پاکستانی ٹی وی ڈرامے دقیانوسیت کے علمبردار

پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ ڈرامے نہ صرف ملک بھر میں دیکھے جاتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی ثقافتی رابطے کا ذریعہ ہیں۔ تاہم، ان ڈراموں میں خواتین کے کرداروں کو پیش کرنے کا ایک تشویشناک رجحان دیکھا گیا ہے جو دقیانوسی تصورات کو ہوا دے رہا ہے۔ اکثر ڈراموں میں خواتین کو یا تو "اچھی عورت" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار ہوتی ہیں، یا پھر "بری عورت" جو خود غرض، باغی اور معاشرتی اقدار سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ یہ تقسیم نہ صرف عورت کی شخصیت کو محدود کرتی ہے بلکہ سماجی رویوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ واضح ہے کہ پاکستانی ٹی وی ڈرامے خواتین کے لیے دقیانوسی تصورات کو فروغ دے کر پدرسری نظام کو مضبوط کر رہے ہیں اور خواتین کی بااختیاری کو محدود کر رہے ہیں۔

پاکستانی ڈراما انڈسٹری گذشتہ ایک دہائی میں تیزی سے پھیلی ہے، جس میں کہانیوں کے معیار اور تکنیکی پیش رفت نے ناظرین کو متاثر کیا ہے۔ ٹی وی ڈرامے نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ معاشرے کے سماجی اور ثقافتی رویوں کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ میڈیا میں پیش کیے جانے والے کرداروں کا ناظرین کی ذہنیت پر گہرا اثر ہوتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، ٹی وی ڈراموں میں خواتین کو اکثر گھریلو کرداروں میں دکھایا جاتا ہے جبکہ مردوں کو فیصلہ ساز اور بااختیار پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تصویر کشی نہ صرف خواتین کی صلاحیتوں کو کم تر دکھاتی ہے بلکہ نوجوان لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ تاثر بھی پیدا کرتی ہے کہ ان کی اصلی حیثیت گھر تک محدود ہے۔ اس طرح میڈیا خواتین کی سماجی اور معاشی بااختیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے دقیانوسی تصورات کو واضح کرنے کے لیے کچھ معروف ڈراموں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۰۱۱ میں ریلیز ہونے والے ڈرامے "ہمسفر" میں خرد کا کردار "اچھی عورت" کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، انتہائی حیا دار، قربانی دینے والی، اور ہر طرح کی ناانصافی کو خاموشی سے برداشت کر لیتی ہے۔ دوسری طرف، سارہ کا کردار "بری عورت" کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو دولت مند ہے، مغربی لباس پہنتی ہے، اور اپنی خواہشات کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔ یہی تقسیم ۲۰۱۲ کے ڈرامے "زندگی گلزار ہے" میں نظر آتی ہے، جہاں کشف کا کردار غربت میں پلی بڑھی لڑکی ہے جو اپنی خودداری اور قربانیوں کے بل پر کامیابی حاصل کرتی ہے، جبکہ اسمرہ ایک ایسی لڑکی ہے جو دولت کی بنیاد پر دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ۲۰۲۰ کے ڈرامے "پیار کے صدقے" میں مہجبین کا کردار معصومیت اور سادگی کی علامت ہے، جبکہ شانزے کا کردار لالچی اور مکار ہے جو اپنے مقاصد کے لیے جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لیتی ہے۔

ان ڈراموں میں "اچھی" خواتین کو ہمیشہ خاموش رہنے، مردوں کی اطاعت کرنے، اور اپنی خواہشات کو قربان کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف، "بری" خواتین کو خودمختار، پراعتماد، اور مغربی طرزِ زندگی اپنانے والی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو انہیں منفی کردار بنا دیتا ہے۔ یہ واضح تقسیم دیکھنے والوں کو یہ سبق دیتی ہے کہ عورت کی کامیابی صرف اس کے صبر اور قربانی میں پنہاں ہے، جبکہ اپنی راہ خود منتخب کرنا اسے معاشرے کی نظر میں گرادیتا ہے۔ اس طرح ڈرامے خواتین کی انفرادی شناخت کو ختم کر کے انہیں صرف مردوں کے تابع کردار تک محدود کر دیتے ہیں۔

دقیانوسی رویے اور پدرسری اثرات:
پاکستانی ڈراموں میں "اچھی" اور "بری" عورت کی یہ تقسیم محض کہانی کا حصہ نہیں، بلکہ معاشرے کے گہرے پدرسری ڈھانچے کی عکاسی ہے۔ یہ ڈرامے عورت کے وجود کو ایک ایسے "مورل کوڈ" میں قید کر دیتے ہیں جہاں اس کی قدر کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ مردوں کے لیے کتنی قربانیاں دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، "اچھی" عورت کا کردار اکثر ایک مظلوم ہیروئن کی شکل میں ہوتا ہے جو ظلم کو برداشت کرتی ہے، خاموش رہتی ہے، اور آخرکار اس کے صبر کا پھل اسے کسی مرد کی محبت یا قبولیت کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ پیغام بالواسطہ طور پر عورت کو یہ سکھاتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راستہ صبر اور خاموشی سے گزرتا ہے، نہ کہ احتجاج یا خودمختاری سے۔ دوسری طرف، "بری" عورت کا کردار، جو اپنی آزادی کا اظہار کرتی ہے، اسے ہمیشہ تباہی یا تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تصویر کشی عورت کی خودمختاری کو ایک "سزا" کے طور پر پیش کرتی ہے، جس سے معاشرے میں آزاد خیال خواتین کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اپنی راہ چنیں گی تو سماجی طور پر بے دخل کر دی جائیں گی۔

یہ پدرسری اثرات صرف ڈراموں تک محدود نہیں، بلکہ حقیقی زندگی میں خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ڈراموں میں عورت کے "عزت دار" ہونے کی پیمائش اس کے لباس یا آواز کے اتار چڑھاؤ سے کی جاتی ہے، تو معاشرے میں بھی خواتین کو اسی پیمانے پر پرکھا جانے لگتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو اکثر ڈراموں میں دکھائی جانے والی "مثالی بہو" کی طرز پر ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں ان کی تعلیم یا کیریئر سے زیادہ ان کی گھریلو صلاحیتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ خواتین کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مزید یہ کہ ڈراموں میں "بری" عورت کے کردار کو اکثر مغربی ثقافت سے جوڑا جاتا ہے، جیسے انگریزی بولنا، مغربی لباس پہننا، یا ڈانس کرنا۔ اس طرح مغربیت کو ایک "خطرناک" ثقافتی یلغار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے نوجوان نسل میں تنقیدی سوچ کی بجائے غیر محسوس تعصبات جنم لیتے ہیں۔

اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ڈرامے عورت کی انفرادیت کو ختم کر کے اسے صرف ایک "کردار" تک محدود کر دیتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں عورت کے جذبات، خوابوں، اور جدوجہد کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ عورت جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، وہ ماؤں کی قربانیوں کی داستانیں سنانے والی میڈیا کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں پاتی۔ نتیجتاً، معاشرہ خواتین کی اصل صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں ایک فرضی تصویر میں قید کر دیتا ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ پورے معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
 

Faisal Raza
About the Author: Faisal Raza Read More Articles by Faisal Raza: 8 Articles with 1485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.