ایسی عظیم الشان مومنہ خاتونِ جنت کا تذکرہء مشکبار ،کہ
جس کی تصویر جبرائیل
ریشم میں لپیٹ کر لائے کہ ! دیکھئے اللہ کے رسول ﷺ !... اس (خاتون) کو آپ
کی شریک حیات کے طور پر اللہ کریم نے پسند کیا ہے. آپ ان سے شادی کر لیں۔
جی ہاں ! یہ تذکرہ ہے سَیَّدَہ عائشہ صِدِّیقَہ رَضِیَ اللہ عَنْہا کی
حَیاتِ طَیِّبَہ کا ۔
نام نسب :
نام:عائشه .لقب : صدیقہ، خطاب : ام المومنین ۔ كنیت : ام عبد الله ہے۔ سیدہ
عائشہ کے والد نبی کریمﷺ کے جاں نثار رفیق، افضل البشر بعدالانبیاء، خلیفۃ
الرسول ؐ بلا فصل سیّدنا ابوبکر صدیقؓ رَضِیَ اللہ عَنْہ
اور والدہ ام رومان تھیں سیدہ عائشہ رَضِیَ اللہ عَنْہا کا نسب والد کی طرف
سے آٹھویں پشت اور والدہ کی طرف سے گیارہویں پشت پر رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا
ہے۔
نبوت کے چوتھے سال آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ بچپن ہی سے اپنی حرکات و سکنات اور
نشوونما میں ممتاز تھیں۔ بچپن ہی میں ان کے ہر انداز سے سعادت مندی اور
بلندی کے آثار نمایاں تھے، ان کی اقبال مندی سے مستقبل کا نور خود بخود چمک
چمک کر نتیجہ کا پتہ دیتا تھا۔ تاہم بچہ بچہ ہی ہوتا
ہے وہ صرف کھیلتا ہے اور کھیلنا ہی اس کی عمر کا تقاضا ہے۔ سیدہ عائشہ
رَضِیَ اللہ عَنْہا بھی بچپن اور لڑکپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں۔
رسول اللہ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی سیدہ خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللہ عَنْہا نے
ہجرت سے تین سال پہلے وفات پائی، ایسی رفیق و غمگسار ہیوی کی وفات کے بعد
آنحضرت ﷺ بہت ملول رہا کرتے تھے، بلکہ اس تنہائی کے غم سے زندگی بھی دشوار
ہو گئی تھی۔ حضرت خولہ رَضِیَ اللہ عَنْہا نے آپﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ
! آپ دوسرا نکاح کر لیں . آپ ﷺ نے فرمایا کس سے ! ؟ خولہ نے کہا: "ابوبکر
کی لڑکی عائشہ سے، ارشاد ہوا بہتر ہے تم ان سے نسبت کی گفتگو کرو.
سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہ سے تذکرہ کیا۔ جاہلیت کا دستور تھا کہ سگے
بھائیوں کی طرح منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے۔ اس
بنا پر سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہ نے کہا: "خولہ ! عائشہ تو آنحضرت ﷺ
کی بھتیجی ہے" ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا۔ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس
قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے ۔ سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہ
کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا ۔
احادیث میں آیا ہے کہ نکاح سے پہلے آنحضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک
فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ ﷺ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔
پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ آپ ﷺکی بیوی ہیں۔ آپ ﷺ نے کھول کر دیکھا
تو عائشہ تھیں۔
مکہ میں 10 نبوی میں 6 سال کی عمر میں سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کا
آپ ﷺ سے نکاح ہوا، اور رُخصتی 9 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
سیدہ۔ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کی اس کمسنی کی شادی میں بڑی حکمت یہ تھی
