سَرمد صہبائی کی ایک سچی اور آنکھوں دیکھی صورتحال کو
اپنی بہترین تحریر سے اس کو جلا بخشی اور یہ آج کل کی نئی نسل کے بہترین
سبق آموز اصلاحی پیغام ہے.
پٹھانے خان کو کہیں سے پروگرام کی دعوت ملنی تو ہارمونیم کندھے پر اُٹھا کر
نکل پڑتا، یہی ہارمونیم اُس کا ساز و سامان تھا اور اُس کی موسیقی ہی اُس
کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اِس سارے سفر میں صرف ایک شخص تھا جو ہمیشہ اُس کے
ساتھ رہتا تھا، یاسین! چھریرا بدن، بھورے بال، روشن ہری آنکھیں، گندمی رنگ،
سردیوں میں ایک پھٹا پرانا کمبل اور گرمیوں میں ایک میلی چادر کی بکل میں
چھپا، سارے بدن کو ایسے سمیٹے ہوئے کہ جیسے اپنے آپ میں ہی گم ہو جائے گا،
خاموش اتنا کہ جیسے مراقبے میں ہو، پٹھانے خان کے پیچھے چہرہ چھپا کر ایسے
بیٹھتا جیسے موجود ہی نہ ہو۔ اُس کی گود میں کپڑے کے غلاف میں لپٹی ایک
کتاب رکھی ہوتی جو صرف اُسی کو نظر آتی۔ جب پٹھانے خان گاتا تو یاسین کتاب
سے پڑھ کر اُسے اَگلا شعر سرگوشی میں بتاتا۔ یہ عمل اِس قدر ٹیلی پیتھک
ہوتا کہ کبھی کسی کو احساس ہی نہ ہوتا کہ یاسین بھی کوئی شخص ہے جو پٹھانے
خان کے پیچھے بیٹھا ہے۔ وہ ہر محفل میں اپنی موجودگی میں غیر موجود رہتا۔
یاسین کون تھا؟ پٹھانے خان کا دوست، بالکا، شاگرد یا اُس کا ہمزاد؟
”سَرمد سائیں! میں راجپوتاں دا پُتر آں۔ میری چنگی بھلی شادی ہوئی، کھاندے
پیندے گھرانے دا ساں، پڑھیا لکھیا وی ساں“ (سَرمد سائیں! میں راجپوتوں کا
بیٹا ہوں، میری اچھی بھلی شادی ہوئی، کھاتے پیتے گھرانے سے ہوں، پڑھا لکھا
ہوں)
پھر؟
”فیر کی، بس ہک دیہاڑے پٹھانے دا گانا سُنیا تے سوانی تے بال بچے چھوڑ
ایہدے مغرے ٹُر پیا، فیر کدائیاں مُڑ کے ویکھن ای نہیں ہویا“
(پھر کیا، بس ایک دن پٹھانے کا گانا سُنا اور بیوی بچے چھوڑ اِس کے پیچھے
چل پڑا، پھر اُس کے بعد کبھی واپس مُڑ کے دیکھنا ہی نہیں ہوا)
اچھا کیوں؟
”کدائیاں پچھے مُڑن دا مقام ہی نہیں آیا“
(کبھی پیچھے مُڑنے کا مقام ہی نہیں آیا)
یاسین نشہ تو کرتا تھا لیکن جب اُس نے مجھے بتایا کہ وہ نشوں کا مقابلہ
کرتا ہے تو میں بڑا حیران ہوا۔
”ہاں سائیں! ملنگ ون سونے نشے کر دے ہن تے ہک دوجے نال مقابلہ کردے ہن“
(ہاں سائیں ملنگ نت نئے نشے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے
ہیں)
میں نے جب یاسین سے اُن مقابلوں کے قصے سُنے تو پتہ چلا بڑے بڑے ملنگ یاسین
کے سامنے دم چھوڑ جاتے ہیں۔ شاید اِس کے پاس کوئی گُر یا کرامت تھی جو اُس
کو زندہ بچا لیتی تھی۔ وہ دیکھنے میں نہایت معصوم، بھولا بھالا اور پُر
سکون نظر آتا تھا لیکن اُس کے اندر کچھ ایسا اضطراب تھا کہ تھمنے میں نہیں
آتا تھا، بھنگ، چرس، افیم، خواب آور گولیاں، حتی کہ کچلے تک کھا جاتا۔ جسم
پر سانپ لڑواتا لیکن زندہ سلامت بچ جاتا...
