پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) انکارپریٹڈ کے زیر
اہتمام عید ملن مشاعرہ بروز ہفتہ اپریل 12کو ایڈ یلیڈ میں منعقد ہوا۔
مشاعرے کی صدارت تنظیم کے سر براہ افضل رضوی نے کی۔ مہمان خصوصی میلبورن سے
تشریف لائے معروف نعت گو شاعر جناب ڈاکٹر ظفر اقبال ظفرؔ تھے جب کہ مشاعرے
کی نظامت تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محسن آرزوؔ نے کی۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پالف کے قیام کے ساتھ ہی اس بات کاعہد کر
لیاگیا تھا کہ پالف وطن ِ عزیز پاکستان سے ہزاروں میل دور بسنے والے ہم
وطنوں کو جہاں پاکستانی ادب و ثقافت سے مانوس رکھے گی وہیں اس ملک میں پلنے
بڑھنے والی نسلِ نو کو قومی زبان اردو سے بھی بہرہ مند کرنے کی پوری کوشش
کرے گی۔چنانچہ تنظیم بڑے فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کر سکتی ہے کہ اپنے
اس مقصد میں کامیابی کی طرف گامزن ہے لیکن یہ کامیابی پاکستانی کمیونٹی کے
تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔پالف کی کامیابیوں کا ایک مظہر اردو سکول ہے۔ اس
مشاعرے کی خاص بات پاکستان کی قومی زبان کے ساتھ ساتھ دیگر پانچ معروف
زبانوں کی نمائندگی کے لئے آسٹریلیا میں مقیم معروف قلم کاروں کو بھی مدعو
کیا گیا تھا جس کا مقصداظہار ملی یکجہتی تھا۔
عاطف عبدالمجید ملک نائب صدر پالف نے تقریب کاآغاز کرتے ہوئے تمام معزز
حاضرین کو خوش آمدید کہا اور انایہ بیگ کو تلاوت قرآن پاک کے لئے مدعو کیا۔
تلاوت کی گئی سورہ کا منظوم ترجمہ جو ڈاکٹر آرزو ؔنے کیا ہے سمیعہ ملک
سیکریٹری نشرواشاعت نے پیش کیا، بعد ازاں عاطف مجید ملک نے مقامی باشندوں
کو خراج تحسین پیش کیااور پھر پاکستان اور آسٹریلیا کے قومی ترانے بجائے
گئے۔ تنظیم کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر مفضل سید نے کہا کہ میری یہ خوش قسمتی
ہے کہ اردو اسکول کے حوالے سے گاہے گاہے مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع
ملتا رہتا ہے۔ جہاں تک اردو اسکول کی پراگریس کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں
کہ اسکول کو چلانے کے لیے پالف کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے لیکن جس
قدر محنت ِ شاقہ اسکول کی پرنسپل محترمہ فہمیدہ گیلانی صاحبہ کی ہے، ان سے
بڑ کر کسی اور کی نہیں۔
میں صرف اتنی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اردو زبان ضرور سکھائیں
کیونکہ اسی طرح بچے اپنے کلچر اور روایات سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ میں آپ سب سے
کہوں گا کہ پالف کا پیغام اور اردو اسکول کا پیغام ہر پاکستانی تک پہنچائیں
تاکہ یہ سلسلہ کامیابی سے چلتا رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس سے
مستفید ہو سکیں۔
الحمد للہ اس وقت ہمارے پاس چار اساتذہ، پرنسپل اور میرے علاوہ ایک انرومنٹ
آفسر کام کررہے ہیں۔ ہماری تنظیم کے سر براہ جناب افضل رضوی خود باقاعدگی
سے اسکول کی نگرانی کرتے ہیں۔ ویک اینڈ پر وقت نکا لنا کوئی آسان کام نہیں،
لیکن مجھے امید ہے کہ ہماری آج کی محنت کل کی نسل کے کام آئے گی اور ہمیں
یقینا یاد رکھا جائے گا۔
اس کے بعد عاطف مجید ملک نے ڈاکٹر مفضل کا شکریہ ادا کیا اورمائک ناظم
مشاعرہ ڈاکٹر محسن علی آرزو ؔکے حوالے کر دیا گیا۔
ناظم مشاعرہ نے کہا کہ روایت کے مطابق ناظم مشاعرہ کو سب سے پہلے اپنا کلام
پیش کرنا ہوتا ہے لیکن انہوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے اپنا ایک شعر نذر
سامعین کیا:
”جو سانپ بن کے میری آستیں میں ہے موجود
اس ایک دوست سے دشمن ہزار بہتر ہیں“
اور یوں اس بے مثال مشاعرے کا آغاز ہوا جس میں قومی زبان سمیت پانچ دیگر
علاقائی زبانوں میں شاعری پیش کی گئی۔
مشاعرے کے اختتام پر صدر مشاعرہ نے وقت کی قلت کے پیش نظر اپنے مختصر سے