کہ اگرچہ
آنحضرت ﷺ کے دائمی فیضانِ صحبت نے سینکڑوں مردوں کو سعادت کی اعلیٰ درجے پر
پہنچا دیا تھا لیکن فطرتاً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آسکتا تھا صرف
ازواجِ مطہرات اس سے فیضیاب ہوسکتی تھیں۔
سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کے علاوہ دوسری ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ
عَنْہم بیوہ ہو کر آنحضرت ﷺ کے حبالہ عقد میں داخل ہوئی تھی۔ اس بنا پر ان
میں سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا ہی تنہا خالص فیضانِ نبوت سے مستفیض
تھیں۔
آنحضرت ﷺ سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے نہایت محبت رکھتے تھے ۔
مسلمانوں کو پانی نہ ملنے پر تیمم کی سہولت سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا
کی وجہ سے ملی ۔
ایک موقع پر ایک بدبخت منافق نے سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا پر تہمت
لگالی ۔تو آپ ﷺ اور سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کو نہایت دکھ پہنچا۔ اس
پر اللہ تعالی نے سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کی پاک دامنی ، حمایت اور
صفائی میں اپنی آخری کتاب میں متعدد آیات نازل کر دیں .... جو رہتی دنیا تک
اس عظیم خاتون کی عظمت کی گواہی دیتی رہیں گی۔ اور منافقین کے منہ بند ہو
گئے۔
ایک مسلمان عورت کے لیے سیدہ عائشہؓ رَضِیَ اللہ عَنْہا کی زندگی کے تمام
تغیرات انقلابات ، اور مصائب ، شادی ، رخصتی سسرال، شوہر سوکن ، بے اولادی
،بیوگی، غربت ، خانہ داری اور رشک غرض اس کے ہر موقع اور ہر حالت کے لیے
قابل تقلید
نمونے موجود ہیں ۔ آپ ؓ کی سیرت، دنیا کی بزرگ ترین شخصیت کی زندگی کا وہ
نصف حصہ ہے جو کامل عورت کا بہترین مرقع امت کے سامنے پیش کرتا ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ نہایت ذہین، بے حد فیاض، قوتِ حافظہ میں لاجواب، نہایت شیریں
کلام اور فصیح اللسان تھیں۔ قرآن ،تفسیر،حدیث ،فقہ ،غرض کتاب و سنّت
کےجملہ علوم ومسائل میں آپؓ کے گہرے شغف، معیارِ فکرو نظر، اور بلند علمی
مقام کے اعتبار سے اربابِ سیرت نے اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ کو جلیل
القدرعالمہ و فاضلہ خاتون کے مرتبے پر فائز کیا ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہؓ مکارم اخلاق کی پیکر تھیں۔ آپ کی مبارک زندگی عفت
و حیا، علمی کمال، اور فراست و فقاہت کے محاسن سے مزین تھی اور سب سے بڑھ
کر یہ کہ آپ مزاج شناسِ رسول تھیں۔ انہیں آپ ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ غرض
آپ میں وہ تمام خوبیاں تھیں، جو ایک مثالی بیوی میں ہونی چاہییں۔ آپ کو
بلند سیرت، علمی فضیلت اور فضائل و مناقب کی نسبت سے خواتینِ اسلام میں
نہایت بلند اور منفرد مقام حاصل ہے۔
قرآن کریم کی پہلی حافظہ کا اعزاز ہونے کے ساتھ ساتھ جمع قرآن کے سلسلے
میں بھی فوقیت حاصل ہے۔محدثین میں بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کا علمی مقام و
مرتبہ بہت بلند ہے۔ بعض مورخین کا قول ہے کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی
حصّہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے۔
رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا: ’’مردوں میں تو بہت سے لوگ کامل ہوئے، لیکن
عورتوں میں کوئی کامل نہ گزرا، سوائے مریم بنتِ عمران اور آسیہ زوجہ فرعون
اور عائشہ ؓ کے، اور عائشہؓ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے
ثرید (عربوں کا مرغوب ترین کھانا جو روٹی کو شوربے میں بھگو کر تیار کیا
جاتا تھا) کو تمام کھانوں پرحاصل ہے۔ (صحیح بخاری)
سیدہ عائشہ رَضِیَ اللہ عَنْہا بیان فرماتی ہیں : ”میں رسول اللہ ﷺ کے
ہمراہ ایک سفر میں ساتھ گئی، ان دنوں میں ایک ایسی جوان لڑکی تھی کہ جو
ہلکی پھلکی اور وزن زیادہ نہ تھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا : ” تم آگے چلتے
چلو ۔” چنانچہ ہمسفر صحابہ رَضِیَ اللہ عَنْہم آگے بڑھ گئے۔ اب آپ ﷺ مجھے
کہنے لگے : آؤ دوڑ لگاتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں ۔”
چنانچہ میں آپ ﷺ کے ساتھ دوڑی اور آپ ﷺ سے آگے بڑھ کر مقابلہ جیت لیا۔ وقت
یونہی خاموشی سے گزرتا رہا حتی کہ اب میں قدرے موٹی ہوگئی اور جسم کچھ
بھاری ہو گیا اور میں یہ بات بھول گئی کہ میں نے دوڑ لگائی تھی۔ ہوا یہ کہ
میں پھر ایک سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ گئی۔ راستے میں ایک جگہ آپ ﷺ نے لوگوں
سے کہا: ”تم آگے چلو ہم آتے ہیں.” لوگ آگے چلے گئے تو آپ ﷺ نے اب پھر مجھ
سے کہا :”اب آؤ !میں پھر تجھ سے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔” چنانچہ میں نے آپ
ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی تو آپ ﷺ مجھ سے آگے بڑھ گئے، آپ ﷺ ہنسنے لگے اور مجھ
سے کہنے لگے : ”حساب برابر ہو گیا ۔”
( مسند احمد)
سیدہ عائشہؓ کائنات میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ پیاری و محبوب تھی ۔
پوری امت محمدیہ بلکہ ساری کائنات کی تمام خواتین سے بڑھ کر عالم فاضل
تھیں۔
سیدہ عائشہ کو نبی کریم ﷺ کی دنیا و آخرت میں رفیقہ حیات بننے کی سعادت
حاصل ہوئی اس سے بڑھ کر بھی کوئی شان وشوکت ہو سکتی ہے۔
سیدہ عائشہ نبی کریم ﷺ کے علوم کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ فقیہ
تھیں۔
انہوں نے نبی کریم ﷺ سے (2210) دو ہزار دو سو دس احادیث روایت کرنے کا شرف
حاصل کیا۔ جن میں سے (174) ایک سو چوہتر احادیث متفق علیہ ہیں۔ چون (54)
احادیث بخاری شریف میں اور (69) انہتر احادیث مسلم شریف میں ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ۔رسول اکرم ﷺ کو سیدہ عائشہؓ سے نکاح کی بشارت
خواب میں ہو چکی تھی۔ چناں چہ ہجرت سے تین سال قبل شوال10 نبویؐ میں 500
درہم مہر کے عوض آپ ﷺ کا نکاح سیدہ عائشہ ؓ سے ہوا۔ رخصتی چار برس بعد
شوال ہی کے مہینے میں ایک ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔شوال ایک ہجری سے یہ
مبارک دور شروع ہوا اور 12ربیع الاول سن11ہجری آپ ﷺ کے وصال تک محیط رہا۔
نبی کریم ﷺ اور حضرت عائشہؓ کی یہ پُرخلوص رفاقت زندگی کے عمومی مقاصد اور
اساسِ دین کی تعمیر میں بہت اہمیت کی حامل اور ملّت اسلامیہ کے لیے مثالی
زندگی کا نہایت اعلیٰ دستورالعمل ہے۔
جب خاتم النبیین و معصومین ﷺ کی روح قبض کی گئی تو آپ ﷺ کا سر مبارک سیدہ
عائشہؓ کی گود میں اس گھر میں تھا،جس گھر کو رحمت کے فرشتوں نے ڈھانپ رکھا
ہے۔
سیدہ عائشہ نے نبی ﷺ کے بعد 46 سال زندہ رہ کر 63 سال کی عمر میں 17 رمضان
المبارک 57 ہجری مدینہ منورہ میں طبعی وفات پائی اور جنت البقیع میں محو
استراحت ہیں۔ |