزہ رکھتے ہیں، دوسرے وہ جو روزہ نہیں رکھتے اور تیسرے وہ جو ایک گال کا روزہ رکھتے ہیں۔ حیران نہ ہوں ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں بھی ایک گال کا روزہ رکھتا تھا۔ وہ میرے استعد کیا خوب کہتے ہیں کہ ”وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم بھی ایک جن تھے۔ آج ہم دیو ہیں، جنوں کے بھی پیو ہیں۔“ اگر کسی کو ”پیو“ کا مطلب نہیں معلوم تو ارض ہے کہ ”پیو“ پنجابی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ”باپ“۔ بہرحال میں روزے داروں کا ذکر کر رہا تھا تو وہ جو روزہ رکھتے ہیں اُن میں سب کچھ ٹھیک ہے مگر ایک مسءلہ ہے۔ دراصل وہ کہتے ہیں کہ روزے میں توت پیسٹ استعمال نہیں کر سکتے۔ اب بتاؤ یہ زیادتی نہیں ہے کہ جب مسجدوں میں کوءی جماءی کے لیے منہ کھولتا ہے تو اگلوں پچھلوں کو اپنے اگلے پچھلے یاد آ جاتے ہیں۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو آزمائش شرط ہے۔ اگر آپ کو جاننے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے تو منہ کھلوا کر خود جان لیجیے گا۔ مگر ایسا ہوتا ہے۔ اُن سے پوچھو جو اس عزیت سے گزرتے ہیں۔ کوءی ایسے لوگوں کو سمجھاے کہ بھاءی یا تو اپنا فلسفہ بدلو یا پھر مسجدوں سے دور رہو۔ یہ کیسا روزہ ہوا کہ اگلے کو نانا دادا جن کو دیکھا تک نہیں یاد دلا دیا جاے۔ روزے میں غریبوں کا احساس کروانا تھا مُردوں کا نہیں۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں، حلق میں سرکنڈوں کی جھاڑیاں چبھ رہی ہوتی ہیں اور پھر ایسا کوءی تجربہ ہو جاے تو سونے پہ سہاگہ۔ خدا ایسوں سے بچاے۔ پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے۔ آپ نہ رکھیں، سو بار نہ رکھیں۔ مجھے کوءی مسءلہ نہیں ہے۔ نہ ہی میں آپ کو تبلیغ کرنے آ رہا ہوں مگر خدارا! خدارا عوامی جگہ پر کھانے پینے سے اجتناب کیا کریں۔ یہ ویسے ہی بڑی بھوکی ننگی قوم ہے اوپر سے روزہ۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ آپ سے کھانا چھین کر چیل کتوں کو کھلا دوں۔ وضاحت: میں کھانا کھلانے کی بات کر رہا ہوں آپ کی نہیں۔ خیر آپ کی شان میں جتنے الفاظ بھی خرچ کروں کم ہے۔ اب آخر میں وہ پیارے پیارے ایک گال والے آتے ہیں یعنی جو ایک گال کا روزہ رکھتے ہیں۔ ویسے تو یہ بات صرف بچوں سے منصوب ہے کہ وہی ایک گال کا روزہ رکھتے ہیں مگر میں آپ کو بتاؤں کہ یہ بات غلط ہے۔ ہمارے یہاں خواتین بھی ایک گال کا روزہ رکھتی ہیں۔ ایک خاتون رمضان میں پانی پیتے ہوۓ بچے کے ہاتھوں پکڑی گءیں۔ بچے نے روزہ نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگیں کہ ”میرا تو ایک گال کا روزہ ہے۔“ ہاے رے قسمت! یہ بھی دن دیکھنا تھا۔ ایسی باتیں سننے سے بہتر تھا کہ میں پڑھ لیتا۔ شاید ہی ایسے زبردست واقعات آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ یقین جانیں ایسے موقعوں پر دل چاہتا ہے کہ بچوں کو جمع کروں اور ایک زور دار کہکہا لگاؤں اور بتاؤں کہ یہ جھوٹ ہے! ایک گال کا کوئی روزہ نہیں ہوتا! مگر پھر ہاے رے قسمت ایسا کر نہیں سکا۔ ورنہ ڈر ہے کہ ”میاں! لوگ کیا کہیں گے۔“ مُلّا صاحب آپ ہی بتاءیں کہ ہوتا ہے یا نہیں؟ کچھ دن پہلے ایک دل بر نے کہا کہ اپنے مسلمان بھاءیوں اور بہنوں کو رمضان میں شیطان نہ کہا کریں۔ معازرت! آئندہ سے میں انھیں شیطان کا پٹھا کہا کروں گا۔ اب خوش! رمضان میں عبادت کریں مجھے نہ پڑھیں۔ خدا حافظ۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 4 Articles with 2201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.