”سائیں ایہہ سپ تاں اینویں کیڑے مکوڑے ہن، ایناں سانوں کی کہنا“
(سائیں یہ سانپ تو ایسے ہی کیڑے مکوڑے ہیں، اِنہوں نے ہمیں کیا کہہ لینا
ہے)
وہ آج تک کسی سے نشے کا مقابلہ نہیں ہارا تھا۔ شاید اُس پر کوئی نشہ اثر
نہیں کرتا تھا۔
صدرِ پاکستان جنرل ضیاءالحق کی طرف سے چودہ اگست کی تقریب میں بہت سے
فنکاروں کے ساتھ پٹھانے خان کو بھی بلایا گیا۔ میں تیرہ اگست کی شام کو
پٹھانے خان کو ریلوے سٹیشن لینے پہنچا، سوچا تقریب کی خوشی میں خان صاحب
شاید تیار ہو کر آئیں لیکن دیکھا کہ وہی دُھول میں اٹے بال، اَن دھلے بغیر
استری کے کپڑے، کندھے پر ہارمونیم اور پیچھے یاسین ایک پھٹی پرانی چادر میں
بکل مارے چلا آ رہا تھا، صرف اس کی ہری ہری آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔
وہ عجیب و غریب رات تھی، پٹھانے خان آج گانا نہیں گا رہا تھا، لاؤنج میں
صرف میں، پٹھانے خان اور یاسین تھے۔ آج پٹھانے خان بہت بے چین تھا، کل صبح
اس کو جنرل ضیاءالحق سے ملنے جانا تھا۔ وہ مجھ سے باری باری یہی کہے جا رہا
تھا کہ میں اُس کو ایک درخواست لکھ کر دوں جو وہ کل جنرل کے سامنے پیش کر
سکے۔ میں کاپی پنسل پکڑ کے بیٹھ گیا، ’ہاں پٹھانے خان، بتاؤ‘ اِس سے پہلے
کہ پٹھانے خان کچھ کہتا اور میں کچھ لکھتا، یاسین کی بکل میں ایک پُر
اَسرار سی جنبش ہوئی، اُس کی آنکھیں اُس کی چادر کے پیچھے سے دو ہری بتیوں
کی طرح روشن ہوئیں اور اُس نے ایک رازدارانہ لہجے میں پٹھانے خان سے کہا،
”سیں توں تاں شاہین ایں، ایہہ کرگساں کول کی لین جا رہیا ہیں“
(سائیں تُو تو شاہین ہے، کرگس کے پاس کیا لینے جا رہا ہے؟)
پٹھانے خان ایک لمحے کو سکتے میں چلا گیا لیکن پھر یاسین کی بات کو نظر
انداز کرتے ہوئے مجھے درخواست لکھوانی شروع کر دی۔ یہی کہ اُس کے بارہ بچے
ہیں، اُس کا گزارہ نہیں ہوتا، وہ کیسے غربت اور پریشانی میں دن زندگی کے
گزار رہا ہے، اگر اُس کا کوئی وظیفہ لگ جائے تو وہ ملک کے بادشاہ کو ساری
عمر دعائیں دے گا۔ درخواست کے درمیان یاسین نے پھر سرگوشی کی...
عاشق ہوویں تاں عشق کماویں
(اگر تو عاشق ہے تو عشق کمائے گا)
راہ عشق دا سوئی دا نکا
(عشق کا راستہ سوئی کا نکا ہے)
تاگا ہوویں تاں جاویں
(اگر تُو دھاگہ ہے تو اس سے گزر سکے گا)
باہر پاک اندر آلودہ
(تیرا ظاہر پاک نظر آتا ہے لیکن تیرا باطن آلودہ ہے)
کیا تُوں شیخ کہاویں
(پھر اپنے آپ کو شیخ کیا کہلاتا ہے)
یاسین! میری جند، چپ کر
(یاسین میری جان چپ کر)
پٹھانے خان نے ذرا پیار سے سمجھانے کے انداز میں کہا
’چپ کاھدی؟‘ (چپ کیسی؟)
یاسین کی گود میں رکھی کتاب کھل چکی تھی۔ یہ وہ کتاب تھی جس میں شاہ حسینؔؒ
اور خواجہ فریدؔؒ کا وہ سارا کلام تھا جسے ساری عمر پٹھانے خان گاتا رہا۔
’سانوں کوڑی گل نہ بھاؤندی‘
(ہمیں جھوٹی بات پسند نہیں)
"سانوں طلب سائیں دے نام دی"
(ہمیں تو محبوب کے نام کی طلب ہے)
پٹھانے خان نے یک دم غصے سے کہا:
’میں کہا تیں چپ کر‘ (میں نے کہا تُو چپ کر)
یاسین کو میں نے پٹھانے خان کے سامنے کبھی بولتے نہیں سُنا تھا لیکن آج اُس
کی زبان کی گرہ کھل چکی تھی۔ یاسین کے اندر سے کوئی اور یاسین نکل آیا تھا۔
اُس نے پھر ہنس کر کہا:
"میاں گل سُنی نہ جاندی سچی"
(میاں سچی بات سُنی نہیں جاتی)
سچی گل سُنیویں کیونکر
(سچی بات کیسے سُنی جائے)
کچی ہڈاں وچ رچی
(ہڈیوں میں تو کچی رچی ہے)
کچی، یعنی کچی شراب، اندر کا کچ، جھوٹ، بزدلی، ناپختگی، بے ایمانی...
