ایک شخص دربار رسالت صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور دوسرے شخص کے خلاف دعوٰی کر دیا کہ
اس نے میرا اونٹ چوری کر لیا ہے اور دو گواہ بھی لے آیا۔ ان دونوں نے گواہی
بھی دے دی۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا
ارادہ فرمایا تو مدعی نے عرض کی۔ “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم ! آپ اونٹ کو حاضر کرنے کا حکم دیجئے۔ پھر اونٹ سے پوچھ لیجئے کہ اصل
حقیقت کیا ہے ؟ میں اللہ کی رحمت سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اونٹ کو بولنے
کی قول عطا فرمائے گا۔“
چنانچہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کو پیش
کرنے کا حکم دیا۔ اونٹ آیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا۔ “اے اونٹ ! میں کون ہوں ؟ اور یہ ماجرا کیا ہے ؟“ اونٹ فصیح
زبان سے بولا کہ، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول
ہیں۔ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! اس مالک کا ہاتھ نہ
کاٹیں کیونکہ مُدعی گواہ منافق ہیں۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کی عداوت اور دشمنی کی بناء پر میرے مالک کا ہاتھ کاٹنے کا
منصوبہ بنایا ہے۔
حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کے مالک سے
پوچھا۔ “وہ کون سا عمل ہے جس کی برکت سے اللہ تعالٰی نے تجھے اس مُصیبت سے
بچا لیا ہے ؟“ عرض کیا۔ “سرکار ! میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے، لیکن ایک
عمل ہے وہ یہ کہ اٹھتا بیٹھتا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ذات
گرامی پر دورد شریف پڑھتا رہتا ہوں۔“ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “اس عمل پر قائم رہ۔ اللہ تعالٰی تجھے دوزخ سے
یونہی بَری کردے گا جیسے تجھے ہاتھ کٹ جانے سے بَری کیا ہے۔“
(سعادۃ الدارین۔ ص 137)
“نزہتہ المجالس“ میں اتنا زیادہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم نے اسے فرمایا۔
“اے پیارے صحابی ! جب تُو پُل صراط پر گزرنے لگے گا تو تیرا چہرہ یوں چمکے
گا جیسے چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے۔“
(نزہتہ المجالس۔ ص 106۔ جلد 2) |