سلام کی خاتون اوّل، طیبہ، طاہرہ، زاہدہ، ناصرہ۔
سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا
،،وہ مجھ پر ایمان لائی اس حال ہیں کہ دوسرے لوگوں نے میرا انکار کیا۔ اس
نے میری تصدیق کی اس حال میں کہ دوسروں نے مجھے جھٹلایا۔اس نے مجھ پر اپنا
مال نچھاور کیا اس حال میں کہ لوگوں نے مجھے مفلس بنا دیا تھا۔،، یہ سمجھنا
مشکل نہیں ہے کہ یہ کلمات کس نے اور کسی کی شان میں کہے ہیں۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت کا منصب عطا ہوا ا،ور آپ نے مشرکین مکہ کے
درمیان خود کو تنہا محسوس کیا تو یہ آپ کی اولین اورمحبوب ترین رفیقہ حیات
سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا تھیں جنہوں نے آپ کو تسلی دی۔ سب سے پہلے
آپ کی نبوت کو تسلیم کیا اور ہر قسم کی مدد دی۔
سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا قبیلہ قریش کے ممتاز خاندان بنو اسد
کے ایک شخص خویلد کے گھر پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ ہے اور آپ
کنیت ام القاسم ہے۔ آپ رئیس والدین کی بیٹی تھیں نہایت عیش و عشرت اور ناز
و نعم میں پرورش پائی اس کے باوجود اس معاشرے کی برائیوں سے اپنا دامن
ہمیشہ محفوظ رکھا۔ چنانچہ آپ واحد خاتون تھیں جنہیں لوگ حسن صورت و سیرت کے
لحاظ سے ''طاہرہ'' کے لقب سے یاد کرتے تھے جوان ہونے پر یکے بعد دیگرے تین
شادیاں ہوئیں۔ لیکن وہ ہر دفعہ کچھ ہی عرصہ میں بیوہ ہوگئیں اس کے بعد
انہیں قریش کے کئی معزز افراد نے پیغام نکاح بھیجے، مگر انھوں نے انکار کر
دیا اور اپنی بیوگی کا یہ عرصہ نہایت عفت اور پاکیزگی کے ساتھ گزارا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کا خاندان بھی پورے قریش کی طرح تجارت پیشہ
تھا،لہذا اب انہوں نے تجارت میں حصہ لینا شروع کیا اور اپنے عزم، دور
اندیشی اور معاملہ فہمی کی بنا پر چند ہی دونوں میں خوب دولت کما کر عرب کی
مالدار ترین عورت بن گئیں۔ سامان تجارت کو شام اور یمین غیرہ بھیجنے کے لیے
وہ تجربہ کار اور ایماندار افراد کی تلاش میں رہتی تھیں۔ مکہ کے لوگ تجارت
کے لیے قافلوں کی شکل میں شام اور یمن کا سفر کرتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم بھی ان قافلوں کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ آپ کے پاس ذاتی سرمایہ
تجارت تو تھا نہیں دوسرے تاجروں کے لیے کام کرتے تھے اور اپنی ایمانداری
اور دیانت داری سے ہر کام انجام دینے میں پوری قوم میں صادق اور امین کے
لقب مشہور ہوگئے۔
جب قریش کی طاہرہ حضرت خدیجہ نے صادق اور امین صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت
سنی تو فورا آپ کی خدمات حاصل کر لیں۔اور ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ
اپناسامان دے کر شام بھیجا۔ اس تجارت سے بے پناہ نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی
اللہ تعالی عنھا کے ایک غلام میسرہ بھی ساتھ گئے تھے۔ واپسی پر انہوں نے
اپنی مالکہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حد تعریف کی۔ ان دونوں باتوں
سے حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں۔ عرب معاشرہ میں عورت کی طرف سے شادی کا
پیغام جانا کوئی معیوب بات نہیں تھی۔ چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی
عنھا نے تجربہ کار عورت نفیسہ کے ذریعے حضرت محمدؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔
آپ اپنے سرپرست چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد راضی ہو گئے اور چند
دنوں بعدا ابو طالب نے چند معزز افراد کی موجودگی میں نکاح پڑھا دیا۔ اس
وقت آنحضرت کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی، شادی کے
بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنا تمام مال و اسباب شوہر کی نذر
کر دیا۔ اب یہ دولت غریبوں مسکینوں کی امانت، یتیموں اور بیواؤں کی خبر
