خواجہ سرا

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

خواجہ سراؤں کا مسکن

مغل دور یا سلاطینِ دہلی کے دور میں کئی خواجہ سرا سپہ سالار کے عہدے پر فائر رہے ہیں.
خواجہ سراؤں کی زندگی پر ایک فلم بھی بنی ہے ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری والوں نے بنائی ہے جو کافی بہتر انداز میں خواجہ سراؤں کی مشکل زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔
خواجہ سراؤں کا مسکن محل ہوا کرتے تھے، یہ لوگ بہادری اور وفاداری کے لیے جانے جاتے تھے، پھر یہی خواجہ سرا وفاداری کی بھینٹ چڑھے اور قتل ہوے، وفاداری کا پھل اچھوت بنا دیا گیا۔
آج بھی کچھ خواجہ سرا عظمت رفتہ کو یاد کرتے ہیں اور شاید اپنے اسی مقام کی تلاش میں ہیں جو کہ تین سو سال پہلے تھا۔
لیکن بدلتے وقت کی رفتار میں اب خواجہ سرا اپنی الگ پہچان چاہتے ہیں،
اپنے ماں باپ ہوتے ہوئے بھی پرایوں کی طرح رہنے والے، زندگی کے جھمیلوں کا اکیلے ہی سامنا کرنے والے ، خود چاہے جس حال میں بھی رہیں لوگوں کے گھروں اور اُن کی زندگیوں میں خوشیوں کا رنگ بکھیرنے والے ”خواجہ سرا“۔ آخر کون ہیں یہ خواجہ سرا ؟ کیسے رہتے ہیں ، کہاں رہتے ہیں، ان کا مذہب کیا ہے ، ان کے عقائد کیا ہیں ، خوشی مناتے ہیں ، دکھ کیسے برداشت کرتے ہیں اور خاموشی سے مر جاتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کی زندگی سے کئی دقیا نوسی کہانیاں وابستہ ہیں لیکن یہ محض
سینہ بہ سینہ ہی ہیں ۔
بچپن سے ہی ماں باپ کے ساتھ ہتک آمیز علیحدگی اور ایک انجانے ماحول میں پروروش اور زندہ رہنے کیلئے در در کی بھیک مانگنے،گناہ کا مرتکب ہونا جو اس جنس کیلئے گناہ بے لذت ہے اور پھر ایسی حالت میں مر جانا کہ نا جنم دینے والی ماں کو پتا چلے اور نہ ہی ایک کوک سے جنم لینے والے بڑے چھوٹے بہن بھائیوں کو ۔ یہ راز ارض و سما کا مالک ہی جانتا ہے جس کی کوئی بھی تخلیق بے کار نہیں اور جس کا کوئی بھی فیصلہ مصلحت سے خالی نہیں ۔

خدائی تخلیق کا ہر ذرہ اپنی مثال آپ ہے ،ابلیس لعین نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نکال دیا تو اس نے کہا:

1- ’’۔۔۔۔۔۔ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا۔‘‘ (النساء:۱۱۸،۱۱۹)
ترجمہ:
’’میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا، اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا، وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔‘‘

2- ’’ فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا
ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔‘‘ (الروم:۳۰)
ترجمہ:
’’ اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو، جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے، بدلنا نہ چاہیے۔‘‘

3- قومِ لوط علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ، اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ .......
وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا ۭفَانْظُرْ کَيْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۔‘‘ (الاعراف:۸۰-۸۳)

ترجمہ:
’’ اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ: تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہاں والوں میں سے نہیں کیا۔ (یعنی) تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر، بلکہ تم حدِ (انسانیت) ہی سے گزر گئے ہو۔۔۔۔۔۔اور ہم نے ان پر ایک (نئی طرح کا) مینہ برسایا (کہ وہ پتھروں کا تھا) سو دیکھ تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا ؟۔ ‘‘