پٹھانے خان کو یک دم بہت غصہ چڑھا لیکن وہ چپ رہا۔ وہ اُس وقت کچھ کہہ بھی
نہیں سکتا تھا، اِس لئے کہ اُس کی اپنی ہی آواز پلٹ کر اُس کے طرف آ رہی
تھی۔ یہ عجیب ساعت تھی کہ شاہ حسین، مادھو لال کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔
میں نے سوچا میں کیا کروں؟ پٹھانے خان کی درخواست پھاڑ کر باہر پھینک دوں؟
یا یاسین کے ساتھ بکل مار کر بیٹھ جاؤں۔ لیکن میں نہ تو یاسین تھا نہ
پٹھانے خان، یہ عاشق معشوق کا مکالمہ تھا، یہ ایک ایسا مقام تھا جسے میں
دیکھ تو سکتا تھا لیکن وہاں پہنچ نہیں سکتا تھا۔
’میریئے سوہنیئے سورہ یاسینے، بس کر‘
(اے میری سوہنی سورۂ یاسین اب بس کر)
پٹھانے خان کو جب یاسین پر بہت پیار آتا وہ اُسے اپنی ’سورہِ یاسین‘
کہتا...
’بس؟ ہن تیری میری بس سائیں‘
(بس؟ اب تیری میری بس ہو چکی)
یاسین اپنے وجد میں خواجہ فریدؔؒ، شاہ حسینؔؒ اور بھلّےؔ شاہؒ کا کلام پڑھے
جا رہا تھا۔ یہ آسیب کی رات تھی جس میں یاسین کا ورد جاری تھا۔ اُس رات
شاید وہ آنے والی صبح نہیں دیکھنا چاہتا تھا، مکروہ اور بدنما صبح، وہ نہیں
چاہتا تھا کہ اُس کا مرشد کسی غیر کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ وہ اِس لمحے کو
وہیں روک دینا چاہتا تھا، وہ اُس رات کلام نہیں پڑھ رہا تھا کسی آنے والی
بلا کو ٹالنے کے لئے دم پھونک رہا تھا۔
پٹھانے خان جب بہت عاجز آ جاتا تو اپنی بے بسی میں صرف اتنا کہتا:
’جا تیں سوں جا‘
(جا اب تُو سو جا)
اِس کے بعد یاسین بغیر کچھ کہے سُنے سونے کو چلا جاتا۔ یہ اُس کی سعادت
مندی اور اپنے گُرو کی سیوا تھی۔
پٹھانے خان نے نہایت ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا:
’جا تیں سو جا‘
یاسین یک دم خاموش ہو گیا، اُس کی چمکتی ہوئی آنکھیں مدھم پڑ گئیں، وہ
آہستہ سے اُٹھا اور کونے میں جا کر چادر اوڑھ کر سو گیا...
دوسرے دن صبح جب میں اُٹھا اور حسبِ معمول لاؤنج میں گیا تو دیکھا لاؤنج
بالکل خالی پڑا تھا۔ دونوں یاسین اور پٹھانے خان غائب تھے۔ پٹھانے خان کو
تو ایوانِ صدر اپنی درخواست کے ساتھ حاضر ہونا تھا لیکن یہ یاسین کہاں چلا
گیا۔ نہ کچھ کھایا نہ پِیا بغیر کسی سلام دعا کے؟ رات کی بات میرے ذہن سے
اُتر چکی تھی۔ میں نے سوچا شام کو دونوں واپس آ جائیں گے اور میں پٹھانے
خان سے اُس کی جنرل ضیا سے ملاقات کی رُوداد سُنوں گا۔ لیکن اُسی دن دوپہر
کے بعد مجھے کسی نے فون کیا اور یہ دلدوز خبر سنائی کہ یاسین مر گیا ہے۔
پتہ چلا کہ جب پٹھانے خان ایوانِ صدر گیا، یاسین نشوں کا مقابلہ کرنے
ملنگوں کے پاس چلا گیا تھا۔ یک دم میرے سامنے رات کا سارا منظر گھوم گیا۔
یاسین تو نشوں کے مقابلے میں کبھی کسی سے ہارا نہیں تھا، شاید اُس نے اُس
دن زندہ بچنے کا کوئی گُر استعمال نہیں کیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ اپنے
مرشد کو کسی غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھے وہ خود مر جانا چاہتا تھا۔
لیکن یاسین کی موت ایک بددعا تھی۔
جنرل ضیاءالحق کا طیارہ تین دن بعد ہوا میں پھٹ کر تباہ ہو چکا تھا۔
’او میریئے سوہنیئے سورہِ یاسینے‘
(اے میری سوہنی سورہِ یاسین)...
|