خطاب میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار
کیا کہ تمام حاضرین نے دلجمعی سے شعرائے کرام کے کلام کو سنا اور داد بھی
دی۔انہوں نے کہا کہ یہ پالف کے نصب العین کا حصہ رہا ہے کہ وطن عزیزسے دور
اپنی نئی نسل کو علم و عرفاں اور قومی زبان و ثقافت سے روشناس کرانے کے لیے
کوئی دقیقہ فرفزاشت نہ کریں گے، چنانچہ اردو اسکول کا قیام اس سلسلے کی ایک
کڑی ہے۔انہوں نے تمام شعراء کی تشریف آوری اور خاص طور پر مہمانِ خصوصی
جناب ظفر اقبال ظفر ؔ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی تمام تر
مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر مشاعرے میں شریک ہوکر اس کی رونق میں اضافہ
کیا۔صدر گرامی قدر نے آخر میں انہوں نے اپنا کلام بھی سنایا۔
خُلقِ رسولؐ کیا ہے؟ قرآن ہے
عشق کی معراج کیاہے؟ قرآن ہے
عدل کا میزان، حق کا منشور
رحمتِ پروردگار، قرآن ہے
روح کی تسکین، دل کا سرور
زندگی کا مدعا، قرآن ہے
محشر میں سایہ ہو جس کا نصیب
ایسی پاکیزہ ردا، قرآن ہے
مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر ظفر اقبال ظفرؔ نے اپنے خطاب میں پالف کی مجلس
منتظمہ اور افضل رضوی صدر پالف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں مشاعرے
میں شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ نسلِ نو کے لیے اردو زبان سے آگہی
نہایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں افضل رضوی اور ان کے رفقا ء کی مساعی
جلیلہ قابل قدر ہیں میری دعا ہے کہ اللہ انہیں اس کارِ خیر کو جاری رکھنے
کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔انہوں نے مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر مبارک
بادبھی پیش کی بعد ازاں انہوں نے اپنی مدھر آواز میں نعت رسول مقبولﷺ سنا
کر حاضرین کے دلوں کو بھی رقیق کردیا۔اپنے نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ انہوں
نے چند غزلیں اور دو نظمیں بھی نذر سامعین کیں۔
درِ رسولﷺپہ اک لفظ بھی نہ کہہ پایا
میں منتظر تھا کہ جبریل کچھ بتائے مجھے
میں لفظ بن کے کہیں نعت ہی میں ڈھل جاؤں
تری گلی کا گدا کوئی گنگنائے مجھے
یہ میکدہئ مدینہ یہاں کا رنگ عجیب
کہ جامِ ہوش بھی لازم ہے بیخودی کے لیے
جو ہو نہ عشق تو سارے علوم بے بہرہ
نبی کا عشق ضروری ہے آگہی کے لیے
رب العالمین افلاک کی تنہائیوں میں
حورو ملائک کے جھرمٹ میں
جہاں فرشتے اس کے احکام کی تکمیل کرتے تھے
مگر اسے سوجھی کہ اپنی ذات کا اظہار کردے گا
وہ رب العالمین ابلیس کی فطرت سے واقف تھا
اسے معلوم تھا انکار کردے گا
اسے تو مصطفی کی ذات کو دنیا میں لانا تھا
وجودِ آدم ِ خاکی تو بس اک بہانہ تھا
قبل ازیں ڈاکٹر افضل محمود نے اپنی نظم اور تازہ غزل سناکر حاضرین مجلس کو
خوب محظوظ کیا۔ان کی نظم ذیل میں رقم ہے۔
اجنبی ملک کے اک اجنبی اسٹیشن پہ
اک بھلی سی لڑکی
نام کاغڈ پہ میرا لکھ کے
تھی چپ چاپ کھڑی
ٹرین سے اتر کے
میں جو بڑھااس کی طرف
ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکان لئے
اس نے کہا“آپ ہیں ”
میں نے کہا
“انتظار جس کا تھا میں ہی تو ہوں ”
اس کی آنکھوں میں حیا
چہرے پہ لالی چھائی
اور پھر دھیرے سے
مسکان ہنسی میں بدلی
پالف کے میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر کاشف بٹ کی غزل مترنم اور محبت و آشتی کا
منبہ تھی جس کی داد نہ صرف شعرا ئے کرام دی بلکہ سامعین ان کے کلام سے خوب
محظوظ ہوئے۔
نہ تھا شمار کہیں بھی مگر شمار ہوئے
نگاہِ شاہ پڑی جن پہ ذی وقار ہوئے
خدا کی سمت سے امداد آ رہی تھی مگر
یہ عین بے خبری میں جو اُس کے وار ہوئے
نہ فرق رشد و ہدایت کے سلسلے میں تھا
فریق اینے تکبر کا خود شکار ہوئے
ہمارے سر پہ مسلط ہے رفتگاں کا عذاب
ہم اپنے عہد میں آنے سے قبل خوار ہوئے
کہیں سے مالِ غنیمت کی بو نہیں آتی
