سائے میں جو بیٹھے ہیں وہ کیا جانیں درد پرانے
دھوپ میں جل کے اگائے تھے ہم نے سایہ دار خزانے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں، آج کی دنیا میں ہم جس سہولت، آسائش
اور تحفظ کا لطف اٹھا رہے ہیں، اس کے پیچھے ایک طویل داستانِ قربانی، محنت
اور ایثار پوشیدہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ نسل کو شاید یہ ادراک نہیں کہ
وہ ٹھنڈی چھاؤں جس میں وہ آرام سے بیٹھی ہے، اسے مہیا کرنے کے لیے ماضی میں
کسی نے اپنی خواہشات، خواب اور حتیٰ کہ اپنی زندگی تک قربان کی۔ دھوپ میں
جھلسنے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے آنے والے وقتوں کو سہل بنانے کے لیے اپنے
آج کو داؤ پر لگا دیا۔ ان کی قربانیوں کی بدولت آج ہم محفوظ، آزاد اور
خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ پیڑ، جن کی چھاؤں ہمیں نصیب ہے، صرف درخت نہیں، بلکہ وہ نظریے، اصول،
روایات اور اقدار ہیں جنہیں ہمارے بڑوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔ یہ وہ
لوگ تھے جنہوں نے آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا، علم کے چراغ جلائے،
معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر
گامزن کرنے میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ انہوں نے دکھ، درد اور محرومیوں
کے سائے میں رہ کر بھی ہمت نہیں ہاری، بلکہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل
کی خاطر اپنے حصے کا بوجھ اٹھایا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو سہولتیں ہمیں ورثے میں ملی ہیں، وہ خود
بخود نہیں آئیں۔ کسی نے اپنا آج قربان کیا تاکہ ہم اپنا کل سنوار سکیں۔ ان
قربانیوں کا احساس اور احترام ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری آنے والی نسلیں بھی ایسی ہی چھاؤں سے فیض یاب ہوں، تو ہمیں بھی اپنے
حصے کا ایک نیا پیڑ لگانا ہوگا۔ وہ پیڑ علم کا ہو، خدمت کا، محبت کا یا
قربانی کا۔ یہی عمل اس تسلسل کو قائم رکھے گا جو ہمارے آباؤ اجداد نے شروع
کیا تھا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم شکر گزاری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جو
دھوپ میں جل کر ہمیں سایہ دے گئے، ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور ایسا معاشرہ
قائم کریں جہاں انصاف، محبت، علم اور ترقی کا سایہ ہر فرد تک پہنچے۔ یہی
سچّی میراث ہے جو ہم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ سکتے ہیں۔
|