اسرائیل کی پیدائش
(Dr Zahoor Ahmed Danish, karachi)
ور استعمار پر رکھی گئی۔ انیسویں صدی میں یورپی اقوام نے دنیا کے مختلف خطوں کو نوآبادیاتی تسلط میں لے رکھا تھا۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی — سب افریقہ، ایشیا اور عرب دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ مگر فلسطین ایک ایسا مقام تھا جہاں مذہب، جغرافیہ، اور روحانی مرکزیت ایک ساتھ موجود تھی۔اسی لیے ایک منصوبہ بنایا گیا:“ایک ایسی ریاست بنائی جائے جو یورپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا اڈہ ہو — اور جو مسلمانوں کے قبلہ اول پر بھی قبضہ رکھے۔ قارئین: |
|
اسرائیل کی پیدائش تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) کبھی کبھی ریاستیں جنگ سے نہیں، سازشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔اور کبھی مملکتیں تلوار سے نہیں، قلم کے دھوکے سے قائم کی جاتی ہیں۔"ایسی ہی ایک ریاست ہے "اسرائیل" — جس کی بنیاد صرف زمین پر نہیں، بلکہ دھوکہ، خون، اور استعمار پر رکھی گئی۔ انیسویں صدی میں یورپی اقوام نے دنیا کے مختلف خطوں کو نوآبادیاتی تسلط میں لے رکھا تھا۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی — سب افریقہ، ایشیا اور عرب دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ مگر فلسطین ایک ایسا مقام تھا جہاں مذہب، جغرافیہ، اور روحانی مرکزیت ایک ساتھ موجود تھی۔اسی لیے ایک منصوبہ بنایا گیا:“ایک ایسی ریاست بنائی جائے جو یورپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا اڈہ ہو — اور جو مسلمانوں کے قبلہ اول پر بھی قبضہ رکھے۔ قارئین: 1897ء میں یہودی صحافی تھیوڈور ہرتزل نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں "صیہونی کانگریس" منعقد کی۔ اس میں اعلان کیا گیا:"ہم فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی مذہبی خواہش نہیں، بلکہ سیاسی حکمتِ عملی تھی۔ مقصد: یورپی مفادات کے لیے مشرق وسطیٰ میں ایک وفادار بیس تیار کرنا 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کے ذریعے اعلان کیا کہ:"ہم فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔یہ خط جسے "بالفور اعلامیہ" کہا جاتا ہے، نہ برطانیہ کو فلسطین پر اختیار تھا نہ یہودیوں کا وہاں اکثریتی وجود تھا۔ اور نہ فلسطینیوں سے اجازت لی گئی۔ قارئین: 1916ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا۔جس کے تحت خلافت عثمانیہ کے بعد مشرق وسطیٰ کو آپس میں بانٹنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، شام — سب کو “ٹکڑوں” میں تقسیم کرنے کی سازش کی گئی فلسطین کو ایک "بین الاقوامی زون" قرار دیا گیا، تاکہ مستقبل میں اسرائیل کی بنیاد رکھی جا سکے۔برطانوی قبضے کے خاتمے پر، 14 مئی 1948 کو اچانک اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔فلسطینیوں کو نہ ان کا وطن واپس ملا، نہ رائے لینے کا موقع 🔹 اقوام متحدہ نے تقسیمِ فلسطین کی قرارداد منظور کی (Resolution 181)۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر کر دیے گئے — اور نقیبہ (Nakba) کا سانحہ رونما ہوا۔یہ سب استعمار کا ہی ایک تسلسل تھا — صرف پرچم بدلا، قبضہ باقی رہا۔ اسرائیل کو پہلے دن سے امریکہ، برطانیہ، فرانس کی فوجی، مالی اور سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ ریاست مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کی "چیک پوسٹ" بن چکی ہے۔ فلسطینی عوام کو نسل پرستی، زمینوں کی چوری، اور تشدد کا سامنا ہے میں اسرائیل کے اعلان سے پہلے، فلسطین میں 1.3 ملین مسلمان، 150,000 عیسائی، اور صرف 600,000 یہودی تھے اسرائیل نے صرف ایک سال میں 531 فلسطینی دیہات تباہ کر دیے۔ لاکھوں افراد کو زبردستی جلاوطن کر کے پناہ گزین کیمپوں میں پھینک دیا گیا۔ اسرائیل کی پیدائش کسی مظلوم قوم کا حق نہیں تھی ۔بلکہ یہ مغربی استعمار کی تیار کردہ چال تھی، جس نے قبلہ اول کے وارثوں کو اجنبی بنا دیا۔۔یہ ایک ایسا منصوبہ تھا۔جس نے تاریخ کے سینے پر ایک نیا خونچکاں باب رقم کیا۔ یا اللہ!فلسطین کے مظلوموں کو صبر دے۔ہمیں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کی سمجھ دے۔اور مسجد اقصیٰ کو آزاد فرما۔
|