کہ راویانِ حدیثِ سناں نزار ہوئے
خلیفہ قتل ہوا سو ہوا مگر قاتِل
کہاں پناہ گزیں تھے کہاں فرار ہوئے
ہنوز نوعِ بشر نامراد ہے کاشف
نصابِ رفتہ کے سب تجربے بکار ہوئے
نبیل حیدر پالف کی مجلس منتظمہ کے رکن ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں ان کاپہلا
مجموع? کلام“ظالم یہ سمجھتا ہیخدا کوئی نہیں ہے”پالف نے شائع کیا۔ انہوں
اپنے مجموعہ سے منتخب کلام نذر سامعین کرکے خوب داد وصول کی۔
ڈھلتے سائے، ڈوبتا سورج، جلتاساحل، میں اورتم
جاتی لہریں، فکر جدائی، پھیلتا کاجل، میں اور تم
جاتے دن کی خاموشی سے رات ملی تو یاد آئے
میٹھی یادیں، آنے والا پھیکا سا کل، میں اور تم
الگ الگ سب اپنی اپنی تنہائی میں تشنہ ہیں
خشک زمیں، اک آوارہ سا گہرا بادل، میں اور تم
آو کوشش پھر کر دیکھیں، شاید اب کے مل جائیں
اسی پرانے باغ کا گوشہ، چھوٹا سا پل، میں اور تم
ڈاکٹر فاطمہ سید صاحبہ نے اپنی درج ذیل نعت سناکر حاضرین پر گویا سکتہ طاری
کر دیا۔ وہ ایک ابھرتی ہوئی نعت گو شاعرہ ہیں جن کے کلام میں نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم سے ان کی عقیدت ہر ہر لفظ سے عیاں ہے۔
زباں پہ نعت کا نغمہ سجا کے آئی ہوں
میں اپنی آنکھوں میں مدحت بسا کے آئی ہوں
ہوائے طیبہ کی خوشبو بکھر گئی دل میں
مدینے جانے کا جذبہ جگا کے آئی ہوں
ہے روشنی مری راہوں میں مصطفیٰؐ کا کرم
چراغ عشقِ رسالت جلا کے آئی ہوں
درود اُن پہ کہ جن کی مثال کوئی نہیں
سلام شافعِ امت کو کرنے آئی ہوں
میں سیدہ ہوں،مجھے مصطفے سے نسبت ہے
میں نسبتوں کا یہ تحفہ سجا کے آئئ ہوں
تمہارا نام محبت کا استعارہ ہے
میں دل میں شمع مودت جلا کے آئی ہوں
نظر اُٹھاؤں تو طیبہ کی راہ روشن ہو
یہ التجا بھی میں دل میں چھپا کے آئی ہوں
شرف نبی کی ثنا کا ہے فاطمہ کو ملا
جو نعتِ پاک کا تحفہ سجا کے آئی ہوں
پاکستان کی دیگر زبانوں کی اہمیت اور ان کی ثقافتی ضرورت پر بات کرتے ہوئے
گلزار خان نے کہا کہ اگر اس طرح کا مظاہرہ آج سے پچاس سال پہلے ہو جاتا تو
شاید پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ انہوں پالف کی اس کاوش کی ستائش کرتے ہوئے
کہا کہ ہم پشتونوں کا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔انہوں نے خوشحال خان خٹک کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ملی یکجہتی کی بات کی۔بلوچ قوم کی
نمائندگی کرتے ہوئے جاوید بلوچ نے بلوچی زبان کی اہمیت اجاگر کی اور بلوچی
زبان میں شاعری پیش کی۔
سندھی زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے امتیاز بوگھیو نے شاہ عبداللطیف بھٹائی
کا کلام سنایا۔عدیل صادق نے سرائیکی زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس زبان کہ
ہمہ جہتی واضح کی جب کہ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر شمی
جالندھری نے پنجابی میں اپنا کلام پیش کرکے پنجابی ماں بولی کی اہمیت واضح
کی۔بشارت سمی نے عید کے حوالے کے حوالے سے مزاحیہ شاعری سنا کر داد وصول
کی۔
بیگم جس دن سے نانی ھو گی ھے
عقل اس کی ہجانی ھو گی ھے
منہ کیو ں پھولا ھوا ھے جو پوچھ پیٹھے
تو بولی محبت اب پرانی ھو گی ھے
اور
بیشمار تصویر بتاں بیشمار حسینوں کے میسج
پکڑے جانے پہ میرا فون یہ سب کچھ نکلا
ندرت رفیق نے اپنی پنجابی نظم بعنوان ”مائیں نی“ سنائی جسے حاضرین مجلس ہمہ
تن گوش ہو کر سماعت کیا۔ مشاعرے میں پاکستان سے تشریف لائے بزرگ شاعر جناب
غلام محمد خاں بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنا نعتیہ کلام نذرِ سامعین کیا۔
مشاعرے کی خاص بات ناظم مشاعرہ ڈاکٹر محسن آرزو کا مشاعرے میں نظم و ضبط
برقرار رکھنا تھی انہوں نے دو گھنٹے تیس منٹ کے طویل مشاعرے کی نظامت کو
نہایت حسن و خوبی سے سر انجام دیا اور گاہے گاہے اس بات کا اظہار بھی کیا
کہ فن نظامت کوئی آسان کام نہیں۔
|