فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کا رویہ
(Dr Zahoor Danish, karachi)
قارئین: یہ تصویر کا وہ رُخ تھا جو شاید آپ سے اوجھل تھایاپھر جان بوجھ کر اس سے صرف نظر کیاجارہاتھا۔اب آپ نے سوچنا ہے کہ ہمیں کرناکیاہے ۔کہیں ایسانہ ہو کہ ایک ایک مسلم ملک کے ساتھ اگر ایساہوچاچلاگیاتو؟۔ایک ہوجائیں طاقت بن جائیں ۔متحد ہوجائیں اور کائنات میں بسنے والوں کو بتادیں کہ ہم ایک اللہ کو ماننے والے غیورمسلم کتنی شجیع و دلیر ہیں ۔ہم فاتح رہے ہیں اور فاتح بن کردکھائیں گے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |
|
فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کا رویہ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) دنیا کی تاریخ میں ایسے ایسے کرب ناک موڑ آئے کے انسانی عقل حیران ہو خیرہ ہوگئی ۔اسی کی ایک مثال خطہ فلسطین کی بھی داستان ہے ۔اس سرزمین کے معاملے میں اقوام متحدہ کا کیا رویہ رہاآئیے اس حوالے سے ہم آپکو ایک چہرہ دکھاتے ہیں ۔ فلسطین کا مسئلہ دنیا کے سامنے ایک کھلا زخم ہے — ایسا زخم جسے دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم اقوامِ متحدہ (UN) نے بارہا تسلیم تو کیا، مگر بھرنے کی کبھی سچی کوشش نہیں کی۔کہا جاتا ہے: اقوامِ متحدہ انصاف کا محافظ ہے! مگر جب بات فلسطین کی ہو، تو یہی محافظ اکثر تماشائی بن جاتا ہے۔ قارئین: 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد 181 کے تحت فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا: • 55% زمین یہودی ریاست (اسرائیل) کو • 45% زمین فلسطینی ریاست کو • یروشلم (القدس) کو بین الاقوامی حیثیت مگر اُس وقت فلسطینی آبادی 70% تھی۔ یہودی اقلیت میں تھے، مگر زمین کی اکثریت اُنہیں دے دی گئی! قارئین :افسوس 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی:لاکھوں فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا گیا • سینکڑوں دیہات مٹا دیے گئے۔فلسطینی مہاجر بن کر کیمپوں میں جا بسے۔اقوامِ متحدہ نے اس پر قراردادیں تو پاس کیں،مگر اسرائیل پر کوئی عملی پابندی نہ لگائی۔ قارئین: دو ریاستی حل (Two-State Solution) ایک سیاسی نظریہ ہے جس کے مطابق:فلسطین اور اسرائیل کو دو علیحدہ ریاستوں کے طور پر قائم کیا جائے، تاکہ دونوں اقوام امن سے رہ سکیں۔ یہ نظریہ کئی بار عالمی سطح پر پیش ہوا، مگر ہمیشہ ایک طرفہ رہا:فلسطینیوں کو ہر بار مزید زمین سے محروم کیا گیا۔اسرائیل نے مسلسل نئی بستیاں (Settlements) بنائیں۔فلسطینی ریاست کا کوئی واضح خاکہ یا عملی نقشہ سامنے نہ آیا قارئین اقوام متحدہ نے فلسطین کے لیے درجنوں قراردادیں منظور کیں، جیسے: 1. قرارداد 194 – فلسطینی مہاجرین کو واپسی کا حق 2. قرارداد 242 – اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے نکلے 3. قرارداد 338 – امن مذاکرات فوری شروع ہوں مگرافسوس کہ ان قراردادوں پر کوئی عملدرآمد نہ ہوا۔اسرائیل کو کبھی سزا نہیں ملی۔فلسطین کو آزادی، خودمختاری، یا تحفظ نہیں ملا🇺🇸 بڑے طاقتور، خاموش یا جانبدار؟۔اقوام متحدہ میں امریکہ جیسے ممالک نے ہر بار اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا، یہاں تک کہ:اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کیا۔فوجی امداد اور اسلحہ فراہم کیا۔ قارئین :اقوام متحدہ کی حیثیت صرف ایک کاغذی ادارے کی رہ گئی ہے جو کمزور ملکوں پر تو بولتا ہے، مگر طاقتور کے سامنے خاموش رہتا ہے۔ قارئین: ہم آج کے فلسطین دیکھتے ہیں تو ہمیں منظر نامہ ایسے نظر آتاہے ۔اقوامِ متحدہ کا غیر مکمل رکن ہے۔اپنی کرنسی، افواج، سرحدوں اور خودمختاری سے محروم ہے۔دو ریاستی حل ایک دھوکہ بن چکا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین چھینی جا رہی ہے۔بستیاں بنائی جا رہی ہیں۔اقوام متحدہ صرف "تشویش" کا اظہار کرتی ہے۔ قارئین: کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اسرائیل کی 80% آبادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر فلسطینی ریاست کو اب تک مکمل بین الاقوامی حیثیت نہیں ملی۔ اقوام متحدہ میں 193 ممالک میں سے صرف 138 نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ، جسے دنیا نے امن کا ضامن سمجھا، وہ فلسطین کے لیے صرف قراردادوں کا قبرستان ثابت ہوا۔دو ریاستی حل صرف فائلوں میں زندہ ہے، زمین پر نہیں۔اگر اقوامِ متحدہ انصاف نہ دے سکے، تو تاریخ اُسے بھی ظالموں کے ساتھ لکھے گی۔ قارئین: یہ تصویر کا وہ رُخ تھا جو شاید آپ سے اوجھل تھایاپھر جان بوجھ کر اس سے صرف نظر کیاجارہاتھا۔اب آپ نے سوچنا ہے کہ ہمیں کرناکیاہے ۔کہیں ایسانہ ہو کہ ایک ایک مسلم ملک کے ساتھ اگر ایساہوچاچلاگیاتو؟۔ایک ہوجائیں طاقت بن جائیں ۔متحد ہوجائیں اور کائنات میں بسنے والوں کو بتادیں کہ ہم ایک اللہ کو ماننے والے غیورمسلم کتنی شجیع و دلیر ہیں ۔ہم فاتح رہے ہیں اور فاتح بن کردکھائیں گے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
|