گیری،قرص داروں کی ادائیگی اور مسافروں کی مہمان نوازی میں صرف ہونے لگی۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنی جاں نثاری و وفاداری اور اطاعت و محبت کا بھی
ایسا بے نظیر مظاہرہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخر وقت تک اس
رفیقہ حیات کو نہیں بھولے اور ان کی محبت اور ہمدردیوں کو یاد کرکے ہمیشہ
اشکبار ہو جایا کرتے تھے۔
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی ازدواجی زندگی کو چند برس گزر گئے۔
تو قدرت نے آپ کے شوہر کو ایک عظیم الشان منصب پر فائز کیا۔ حضور صلَّی
اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی نبوت کے ساتھ خدیحہ کا ذکر ناگزیر ہے
اس زمانے میں انھوں نے ہر مرحلہ پر نبی کریم کی مدد کی۔نبوت سے پہلے جب
عبادت کے لیے آپ غار حرا میں جاتے تو وہ کھانا تیارہ کر کے دیتیں۔ اورکبھی
کبھی خود بھی ساتھ تشریف لے جاتیں۔ پھر جب حضرت جبرائیل علیہ السلام غار
حرا میں آئے اور رسول کریم اس عجیب و غریب واقعہ پر لرزاں و ششدر گھرپہنچنے
تو یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا ہی تھیں جنہوں نے ہر طرح سے تسلی دی۔
اور آپ کے بارے میں یہ تاریخی شہادت پیش کی کہ،خدا آپ کو کسی مصیبت میں
مبتلا نہیں کرے گا۔ آپ لوگوں کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ ہمیشہ
سچ بولتے ہیں۔ مصیبت زدہ لوگوں اور ضرورت مند لوگوں کے کام آتے ہیں اور مدد
کرتے ہیں، ایسے پاک دل، پاک نفس اور فیض رساں وجود کو خدا کس طرح ضائع کر
سکتا ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا اپنی عقلمندی سے معاملہ کو سمجھنے لگی
تھیں۔ مزید تسلی کے لیے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو
الہامی کتابوں کے عالم تھے، ورقہ نے پورا حال سن کر تصدیق کی کہ خدا تعالیٰ
نے آپ کواپنا رسول بنایا ہے۔ حضرت خدیجہ نے فوراً آپ کی رسالت کو تسلیم
کرلیا اور اس طرح آپ کو پہلی مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
ایمان لانے کے بعد ام المومنین کی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی خدمت اور
اعانت کے لیے وقف ہو گیا۔ اپنے خاندانی شرف اور دولت مندی کی وجہ سے وہ مکہ
کی نہایت بااثر خاتون تھیں اس لیے ان کی موجودگی میں اہل مکہ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو زیادہ تکلیفیں نہیں دے سکتے تھے۔یہی حال
ابو طالب کا تھا دونوں ہر طرح سے مسلمانوں کی مدد کرتے۔ جب آپ کفار کی
جہالت اور ظلم سے اور دل گرفتہ گھر تشریف لاتے تو مہربان بیوی ہر طرح سے
حوصلہ افزائی کرتیں۔ یہ دونوں ہستیاں نبوت کے دسویں سال میں ایک کے بعد ایک
آپ سے جدا ہو گیئں۔ دونوں کی دائمی مفارقت آپ کے لیے عظیم صدمہ کا باعث
ہوئی۔ اور آپ نے اس سال کو حزن و ملال کا سال قرار دیا۔ حضرت خدیجۃ الکبری
کو اپنے ہاتھوں جنت معلیٰ میں دفن کیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 65 سال
تھی۔ بقیہ تمام ام المومنین ان کی وفات کے بعد آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ
واٰلِہٖ وسلَّم کے عقد مبارک میں آئیں اور تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ(جو ام للمؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہا کے بطن سے تھے) کے سوا تمام شہزادے سید قاسم، سید طاہر
طیبؓ،سید عبداللہ اور شہزادیاں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ،سیدہ اُم کلثومؓ اور
سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ
الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطن مبارک سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو ام المومنین سیدہ خدیجہ اور
دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن جیسا سیرت کردار عطا فرمائے اور
ان کے اُسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
|