حالیہ برسوں میں تحفظ پسندانہ رجحانات اور عالمی معیشت
میں تقسیم کے خدشات کے باوجود، چین کا بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ
مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کا عزم دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس
سلسلے میں "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو " ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر سامنے
آیا ہے، جو نہ صرف اقتصادی گلوبلائزیشن کو نئی توانائی دے رہا ہے بلکہ ترقی
پذیر ممالک کو جدیدیت کی راہ پر تیزی سے گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا
ہے۔
حقائق نے ثابت کیا ہے کہ چین کا پیش کردہ یہ اقدام آج ایک دہائی سے زائد
عرصے کے بعد مشترکہ ترقی کا نمایاں پلیٹ فارم بن چکا ہے۔بی آر آئی کا مقصد
دنیا بھر میں تعاون، ہم آہنگی، اور باہمی فائدے کی بنیاد پر ایک نئے
اقتصادی نظام کی تشکیل ہے۔ اس انیشی ایٹو کے تحت 150 سے زائد ممالک اور 30
بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہو چکی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پالیسی ہم
آہنگی، اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے ذریعے یہ اقدام ترقی کے نئے
دروازے کھول رہا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ منصوبہ اقتصادی
راہداریوں، جدید ٹیکنالوجی، اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے ان کی ترقی کو
تیز کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نےمعیشت کو نئی رفتار
دی ہے۔ بی آر آئی کے تحت بننے والے بنیادی ڈھانچے نے عالمی تجارت کو نئی
سہولتیں فراہم کی ہیں۔ مثال کے طور پر، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تازہ
پھلوں کی ترسیل اب چین کے بازاروں تک ایک ہی دن میں ممکن ہو گئی ہے۔ اسی
طرح، یورپی بندرگاہوں پر کام کرنے والی جدید مشینری نے سمندری تجارت کے وقت
میں نمایاں کمی کی ہے، جبکہ جنوبی امریکی بندرگاہوں کی تعمیر نے نقل و حمل
کے اخراجات 20 فیصد تک کم کر دیے ہیں۔ ریلوے لائنز اور اقتصادی راہداریاں
نہ صرف علاقائی رابطوں کو بہتر بنا رہی ہیں، بلکہ روزگار کے نئے مواقع اور
معاشی استحکام بھی پیدا کر رہی ہیں۔
ان تمام کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی
ایٹو کا شراکت دار ممالک کو جدیدیت کی جانب گامزن رکھنے میں انتہائی نمایاں
کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ساتھ ساتھ چین کی یہ کوشش بھی ہے کہ جدیدیت صرف
چند ممالک تک محدود نہ رہے، بلکہ تمام قومیں اس میں شریک ہوں۔بی آر آئی کے
تحت ٹیکنالوجی کی منتقلی، تعلیمی تعاون، اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات
کی فراہمی نے کئی خطوں میں زندگی کے معیار کو بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر،
جدید زرعی ٹیکنالوجی نے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے، جبکہ صاف پانی
کے منصوبوں نے لاکھوں افراد کو بیماریوں سے بچایا ہے۔ ریلوے لائنیں شہروں
کو جدید بنانے اور صنعتوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اور نمایاں پہلو امن اور ہم آہنگی کی روح
کو فروغ دینا ہے۔ بی آر آئی کی کامیابی "شاہراہ ریشم کی روح" پر مبنی ہے،
جو امن، باہمی احترام، اور مشترکہ فائدے پر یقین رکھتی ہے۔ بی آر آئی
تنازعات کے بجائے مکالمے، تقسیم کے بجائے یکجہتی، اور تعاون کے ذریعے ترقی
کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر، چین نے ہمیشہ دوسروں کی ترقی میں اپنی
کامیابی تلاش کی ہے، اور یہی فلسفہ بی آر آئی کے ہر اقدام میں جھلکتا ہے۔
دنیا میں تبدیلیوں کے حالیہ دور اور مستقبل کے چیلنجز اور مواقع کو مدنظر
رکھتے ہوئے ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نہ صرف اقتصادی تعاون کو مضبوط کر
رہا ہے، بلکہ ماحولیاتی تحفظ، ذمہ دارانہ سرمایہ کاری، اور پائیدار ترقی پر
بھی توجہ دے رہا ہے۔ شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر چین ان منصوبوں کو
عوامی فلاح، ٹیکنالوجی کے اشتراک، اور ماحول دوست اقدامات کے ساتھ آگے بڑھا
رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ترقی کا ہر قدم عوامی ضروریات کو مرکز میں
رکھے اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل تعمیر کرے۔
وسیع تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو صرف اقتصادی راہداریوں کا مجموعہ
نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا وژن ہے جو دنیا کو مشترکہ امیدوں اور مواقع سے
جوڑتا ہے۔ یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ باہمی تعاون اور یکجہتی ہی وہ کلید ہے
جو ترقی کے نئے امکانات کھولتی ہے۔ چین اور اس کے شراکت داروں کی مشترکہ
کوششیں نہ صرف عالمی معیشت کو مستحکم کر رہی ہیں، بلکہ ایک متوازن اور
خوشحال دنیا کی بنیاد بھی رکھ رہی ہیں۔
|