دربرگِ لالہ و گل
انداز ِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات!
وہ مذہب ِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذ ہبِ مُلاّ و جمادات و نباتات 1
علامہ اقبالؒ علومِ شر ق و غرب کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امت
ِ مسلمہ کو حالت ِ زوال سے نکالنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کے اندر، ان
کے مقام و مرتبے کا احساس اجاگر کرکے، انہیں عمل پر آمادہ کیا جائے اور ان
کے اندر احساسِ خودی کو بیدار کیا جائے۔ اس کام کے لیے سب سے موثر ذریعہ
اظہار-جسے انہوں نے منتخب کیا - شاعری تھا۔ ان کے نزدیک شاعر معاشرے کا
انتہائی اہم فرد ہوتا ہے کیو نکہ اس کی بانگِ درا سے قافلے روانہ ہوتے ہیں
اور اس کی لے کی آواز پر سفر جاری رکھتے ہیں۔
وہ اس قوم پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جس کا شاعر ذوقِ حیات سے روگرداں
ہو۔وہ نفع کو نقصان اور ہر اچھی چیز کو بری چیزبناکر پیش کرے۔ اچھا شاعر وہ
ہوتا ہے جس کی شاعری پُر اُمید ہو اوروہ سوچ و عمل کی رہبرثابت ہو اور وہ
(شخص) جس کی جیب میں سخن کی نقدی ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے زندگی کی کسوٹی پر
پرکھے۔ مزید یہ کہ ادب میں فکر صالح ہونی چاہیے؛ جو عمل کی طرف رہنمائی
کرے۔
شاعر، شاعری اور ادب کے بارے علامہ اقبالؒ کے جو نظریات تھے، انہوں نے
انہیں سچ کر دکھایا۔ اپنے گلستانِ شاعری میں ایسے خوش رنگ،خوش ذائقہ، خوش
شکل، خوش بو دار اور دیدہ زیب پھولوں کی آبیاری کی؛ جو سب کی توجہ کا مرکز
بنے اور شاعری کو جزو پیغمبری بنادیا۔ انہوں نے شاعری کو احیائے ملت کے
ابلاغ کا ذریعہ بنایا، قوم کو امید وارتقا کا پیغام دیا اور جہدِ مسلسل کی
ترغیب دلائی۔ نیا آہنگ، نیا لہجہ، نئے موضوعات اور نیا فلسفہ دیا۔ تخیل کی
رفعت، نظر کی وسعت اور فکر کی بلندی عطاکی۔ نئی اصطلاحیں، نئے استعارے اور
تشبیہات سے نہ صرف اردو بلکہ فارسی شاعری کے دامن کو بھی وسیع ترکر
دیانیزانوکھی تراکیب سے جدت اور ندرت پیدا کی، رمزیت اور اشاریت کا پیرہن
دیا، علائم و رموز کو اپنے فلسفیانہ افکار کے ابلاغ میں نئی معنویت بخشی؛
ان سب کے لیے وہ عناصر فطرت (پانی، ہوا۔ آگ) کوکبھی مشکل، کبھی مجسم، کبھی
مرئی، کبھی غیر مرئی اور کبھی طبی خواص کے حوالے سے کام میں لاتے ہیں۔ وہ
زمین اور زیرِ زمین جمادات (موتی، گوہر، الماس، زمرد، یاقوت، لعل اور
دیگرقیمتی پتھروں) کی چمک دمک، آب وتاب، رنگ وروپ، خوب صورتی، کمیابی
اورمضبوطی کوکبھی استعاراتی صورت میں، کبھی علامتی انداز میں، کبھی تلمیحات
کے طور پر، کبھی محاوراتی طرز پر اور کبھی تراکیب کے نئے انداز میں بیان
کرتے ہیں۔
جمادات ہی نہیں ان کے ہاں حیوانات کاتذکرہ بھی کثرت سے ملتا ہے۔انہوں نے
کسی پرندے کو درویشی اور بلند پروازی کی بدولت، کسی کووصفِ شب خون ماری اور
خوداری پر، کسی جانور کو اس کی بہادری اور شرافت پر، کسی چوپائے کو اس کی
ہیبت پر، کسی کو اس کی مستعدی پر، کسی کو اس کی چابک دستی پر، کسی حشرہ کو
اس کی جاں نثاری پر، کسی کو اس کی فریب کاری پر، کسی درندے کو اس کی خون
ریزی اور ہیبت ناکی پر، کسی کو اس کی جانبازی اور کسی کو اس کی سفاکی کی
بنا پر؛ اپنے کلام میں جگہ دی ہے اور علامت بنا کر پیش کیا ہے۔حیوانیات کے
حوالے سے ان کے کلام میں کم وبیش ساٹھ جانوروں اور پرندوں کا تذکرہ ملتا
ہے۔:
جمادات اور حیوانات سے بھی زیادہ ان کی فکر ِ رسا نے نباتات کو اپنی شاعری
میں جگہ دی۔علامہ ؒ اپنے استاد ِ محترم پروفیسر آرنلڈ کی صاحبزادی نینسی
آرنلڈ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:
میرا خیال ہے کہ تم اپنے علمِ نباتات کے اسباق میں خوب ترقی کررہی ہوگی۔
میں جب اگلی
مرتبہ اپنے گُروکی پا بوسی کے لیے انگلستان آؤں گاتو مجھے اُمید ہے کہ تم
مجھے ان سب پھولوں
کے نام سکھاؤ گی جو انگلستان کی خوب صورت وادیوں میں اگتے ہیں۔مجھے اب تک
وہ
William Sweet اور Blue Bells اور Tulip اور Leep کے پھول یاد ہیں۔
سو تم دیکھ سکتی ہو کہ تمہارے شاگرد کا حافظہ کچھ ایسا برا نہیں ہے۔2
علامہ ؒ نے سو سے زائدمختلف الا نواع پھولوں،پھلوں،جڑی بوٹیوں، اشجار اور
اجناس کو اپنے اشعار کی زینت بنایاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
|