4- ’’ فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ ۭ وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ ۔‘‘ (ھود:۸۲، ۸۳)
ترجمہ:
’’ سو جب ہمارا حکم (عذاب کے لیے) آپہنچا تو ہم نے اس زمین (کو اُلٹ کر اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کردیا اور اس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو لگا تار گر رہے تھے، جن پر آپ کے رب کے پاس (یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا اور یہ بستیاں (قومِ لوط علیہ السلام کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ ‘‘

حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
1- ’’‌کُلُّ ‌مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔‘‘ (مسند احمد:۹۱۰۲)
یعنی ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘

2- ’’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ‌أخْوَفَ مَا أخَافُ عَلٰی أمَّتِيْ عَمَلُ قَوْمِ لُوْطٍ۔‘‘ (سننِ ترمذی: ۱۴۵۷)
یعنی ’’مجھے اپنی اُمت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے، وہ قومِ لوط کا عمل ہے۔‘‘

3- ’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ الْمُـتَشَبِّہِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُـتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔‘‘
(بخاری: ۵۵۴۶، دارابن کثیر، دمشق)
یعنی ’’نبی کریم ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں۔‘‘

4-’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُـتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ: أخْرِجُوْہُمْ مِنْ بُيُوتِکُمْ۔‘‘
(بخاری: ۵۵۴۷، دارابن کثیر، دمشق)
یعنی ’’نبی کریم ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں، اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ ‘‘

5-’’۔۔۔ أنَّ أمَّ سَلَمَۃَ أخْبَرَتْہَا: أنّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عِنْدَہَا وَفِي الْبَيْتِ مُخَنَّثٌ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ أخِيْ أمِّ سَلَمَۃَ: يَا عَبْدَ اللہِ! إِنْ فُتِحَ لَکُمْ غَدًا الطَّائِفُ، فَإِنِّيْ أدُلُّکَ عَلٰی بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّہَا تُقْبِلُ بِأرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا يَدْخُلَنَّ ہٰؤلَاءِ عَلَيْکُمْ۔‘‘
(بخاری: ۵۵۴۸، ابن کثیر)
’’ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے، گھر میں ایک مغیث نامی مخنث بھی تھا۔ اس مخنث (ہیجڑے) نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر کل اللہ نے تمہیں طائف پر فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھلاؤں گا، کیونکہ وہ سامنے آتی ہے تو (موٹاپے کی وجہ سے) اس کی چار شکنیں پڑ جاتی ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو آٹھ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا کہ: یہ (مخنث) تمہارے پاس اب نہ آیا کرے۔‘‘

6-’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ ‌الْمُـتَشَبِّہِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُـتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔‘‘
(مسند احمد: ۳۱۵۱، ط: مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)
یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

7-’’عَنْ أبِيْ ہُرَيْرَۃَ: أنَّ النَّبِيَّ-صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- أتِيَ بمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَبَ يَدَيْہِ وَرِجْلَيْہِ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ-:
مَا بَالُ ہٰذَا؟ فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ! -صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَتَشَبَّہُ بِالنِّسَاءِ، فَأمَرَ بِہٖ، فَنُفِيَ إِلَی النَّقِيْعِ۔‘‘
(سنن ابی داؤد: ۴۹۲۸)
یعنی ’’نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک مخنث لایا گیا، جس کے ہاتھ اور پاؤںپر مہندی لگی ہوئی تھی،
آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔ ‘‘
یہ تمام آیات و احادیث سمجھنے کے لیے ضروری ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اللہ کی تخلیق اور فطرت کو تبدیل کرنے والوں کے بارہ میں دینِ اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔


قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ :
وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ-
ترجمہ:
اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اِس حقیقت کی )یاد دہانی حاصل کرو (کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے)''(الذاریات ٥١:٤٩) ۔

قوم
مخلوقاتِ دنیا کی تخلیق میں یہ اللہ تعا لیٰ کے عمومی اُصول کا بیان ہے۔
خواجہ سراؤں کو نہ کسی 'قوم' کا عنوان دیا جاسکتا ہے،نہ اُنہیں کوئی الگ 'مخلوق' ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔
یہ دونوں ہی عنوانات خواجہ سراؤں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔نہ وہ کوئی الگ'مخلوق' ہیں اور نہ ہی کوئی 'قوم'۔
وہ صرف انسان ہی ہیں۔

اوصاف ۔
خلقی اوصاف کے اعتبار سے اُن میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ اوصاف سے۔
یہ اُن کی تخلیق کا وہ نقص ہے جو اُن کے خالق اور پروردگار نے اُن میں ایسے ہی رکھا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضا سے پیدایشی طور پر معذور پاتے ہیں۔اُن کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے ۔

صنف و لفظ

"خواجہ" فارسی کا لفظ( جمع ’خواجگان‘ ہے)۔ خواجہ "سردار یا آقا" کو کہتے ہیں۔
لغت کے مطابق "توران" میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین ہے ۔
خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔
بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے ہیں اور زنانے میں آنے جانے کی انھیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو "محلّی" بھی کہتے ہیں۔
اردو زبان میں اس صنف کو ہیجڑا، کھسرا، زنخا یا خواجہ سرا ء کے ناموں سے جانا جاتا ہے جبکہ عربی میں ان کو "مخنث" کہا جاتا ہے۔
خواجہ سرا کو تیسری صنف بھی کہتے ہیں اگرچہ خواجہ سراؤں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں لیکن اُن کی روش صنف نازک کی طرح ہوتی ہے۔

پاکستان میں خواجہ سرا
پاکستان میں سرکاری طور پر مردم شماری میں ان کی تعداد الگ شمار کی جاتی ہے، پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً 3 لاکھ کی تعداد ہے ۔
اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک خواجہ سرا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے جہاں صرف خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ خواجہ سراؤں کا اولین مدرسہ ہے، مدرسے کی سربراہ 34 سالہ خواجہ سرا رانی خان روزانہ تقریباً 25 خواجہ سراؤں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں۔
کراچی کی 27 سالہ ڈاکٹر سارہ گل نے پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر بن کر تاریخ رقم کردی۔ انھوں نے جنوری 2022ء میں ڈگری پاس کی۔
لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ سرا فیاض اللہ کو پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) کے تحت امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔(5 فروری 2021ء)
خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کو پہلی مرتبہ جرگہ ممبر منتخب کر لیا گیا ہے، پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراء ثوبیہ خان کو شہر میں تمام ڈی آر سیز کا رکن منتخب کیا گیا۔

گرو کا کردار

میں سمجھتا تھا کہ یہ معاشرہ بیمار ہے لیکن یہ معاشرہ صدیوں سے ہی بیمار سوچ کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہو رہا اسی لیے رب العالمین کی تخلیق کو قبول کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔
خواجہ سرا بچپن میں ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی گرو کے پاس آجاتے ہیں کیونکہ رشتے دار ان سے ہر قسم کا ناتا توڑ دیتے ہیں مرنے کے بعد بھی ان کی میت کو گھر میں کوئی نہیں دیکھتا ،تمام تر رسومات خواجہ سرا ادا کرتے ہیں۔

نکاح

ضیا الحق نقشبندی کے مطابق 50 سے زائد مفتیان نے فتوی دیا ہے کہ ’ایسا خواجہ سرا جن میں جسمانی طور مردانہ علامات پائی جاتی ہوں ان کا ایسے خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے جس میں زنانہ علامات موجود ہوں۔‘
فتویٰ کے مطابق واضح علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور عورت بھی نکاح کر سکتی ہیں۔

دور نبویﷺ
رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی،بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتے تھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔
رسول اللہﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔آدمی ہونے کے باوجود انھیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے آپ ﷺ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ ﷺ کو پتہ چلا کہ انھیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں ، تو آپ ﷺ نے انھیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انھیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ، حمرآءالاسد اورنقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا ، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری ،المغازی:4234)

رسول اللہﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ انھیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ، بلکہ انھیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔ (صحیح بخاری، النکاح:5235)

رابعاً:
واضح رہے کہ مخنث بنیادی طور پر مرد ہوتا ہے، لیکن مردی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور اداو گفتار اختیار کیے ہوتا ہے۔
یہ عادات اگر پیدائشی ہیں تو انھیں چھوڑنا ہوگا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انھیں اختیار کیا گیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے کہ ‘‘وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں۔’’ (صحیح بخاری ،اللباس:5787)

رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسا مخنث لایا گیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔
آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسند کرتا ہے تو آپ ﷺ نے اسے مدینہ بدر کرکے علاقہ نقیع میں بھیج دیا، جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ آپ ﷺ سے کہا گیا اسے قتل کر دیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘ مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ’’ (ابو داؤد، الادب:4928۔
قرآن مجید میں خوا جہ سراؤں کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور یہ تذکرہ نہ ہونا قرآن اور اُس کی دعوت میں کوئی نقص واقع نہیں کرتا۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں پیدایشی نابینا انسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
سماعت سے معذور افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
ہاتھوں سے معذور پیدا ہونےوالے انسانوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے وغیرہ۔
اِس طرح کے انسانوں کی یہ معذوری ہی ہے جس کی وجہ سے اِنسانی معاشرہ بالعموم انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے ۔
دنیا اور اُس کی مخلوقات میں اِس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، یہ ظاہر ہے کہ آزمائش کے اُصول پر رکھے ہیں۔
ایسے اِنسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں،وہ اگر خود کامل عقل وشعور رکھتے ہیں تو اُن کا امتحان ، اِس دنیا میں صبر کا امتحان ہے۔
دوسرے اِنسانوں کے لیے یہاں اُن کو دیکھ کر اپنے پروردگار کی شکرگزاری بجالانے کا امتحان ہے ،اور تمام اِنسانیت کے لیے ایک عمومی درس اِس طرح کے نقائص کے وجود میں یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں ، خصائص اور نعمتوں کے باوجود بہر حال دار النقائص ہے،دار الکمال نہیں ہے ۔

خواجہ سراؤں کو سڑکوں پر پھرتے ، میک اپ سے لدھے، زرق برق کپڑے پہنے بھیک مانگتے دیکھ کر اکثر ذہن میں آتا ہے کہ آخر یہ لوگ کیوں بھیک مانگتے ہیں…؟
کبھی کسی کی شادی ،گود بھرائی یا سالگرہ پر ناچتے دیکھتے ہیں تو یہی خیال آتا ہے کہ یہ ان کا پروفیشن ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے کون ہیں یہ لوگ؟خواجہ سرا (Eunuch) جنہیں لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پبلک جگہوں پر انہیں کہیں بیٹھا دیکھتے ہیں تو دور ہو جاتے ہیں جیسے کوئی اچھوت ہو؟
ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی تو اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں،اگر ہم انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم عزت تو دے سکتے ہیں جس کے یہ حقدار ہیں ۔
غیب کا علم میرے اللّٰہ کے پاس ہے انسان دل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
وہ خود سے تو ایسے پیدا نہیں ہوئے کون چاہے گا کہ وہ ادھورا پن لے کر پیدا ہو اپنے ماں باپ سے، اپنے بہن بھائیوں سے اور اپنے خاندان سے دور ہو جائیں یا کر دئیے جائیں ۔
تعلیم سے محروم یہ طبقہ معاشرے کے رحم وکرم پر پلتا ہے، باعزت روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکر کھا کر نوکری کی بجائے کچھ دوسری قسم کی آفرز و دلبرداشتہ ہو کر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایسی ذلت و رسوائی سے تنگ آکر یہ برائی کی جانب بھی راغب ہوتے ہیں اور اس کا عملی نمونہ آج کل ہم میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں،آخر ان کو اس حد تک پہنچانے والا بھی تو یہ معاشرہ ہے۔؟
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان سے عزت سے پیش آئیں، ان کا مذاق نہ بنائیں، ان کو حقیر نہ جانے کیونکہ بہرحال عزت نفس تو سب کی ہوتی ہے۔
معاشرے میں بدلاؤ ایک شخص سے نہیں آتا سب سے پہلے ان کے گھر والوں کا کام ہے کہ خواجہ سرااگر پیدا ہوا ہے تو اسے دل سے قبول کریں کیونکہ یہ اسی رب العالمین کی تخلیق ہے جس نے آپ کو تخلیق کیا ہے ،
تعلیمی اداروں کو چاہئے کچھ نہیں کر سکتے تو ان کے لئے کم از کم علیحدہ کلاسز کا بندوبست کریں۔
حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے ادارے بنائے جہاں پر یہ کوئی ہنر سیکھ سکیں اور ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ان کو ملازمت کے مواقع مہیا کریں ان کی فلاح کے لئے قانونی اقدامات کیے جائیں ،اس سے نہ صرف معاشرے سے برائی ختم ہوگی بلکہ خواجہ سرا ملک کی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔
بحیثیت ایک مسلمان ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا ۔
پاکستان اسلامی جمہوریہ ملک ہے اس کا قانون قرآن و حدیث کی روشنی بنایا جائے گا لیکن جن قوانین پر علمائے کرام کے اعتراض آئے ہیں انہی میں سے ایک خواجہ سراؤں کے بارے میں بھی ہے ۔
ٹرانس جینڈر بل کیا ہے ؟
اس کے محرکین کون تھے؟
کب پاس کیا گیا؟
اس کے رولز کیا ہیں؟ اور کب بنائے گئے؟ اب اس کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں خواجہ سرا کے حقوق کی آڑ میں چار اراکینِ سینٹ نے جن کا تعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سے تھا- اس بل کو پیش کیا، اور ۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو سینیٹ سے یہ بل پاس ہوا، اور اپریل ۲۰۱۸ء میں قومی اسمبلی کے آخری سیشن سے اسے منظور کرایا گیا، جبکہ اس وقت جمعیت علماء اسلام کی رکن محترمہ نعیمہ کشور صاحبہ اور جماعت اسلامی کی خاتون ممبر محترمہ عائشہ صاحبہ نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اسے قائمہ کمیٹی میں بھیجا جائے اور جلد بازی میں قرآن وسنت سے بغاوت کے مرتکب اس بل کو پاس نہ کیا جائے، لیکن اُن کی ایک نہ سنی گئی۔ یہ بل بھی عام بلوں کی طرح حقوق کے تحفظ کے نام پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے پیچھے ایک عالمی تنظیم کا ایجنڈہ تھا۔ اس بل کی حمایت اور فضا ہموار کرنے کے لیے ایک مبہم سا سوال نامہ بناکر ’’تنظیم اتحادِ امت‘‘ پاکستان کے زیرِانتظام بعض علماء سے یہ فتویٰ بھی حاصل کیا گیا کہ: ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ کہ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں،عام عورتیں اور ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں؟ اور ایسے خواجہ سرا کہ جن میں مرد وزن دونوں کی علامتیں پائی جاتی ہیں، انہیں خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے؟ ان کے ساتھ کسی مرد و زن کا نکاح جائز نہیں؟۔‘‘
اس فتویٰ کو اس تنظیم نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ پر اپنی فتح سے تعبیر کیا اور کہا: مسلم علماء نے ماورائے صنف افراد کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں۔‘‘
لندن کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے لکھا: پاکستان میں ماورائے صنف افراد کا اب تک آپس میں شادی کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہاں عملِ قوم لوط علیہ السلام کے مرتکب افراد کو باہم شادی پر عمرقید کی سزادی جاتی ہے۔
ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے:
’’وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضاء یا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
‘‘ بہرحال جب اس قانون کے مندرجات، رولز اور قواعد وضوابط بنائے گئے تو اس قانون کی رو سے جنس کے تعین کا اختیار فرد کی ذاتی صوابدید اور رجحان کو قرار دیا گیا اور کہا گیاکہ جنس میں تبدیلی کی بنیاد کوئی میڈیکل رپورٹ نہیں ہوگی، یعنی ایک مرد اپنی رائے سے کسی بھی وقت خود کو عورت یا عورت خود کو مرد قرار دے سکتی ہے اور تمام اداروں/ محکموں کو اس کے ذاتی فیصلے کو ماننا لازم ہوگا۔
جب فردِ حقیقی جنسی اعضاءکے برعکس اپنی پسند سے غیرحقیقی جنس کے تعین کرنے کا قانونی بیان دے دے گا تو تمام قانونی دستاویزات بشمول نادرا، پاسپورٹ اور لائسنس وغیرہ میں اس کی پسند کردہ جنس کے مطابق تبدیلی لائی جائے گی۔ یہ محض خدشات نہیں، بلکہ سینیٹ کو بتائے گئے جواب کے مطابق ۲۰۱۸ء کے بعد سے تین برسوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی تقریباً ۲۹ ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ان میں سے ۱۶۵۳۰ ؍مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، جبکہ ۱۵۱۵۴؍ عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی۔
خواجہ سراؤں کی مجموعی طور پر صرف ۳۰؍ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے ۲۱؍ نے مرد کے طور پر اور ۹؍ نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی۔
قانونی دستاویزات میں حقیقی جنس کے برعکس اپنی پسند کے مطابق اختیار کردہ غیرحقیقی جنس کے اندراج کے بعد اسی کے مطابق اس فرد کا وراثت میں حصہ قرار پائے گا، یعنی وراثت میں حصہ بڑھوانے کے لیے کوئی بھی عورت بعد ازاں مرد کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوکر اپنا وراثتی حصہ بڑھواسکتی ہے۔
یہ چیز ایک طرف قرآن وسنت کے قانونِ وراثت کی شدید خلاف ورزی ہوگی تو دوسری جانب خاندان میں لڑائیوں کی صورت میں خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنے گی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والے عمل اور ہم جنس پرستی کے انتہائی قبیح فعل کو فروغ دینے کا ذریعہ ہوگا۔
نیز یہ بل مذکورہ قبیح فعل کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا باعث بھی بنے گا، مثلاً دو مردوں میں سے ایک خود کو خاتون کی حیثیت سے رجسٹر کرواکر دوسرے مرد سے یا دو خواتین میں سے ایک خاتون خود کو مرد کی حیثیت سے رجسٹر کرواکر دوسری عورت سے شادی کرنے کی اہل ہوگی اور قانون اس کھلی بے حیائی اور شریعت کی خلاف ورزی کے سامنے بے بس ہوگا۔
مذہبی مقامات، مساجد، جیلوں اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں جنس کی بنیاد پر مخصوص مراعات وسہولیات استعمال کرنے، واش رومز سمیت مخصوص مقامات پر آنے جانے اور ہاسٹلز میں رہنے وغیرہ کا حق حاصل ہوگا، اب سرکاری کاغذات میں جنس کی زبانی تبدیلی کے بعد کوئی بھی مرد خاتون بن کر یا خاتون مرد بن کر ان سہولیات کے حق دار ہوں گے، جو کہ صرف مخصوص جنس کا ہی حق ہیں، اس بل سے معاشرتی تلخیاں، جنسی زیادتی اور کئی مسائل پیدا ہوں گے۔تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے اس بل کے خلاف رائے دی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس بل کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔
جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى ذكر سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر فرج سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہے.دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ مشكل ہے.سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
( الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 )
دوم:
الخنثى: ہمارى مراد خنثى مشكل ہے، اس كو دونوں آلے يعنى مرد اور عورت دوں كے عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:

ايك تو ايسى قسم ہے جس ميں يہ راجح نہيں كہ وہ دونوں ميں سے كونسى جنس ہے، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارہ ميں معلوم ہو جائے اس كى علامات ميں:

ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہو گى.

اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہو گا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہو گا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہو گى.

اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہو سكتا ہے وہ كسى بيمارى كى علت كے سبب جنسى عاجز ہو، اور اس كا تخنث كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ مخنث يعنى ہيجڑا ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خنثى يا تو مشكل ہو گا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے. اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے: خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں اس كا قول مرجع ہوگا اور اس كے قول كو مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے. اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ يہ ايسا معنى ہے جس تك اس كے ذريعہ ہى پہنچا جا سكتا ہے( المغنى ( 7 / 319 )
مفتی حافظ عبدالستارالحماد اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں :

رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی،بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتےتھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ رسول اللہﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔آدمی ہونے کے باوجود انہیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ انہیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں ، تو آپ نے انہیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انہیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ، حمرآءالاسد اورنقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا ، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری ،المغازی:۴۲۳۴)
رسو ل اللہﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ انہیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ، بلکہ انہیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔ (صحیح بخاری، النکاح:۵۲۳۵)
بس یہ واضح ذہن میں رکھیں کہ
واضح رہے کہ مخنث بنیادی طورپر مرد ہوتا ہے، لیکن مردی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور اداو گفتار اختیار کئے ہوتا ہے۔ یہ عادات اگر پیدائشی ہیں تو انہیں چھوڑنا ہوگا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انہیں اختیار کیا گیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے کہ ‘‘وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں۔’’ (صحیح بخاری ،اللباس:۵۷۸۷)
اللہ تبارک وتعالیٰ جزائے خیر دے جناب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کو کہ انہوں نے اس قانون کی خامیوں کا ادراک کرتے ہوئے اس میں ترامیم ایوان میں جمع کروادی ہیں۔
ان کی طرف سے پیش کردہ ترمیم اس تبدیلی کو میڈیکل ٹیسٹ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ مرد سرجن، لیڈی سرجن اور ماہرِ نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ درخواست گزار مخنث ہے یا نہیں؟ اور اس کا اندراج کس طرف ہونا چاہیے؟
برطانیہ میں بھی ۲۰۰۴ء میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا، جبکہ پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء میں کسی بھی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلیِ جنس کا آپریشن کروانے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اس کے نقصانات واضح ہیں۔
اسی طرح حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا کہ:
جمعیت علماء اسلام نے سینیٹ میں ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ کےنام سے ترمیمی بل جمع کردیا ہے۔ اس ترمیمی بل میں کئی دفعات کو حذف کردیا گیا ہے،
جبکہ ۱۶؍ دفعات میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، اس بل کے پاس ہونے سے ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ’’انٹرسیکس‘‘ یعنی (خنثیٰ مشکل) ایکٹ معرضِ وجود میں آجائے گا، جوکہ مکمل طور پر قرآن وسنت کے مطابق ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام نے وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو کالعدم قراردینے کے لیے رٹ پٹیشن دائر کردی۔
ملی یک جہتی کونسل نے بھی کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بل کو فطرت اور قرآن و سنت کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے،
کراچی پریس کلب(۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۲ء، بروز جمعۃ المبارک، روزنامہ امت، کراچی)
میں ملی یکجہتی کونسل نے ٹرانس جینڈربل کومسترد کرتے ہوئے اسے قرآن وسنت سے متصادم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں قانونِ فطرت سے بہت بڑی بغاوت ہے۔
پاکستان کے غیور مسلمان ہرگز ایسے کسی قانون کو برداشت نہیں کریں گے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۲۸ کے مطابق پاکستان میں کوئی غیر اسلامی وغیر شرعی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا، جن ارکانِ اسمبلی نے بلاتحقیق اس قانون کی حمایت کی وہ دین کے باغی ہیں۔
تمام علماء اور باشعور افراد اس متنازع قانون کو نہ صرف شریعت سے متصادم بلکہ ہم جنس پرستی جیسے حرام کام اور گناہ کے فروغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، جمعیت علماء اسلام کے ترمیمی بل اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے جمع کی گئی ترامیم اور پوری قوم کے مطالبے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس قانون کو رد کیا جائے اور پاکستانی قوم کو اضطراب سے بچایا جائے۔
تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت اور عذابِ الٰہی سے بچ سکیں۔
فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ۔

