انسانی وجود کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہی
بنائی ہوئی تخیلاتی حدوں میں قید ہو جاتا ہے۔ ذات پات کا نظام، جسے ہم نے
اپنے معاشروں میں مقدس بنیادوں پر نافذ کر رکھا ہے، درحقیقت انسان کی اپنی
تخلیق کردہ ایک ایسی فرضی حقیقت ہے جو اس کے وجود کو کھوکھلا کرتی جا رہی
ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ نظام صرف سماجی ناانصافی نہیں، بلکہ ایک گہرا
فلسفیانہ سوال بھی ہے: کیا انسان اپنی شناخت خود تخلیق کرنے میں آزاد ہے،
یا پھر وہ موروثی لیبلز کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے؟ ہماری ذات، ہمارا
خاندانی نام، ہماری پیشہ ورانہ تاریخ—کیا یہ سب ہمارے وجود کا حقیقی اظہار
ہیں، یا پھر یہ محض ایک سماجی ڈرامے کے کردار ہیں جنہیں ہم نے جنم لینے سے
پہلے ہی پہن لیا ہوتا ہے؟ سارتر کا کہنا تھا کہ "انسان اپنی تقدیر خود
بناتا ہے"، لیکن کیا پاکستان کا ایک نوجوان، جسے پیدائش کے ساتھ ہی ذات کا
ٹیگ لگا دیا جاتا ہے، واقعی اپنی تقدیر کا Architect بن سکتا ہے؟
ذات پات کی یہ تفریق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان نے اپنے لیے صرف جسمانی
زنجیریں ہی نہیں بنائیں، بلکہ ذہنی غلامی کے ایسے طوق بھی ایجاد کیے ہیں جو
نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ کانت نے کہا تھا کہ اخلاقیات کا بنیادی اصول یہ
ہے کہ ہر انسان کو مقصد سمجھا جائے، ذریعہ نہیں۔ لیکن جب ہم کسی دلت نوجوان
کو اس لیے رد کر دیتے ہیں کہ وہ "نیچ" ذات سے تعلق رکھتا ہے، تو کیا ہم اسے
ایک "ذریعہ" نہیں بنا رہے؟ کیا ہم اس کے وجود کی عظمت کو اس کے آباؤ اجداد
کے کاموں سے مشروط نہیں کر رہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہمیں اپنے اخلاقی ڈھانچے
کو دوبارہ جانچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہیگل کی جدلیات ہمیں سکھاتی ہے کہ
تاریخ تضادات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ کیا ذات پات کی یہ کشمکش بھی کسی نئی
سماجی شعور کی پیدائش کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ یا پھر یہ ایک لامتناہی جنگ
ہے جس میں انسان اپنی ہی تخلیق کردہ تاریکی سے لڑتا رہے گا؟
وجودیت کی رو سے، انسان اپنی ذات کو اپنے افعال سے تعمیر کرتا ہے۔ لیکن جب
معاشرہ اسے اپنے افعال کرنے سے روک دے، تو پھر اس کی "خود ساختہ شناخت" کا
کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ ایک پٹھان نوجوان جو شاعری کرنا چاہتا ہے مگر قبائلی
روایات اسے بندوق تھمانے پر مجبور کرتی ہیں، یا ایک ہاری نوجوان جو انجینئر
بننے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر معاشی مجبوریوں کے باعث کھیتوں میں کام کرنے
پر محکوم ہو۔ کیا یہ دونوں اپنے وجود کے سچے اظہار سے محروم نہیں؟ کامیو کے
"ایبسڑڈ" کے تصور کی مانند، یہاں انسان ایک ایسی دنیا میں پھنسا ہوا ہے جو
اس کی خواہشوں سے بے نیاز ہے۔ وہ آزادی چاہتا ہے، مگر معاشرہ اسے بتاتا ہے
کہ آزادی صرف اس کے "لیبل" تک محدود ہے۔
مذہبی تناظر میں دیکھیں تو اسلام انسان کو تخلیق کی بنیاد پر سب سے افضل
قرار دیتا ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی اسی اصول پر عمل کرتے ہیں؟ جب ہم کسی کو
اس کی ذات کی بنیاد پر کمتر سمجھتے ہیں، تو کیا ہم درحقیقت خدا کی تخلیق کو
چیلنج نہیں کر رہے؟ رومی کہتا تھا: "تم خاک سے بنے ہو، تمہاری قیمت خاک سے
نہیں لگائی جا سکتی"۔ مگر ہمارا معاشرہ تو خاک کے ٹکڑوں کو درجہ بندی کرنے
میں مصروف ہے۔ یہ تضاد ہمیں ایک اور فلسفیانہ موڑ پر لے جاتا ہے: کیا انسان
اپنے بنائے ہوئے معیارات کو خدا کے معیارات سمجھنے کی غلطی کرتا ہے؟ کیا
ہماری سماجی اقدار درحقیقت ہماری اپنی خواہشات کا پرتو ہیں، جو ہم نے مذہبی
یا ثقافتی چادر اوڑھا دی ہے؟
نفسیات کے میدان میں یونگ Archetypes کی بات کرتا ہے—وہ اجتماعی لا شعور کے
تصورات جو تمام انسانوں میں مشترک ہوتے ہیں۔ لیکن ذات پات کا نظام تو
انفرادیت کو کچل کر ہمیں اجتماعی لیبلز میں تقسیم کر دیتا ہے۔ کیا یہ انسان
کی انفرادیت کے خلاف ایک جنگ ہے؟ فرائیڈ کا "Superego" ہمیں معاشرتی اصول
سکھاتا ہے، لیکن جب یہی Superego انسان کو اس کی بنیادی خواہشات (مثلاً
محبت کرنے، اپنے خواب پورے کرنے) سے محروم کر دے، تو کیا یہ نفسیاتی ظلم
نہیں؟ جدید دور کا نوجوان جسے گلوبل ویلیوز اور مقامی روایات کے درمیان
کشمکش کا سامنا ہے، وہ کس طرح اپنے وجود کے ٹکڑوں کو جوڑے؟ کیا یہ دورِ
حاضر کا Existential Crisis ہے جہاں ہر فرد اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے؟
شاید حل اس فلسفیانہ سچائی میں پوشیدہ ہے جو ہر مذہب اور فلسفہ دہراتا آیا
ہے: انسان کی حقیقی عزت اس کے افکار، اعمال اور نیک نیتی میں ہے۔ ذات پات
کا یہ تھیٹر اسی دن ختم ہو جائے گا جب ہم سمجھیں گے کہ ہر انسان ایک کائنات
ہے—نہ کوئی چھوٹا، نہ کوئی بڑا۔ جیسے دریا کا ہر قطرہ سمندر تک پہنچنے کا
خواب دیکھتا ہے، ویسے ہی ہر فرد کو اپنی منزل تک پہنچنے کا حق ہے۔ یہ
تبدیلی تبھی آئے گی جب ہم اپنے اندر کے دیو کو مار کر انسانیت کے فلسفے کو
گلے لگائیں گے۔ یاد رکھیے، ہماری ذات ہماری تقدیر نہیں—ہماری سوچ ہی ہمارا
مقدر بناتی ہے۔
|