شہر کی ایک گمنام گلی میں شام دھیرے دھیرے رات کی چادر
اوڑھ رہی تھی۔ سڑکیں خالی ہو چکی تھیں، اور ہوا میں وہ خاموشی گھل چکی تھی
جو صرف تنہا دلوں کو سنائی دیتی ہے۔ ایک زرد بتی کی روشنی سڑک کے کنارے ایک
چھوٹے سے دائرے میں پھیل رہی تھی، جیسے کسی نے تنہائی میں جلتا چراغ رکھ
چھوڑا ہو۔
اسی روشنی کے دائرے میں ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا۔ سر پر پرانی ٹوپی، ہاتھ
میں ایک گھسا پٹا بریف کیس، اور چہرے پر برسوں کی تھکن۔ اس کا نام یوسف تھا،
مگر اب لوگ بس "بابا جی" کہہ کر پکارتے تھے۔
یوسف روزانہ کی طرح آج بھی اس زرد بتی کے نیچے کھڑا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے وہ
بس کا انتظار کرتا ہے، مگر حقیقت کچھ اور تھی۔
چند برس پہلے، اسی مقام پر وہ اور اس کی بیوی فاطمہ پہلی بار ملے تھے۔ ایک
بارش بھری شام، جب فاطمہ کی چھتری ٹوٹ گئی تھی اور یوسف نے اپنی چھتری بانٹ
لی تھی۔ پھر زندگی نے ان دونوں کو اکٹھا کر دیا، اور یہ بس اسٹاپ ان کی
محبت کا گواہ بن گیا۔
فاطمہ اب اس دنیا میں نہیں رہی، مگر یوسف روز اسی جگہ آتا ہے… جیسے وقت کو
روکنے کی کوشش کرتا ہو، یا شاید اپنی یادوں سے دوبارہ ملنے کی۔
زرد روشنی میں کھڑے ہو کر وہ فاطمہ سے سرگوشی کرتا، "میں آج بھی وہی ہوں،
تمہیں وہی چھتری دینے والا۔ آؤ نا، آج بھی بارش ہونے والی ہے۔"
شاید لوگ اسے دیوانہ کہتے ہوں، مگر محبت کبھی عقل کی قید میں نہیں آئی۔ اور
کبھی کبھی، زرد روشنی میں محبت کی پرچھائیاں حقیقت سے زیادہ روشن لگتی ہیں |