چند عدالتی فیصلے
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نماز، روزہ اورحج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے ، جنس کا تعلق بائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے، جنس کا تعین کسی فرد کے احساسات سے نہیں کیا جا سکتا، اسلام بھی خواجہ سراؤں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔

فیصلے میں ٹرانس جینڈرایکٹ کا سیکشن ٹو ایف ، سیکشن 3 این ٹو اورسیکشن 7 کالعدم قرار دینے کے ساتھ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی ہونے کا کہ دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تویہ غیرشرعی ہوگا، غیرشرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ خواجہ سرا آئین میں درج تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں، خواجہ سراؤں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا ، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا، شریعت کسی کو نامرد ہوکرجنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کرسکتا جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔

سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان
دوسری طرف خواجہ سرا کمیونٹی نے وفاقی شرعی عدالت کے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کو جزوی کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی رہنما نایاب علی نے ساتھیوں اور وکیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ انھوں نے کہا کہ قائمقام چیف جسٹس شرعی کورٹ نے جلد بازی میں دیے گئے فیصلے میں حقوق کو سلب کیا ہے۔
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
ان کو بھی وہ سارے حقوق ملنے چاہییں جو ایک عام پاکستانی کو حاصل ہیں کیونکہ یہ بھی انسان ہیں ،اشرف المخلوقات میں سے ہیں اگر گھر والوں کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی انہیں اعتماد وعزت دیگا اوران سے تعاون کرے گا تو یہ بھی ایک عزت دار،خوشحال اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔
نوٹ!
علاؤ الدین کے ہم جنس پرست لاڈلے وزیر کا اصل نام ملک کافور ہزار دیناری اور اس کے بعد سلطان بننے والے قطب الدین مبارک شاہ کے ہم جنس پرست ہندو لونڈے جرنیل ملک کافور کی مکمل تاریخ کیلئے تاریخ فیروز شاہی پڑھیں۔
علاؤالدین خلجی قوم لوط جیسی بد فعلی کیلئے ، ملک کافور ہزار دیناری نامی ہندو نوجوان کے عشق میں ایسا مبتلا تھا کہ اس کے ہاتھوں قتل ہونے تک ہم جنس پرستی میں دنیا اور آخرت برباد کرتا رہا۔ اس نے اسی لونڈے کو اپنا وزیر خاص بھی مقرر کر رکھا تھا۔
علاؤالدین کے شدید بیمار ہونے پر اسی لونڈے نے اس کی زندگی کی کہانی کا خاتمہ بھی کیا۔ سلطان ساری زندگی جس لونڈے وزیر پر فریفتہ رہا اسی نے اس کے پورے خاندان کا صفایا کیا اس سے اگلا بادشاہ بھی ایک خوبرو ہندو لونڈے خسرو ملک سے ہم جنس پرستی کے جنون میں مبتلا تھا ۔
ابن بطوطہ بھی اس کے بارے یہی لکھتا ہے۔ مشہور تاریخی کتاب تاریخ فیروز شاہی کے مطابق قطب الدین ، خسرو ملک کا اس قدر دیوانہ تھا کہ اس نے اسے بڑے مرتبے بلکہ خاص وزارت بھی عطا کی تھی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ علاؤالدین خلجی کی اپنے ہم جنس پرست وزیر سے قتل کی طرح قطب الدین مبارک شاہ بھی اپنے اس ہم جنس پرست وزیر خسرو ملک کے ہاتھوں قتل ہوا۔
جیسے علاء الدین خلجی کے زمانے میں ملک عنبر خلیجی کا دایاں بازو بنتے ایک بہت اچھا جنگجو تھا (ملک عنبر مغل دور سے تعلق رکھتے ہیں ملک کافور علاء الدین خلجی کے دور سے)۔
میرے الفاظ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ آپ کا حق ہے ،جو تاریخی اعتبار سے ممکن ہوا وہ استادوں سے مشورہ کر کے لکھنے کی کوشش کی ہے ،کسی بھی کس قسم کی تکلیف پر معذرت خواہ ہوں ۔

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 887 Articles with 617081 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More