پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کا حصول مشکل کیوں؟

image
 
بہت سے پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا ویزا حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یو اے ای نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا پر کوئی باضابطہ پابندی کی تردید کی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں پہلے سے کام کرنے والے بعض پاکستانی شہریوں کا ماننا ہے کہ پاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کے ذریعے یو اے ای حکام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مبینہ کوششیں ویزا پابندیوں کی بڑی وجہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ایسی سرگرمیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے یو اے ای کے ساتھ اس کی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی شہریوں پر کوئی سرکاری پابندی عائد نہیں کی ہے۔

وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے نئی پانچ سالہ ویزہ پالیسی متعارف کرائی ہے، جس میں اضافی شرائط شامل کی گئی ہیں۔ نظرثانی شدہ ویزہ پالیسی کے تحت درخواست گزار کو آمد و رفت کے ٹکٹ، ہوٹل کی بکنگ، کسی بھی جائیداد کی ملکیت کا ثبوت، اور تین ہزار اماراتی درہم کی پیشگی ادائیگی کی رسید جمع کرنی ہو گی۔
 
image

تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد
تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود جن افراد کی ویزہ درخواست مسترد کردی گئی، ان کا کہنا ہے کہ اگر امارات نئے شرائط کے تحت ویزے جاری کرنا شروع کر دے تو بھی یہ ایک بڑی سہولت ہو گی۔ کیونکہ وہ گزشتہ ایک سال سے کاروباری مقاصد کے لیے بھی امارات کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق، سال دو ہزار چوبیس کے دوران متحدہ عرب امارات نے تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کی ہیں۔

ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر مینیجر کے عہدے پر فائز مقداد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ ہماری کمپنی ملٹی نیشنل ہے، اس لیے ہمیں مختلف ممالک میں ایونٹس کا انعقاد کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے متحدہ عرب امارات میں ایک ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے افراد کو شرکت کرنی تھی، لیکن شرکاء کی بات تو دور، کمپنی کی مینجمنٹ کو بھی یو اے ای کا ویزہ نہیں ملا، جس کی وجہ سے ہمیں ایونٹ منسوخ کرنا پڑا اور اب ہم اسے کسی اور ملک میں منعقد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

اپنی کمپنی کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مقداد نے کہا، "میری کمپنی ایک بڑی کمپنی ہے، اور جہاں تک بینک اسٹیٹمنٹس اور دستاویزات کا تعلق ہے، ہر چیز مکمل تھی، لیکن اس کے باوجود ہمیں ویزہ نہیں ملا، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ویزہ حاصل نہ کر سکے جو ملینز میں تنخواہ لے رہے ہیں۔"

ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل
وہ افراد جنہیں ویزہ مسترد ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے، کہتے ہیں کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک کمپنی کی بات نہیں جسے اپنا ایونٹ منسوخ کرنا پڑا، بلکہ کئی دیگر تنظیموں کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ظفر بھٹہ، جو پاکستان میں ایک معروف انگریزی اخبار کے صحافی ہیں، کہتے ہیں، "میں پہلے بھی متحدہ عرب امارات جا چکا ہوں، لیکن دو ہزار تئیس کے آخر سے یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ میں نے سال دو ہزار تئیس کے آخر میں ویزہ کے لیے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی۔ حال ہی میں، مجھے یو اے ای میں ایک ایونٹ میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے بتایا کہ وہ خود بھی ویزہ حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ہمارے لیے ویزہ کے لیے اپلائی کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچا، کیونکہ اب وہ ایونٹ اس مقام پر منعقد نہیں ہو رہا تھا۔"

نہ صرف متحدہ عرب امارات کا وزٹ ویزہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ وہ ملک، جو پاکستانیوں کے لیے روزگار کی تلاش کا ایک پسندیدہ مقام تھا، نے دو ہزار تئیس کے آخر سے پاکستانیوں کو ملازمتیں دینا بھی تقریبا بند کر دی ہیں۔

ایک پاکستانی، جس کی یو اے ای میں رجسٹرڈ کمپنی ہے اور وہ وہاں کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ویزہ پراسیسنگ کے کام میں بھی شراکت دار ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو ہزار تئیس سے وہ پاکستانی جو وزٹ ویزے پر یو اے ای میں موجود تھے اور نوکریاں تلاش کر رہے تھے، انہیں واپس پاکستان جانا پڑا کیونکہ یو اے ای کی کمپنیوں نے پاکستانیوں کو ملازمت دینا بند کر دیا، بلکہ انہیں انٹرویوز کے لیے بلانا بھی چھوڑ دیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت ایسا ہوا ہے، تو انہوں نے کہا، "یو اے ای ایک مختلف انداز میں کام کرتا ہے، جہاں بہت سی چیزیں باضابطہ لکھی جاتی ہیں، وہیں کئی احکامات تحریری شکل میں جاری نہیں کیے جاتے۔ حکومتی ادارے خود جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ جب کچھ پاکستانیوں کو نوکری دینے والی کمپنیوں کی جانب سے دائر کردہ ورک ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں، تو مارکیٹ کو پتہ چل گیا کہ اب پاکستانیوں کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔"
 
image

پاکستانیوں کے حوالے سے یو اے ای کے تحفظات
وزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ یو اے ای کو پاکستانیوں کے ویزہ درخواستوں اور پہلے سے جاری ویزوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ ان میں جعلی ڈگریاں جمع کرانا، ملازمت کے جعلی معاہدے، اور ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی قیام کے واقعات شامل ہیں۔ کچھ پاکستانی شہری سیاسی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

یو اے ای میں موجود ایک کمپنی کے مالک، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ اس سے ان کا کاروبار فوری طور پر متاثر ہو سکتا ہے، نے کہا، "یہ مسائل کسی حد تک پہلے سے موجود تھے، بھیک مانگنے کا مسئلہ واقعی ایک حقیقت ہے جسے حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانی حکام کے سامنے اٹھایا تھا، لیکن ہم یو اے ای میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ یہاں کچھ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، جسے یو اے ای اپنی روایت کے مطابق باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کرتا۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہاں، ایک چیز جو یو اے ای حکام کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے اور جس کا وہ ذکر بھی کر چکے ہیں، وہ پاکستانی شہریوں کی یو اے ای میں رہائش کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے۔ پاکستانی افراد یو اے ای حکام پر مبینہ طور پر مخصوص بین الاقوامی اتحادوں کے حوالے سے الزامات لگاتے ہیں اور انہیں بدنام کرتے ہیں۔

Partner Content:DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: