حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ

امہات المؤمنین (ازواج مطہرات) رضی اللہ تعالی
از ۔۔۔۔بابرالیاس

حضرت خدیجہ رضی اللہ بنت خویلد
حضرت سودہ رضی اللہ بنت زمعہ
حضرت عائشہ رضی اللہ بنت ابی بکر رضی اللّٰہ
حضرت حفصہ رضی اللہ بنت عمر رضی اللّٰہ
حضرت زینب رضی اللہ بنت خزیمہ
حضرت ام سلمہ (ہند) رضی اللہ بنت ابی امیہ
حضرت زینب رضی اللہ بنت جحش
حضرت جویریہ رضی اللہ بنت حارث
حضرت ریحانہ رضی اللہ بنت زید
حضرت صفیہ رضی اللہ بنت حی بن اخطب
حضرت ام حبیبہ (رملہ) رضی اللہ بنت ابوسفیان رضی اللّٰہ
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ
حضرت میمونہ رضی اللہ بنت حارث

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف و اکثر روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں ,جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انہیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ رضی اللہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ تھیں۔
مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے کچھ سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ بنت خویلد اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ سے اولاد ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت سے قبل 25 برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد میں حضرت ابراہیم بن محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ان کے ہی بطن سے ہیں۔
آپ رضی اللّٰہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازدواجی زندگی 25 سالہ تھی اس دوران آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی اور شادی نہیں کی۔
باقی تمام شادیاں 50 سال کی عمر کے بعد کی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نو ازواج رضی اللہ حیات تھیں.

نام و کنیت.
خديجہ بنت خويلد، عربی میں
ام المؤمنين، الطاهرة، ام هند
ولادت.
68 قبل ہجرت 556ء مکہ مکرمہ
وفات
10 رمضان 3 قبل ہجرت / اپریل 619ء
مدتِ حیات:
65 سال قمری، 63 سال شمسی
مکہ مکرمہ
نسب *
والد: خويلد بن اسد
والدہ: فاطمة بنت زائدة بن الأصم
بھائی اور بہنیں:
العوام بن خويلد، حزام بن خويلد، نوفل بن خويلد، عمرو بن خويلد، ہالہ بنت خویلد
خاوند:
عتيق بن عابد المخزومی،
ابی ہالہ بن النباش بن زرارة التميمی،
امام کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بن عبد الله
اولاد:
ہند بن ابی ہالہ،
ہالہ بن ابی ہالہ،
ہند بنت عتيق،
حضرت القاسم بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
حضرت عبد الله بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
حضرت زينب بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
حضرت ام كلثوم بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت رقيہ بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اور حضرت فاطمہ زھرا بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللّٰہ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔
انھوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔
جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف حضرت ابراہیم رضی اللّٰہ جو کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں ۔
حضرت خدیجہ بنت خویلد اسد بن عبد العزیٰ بن قصی، قصی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جد امجد تھے۔ آپ کا تعلق قریش کی ایک نہایت معزز شاخ بنی اسد سے تھا، یہ خاندان اپنی شرافت و نجابت اور کاروباری معاملات میں ایمانداری اور راست روی سے عزت و شہرت کے بلند مقام پر فائز تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔ آپ کے والد ایک مشہور تاجر تھے، اور بہت مالدار۔
قتادہ کے قول کے مطابق، خدیجہ بنت خویلد کی پہلی شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی ابوہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جس سے تین لڑکے ہند اور طاہر پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ابوہالہ کی بھی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد آپ کی تیسری شادی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔
جن سے آپ رضی اللّٰہ کی اولاد بھی ہوئیں، آپ رضی اللّٰہ کی وفات ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ میں محمد صل للہ علیہ والہ کی زوجہ کی حیثیت سے ہوئی۔
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔
حضرت خدیجہ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زید بن اصم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لوی تھا۔ فاطمہ کی ماں کا نام ہالہ بنت عبد مناف بن حارث بن عبد بن منقد بن عمرو بن معیص بن عامر بن لوی تھا۔ ہالہ کی والدہ کا نام فلانہ (یا بقول ابن ہشام قلابہ) بنت سعید بن سعد بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی تھا۔ فلانہ کی ماں کا نام عاتکہ بنت عبد العزی بن قصی تھا۔ عاتکہ کی ماں کا نام ریطہ بنت کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی تھا۔ ریطہ کی ماں کا نام فیلہ بنت حذافہ بن جمح بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی تھا۔
فیلہ کی ماں کا نام امیمہ بن عامر بنت حارث بن فہر تھا۔ امیمہ کی ماں قبیلہ خزاعہ کے سعد بن کعب بن عمرو کی بیٹی تھی اور اس کی ماں فلانہ بنت حرب بن حارث بن فہر تھی۔ فلانہ کی ماں کا نام سلمیٰ بنت غالب بن فہر تھا اور سلمی کی ماں محارب بن فہر کی بیٹی تھی۔
باپ اور شوہر کے مرنے سے حضرت خدیجہ کو سخت دقت واقع ہوئی، ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا تاہم اپنے اعزہ کو مال تجارت دیکر بھیجتی تھیں، ایک دفعہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت ابو طالب نے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ آپ کو خدیجہ سے جا کر ملنا چاہیے، ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہے کہ آپ بھی ساتھ لے جاتے، میرے پاس ابھی روپیہ نہیں ورنہ میں خود سرمایہ مہیا کر دیتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہرت "امین" کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ کے حسن معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا، خدیجہ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ "آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی۔" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہ) کے ہمراہ بصرٰی تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سال ہائے گزشتہ کے نفع سے مضاعف تھا۔
حضرت خدیجہ کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضا و قدر کی نگاہ انتخاب کسی اور پر پڑ چکی تھی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مال تجارت لے کر شام سے واپس آئے تو خدیجہ نے شادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ) اس خدمت پر مقرر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منظور فرمایا، اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی، خدیجہ کے والد اگرچہ وفات پا چکے تھے تاہم ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔
عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں، اسی بنا پر خدیجہ نے چچا کے ہوتے ہوئے خود براہ راست تمام مراتب طے کیے۔
تاریخ معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں آپ کے بہنوئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللّٰہ بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے مکان پر آئے، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا، ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسد کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللّٰہ حرم نبوت میں داخل ہو کر پہلی ام المومنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں، اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال کے تھے اور خدیجہ کی عمر چالیس برس کی تھی۔
یہ بعثت سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے آپ رضی اللّٰہ پچیس سال اکلوتی حرم نبی تھیں۔
نکاح کے پندرہ برس کے بعد جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کو یہ پیغام سنایا وہ سننے سے پہلے مومن تھیں، کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدق دعویٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، صحیح بخاری باب بدۤء الوحی میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور وہ یہ ہے،

"حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کی ابتدا رویائے صادقہ سے ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہو جاتا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خلوت گزیں ہو گئے، چنانچہ کھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تخث یعنی عبادت کرتے تھے۔ جب سامان ہو چکتا تو پھر حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے پاس تشریف لاتے اور پھر واپس جا کے مراقبہ میں مصروف ہوتے یہاں تک کہ ایک دن فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے پڑھ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں، اس نے زور سے دبایا، پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں، پھر اس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اور کہا پڑھ، پھر میں نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں، اسی طرح تیسری دفعہ دبا کر کہا کہ پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا۔ جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر تشریف لائے تو جلال الہی سے لبریز تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ سے کہا مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ، مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ، لوگوں نے کپڑا اوڑھایا تو ہیبت کم ہوئی پھر خدیجہ سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا "مجھ کو ڈر ہے" حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے، اب وہ بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ خدیجہ نے کہا اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی باتیں سنو، بولے ابن الاخ تو نے کیا دیکھا؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ پر اترا تھا۔ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہو جاتی ہے اور اگر اس وقت تک میں زندہ رہا تو تمھاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نوافل پڑھا کرتے تھے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں، ابن سعد کہتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھا کرتے۔
عفیف کندی سامان خریدنے کے لیے مکہ آئے اور عباس بن عبد المطلب کے گھر میں فروکش ہوئے، صبح کے وقت ایک دن کعبہ کی طرف نظر تھی۔ دیکھا کہ ایک نوجوان آیا اور آسمان کی طرف قبلہ رُخ کھڑا ہو گیا۔ پھر ایک لڑکا اس کے داہنی طرف کھڑا ہوا، پھر ایک عورت دونوں کے پیچھے کھڑی ہوئی، نماز پڑھ کر یہ لوگ چلے گئے، تو عفیف نے عباس سے کہا کہ کوئی عظیم الشان واقعہ پیش آنے والا ہے، حضرت عباس نے جواب دیا، ہاں، پھر کہا جانتے ہو یہ نوجوان کون ہے؟ یہ میرا بھتیجا محمد ہے، یہ دوسرا بھتیجا علی ہے اور یہ محمد کی بیوی (خدیجہ) ہے، میرے بھتیجے کا خیال ہے کہ اس کا مذہب پروردگار عالم کا مذہب ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس کے حکم سے کرتا ہے، دنیا میں جہاں تک مجھ کو علم ہے اس خیال کے صرف یہی تین شخص ہیں۔
سب تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کو اور ایسے متعدد واقعات کو نقل کیا ہے۔ مگر عقیلی اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں، لیکن اس کے ضعیف ہونے کی کوئی وجہ نہیں، درایت کے لحاظ سے اس میں کوئی خرابی نہیں، روایت کی حیثیت سے اس کے ثبوت کے متعدد طریق ہیں محدث ابن سعد نے اس کو نقل کیا ہے، بغوی، ابویعلی اور نسائی نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، حاکم، ابن حثیمہ، ابن مندہ اور صاحبِ غیلانیات نے اسے مقبول مانا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو امام بخاری رحمۃ اللّٰہ نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو چند سال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ اس میں بڑی حد تک حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کا اثر کام کر رہا تھا، اوپر گذر چکا ہے۔ کہ آغاز نبوت میں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ "مجھ کو ڈر ہے" تو انہوں نے کہا "آپ متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا" دعوت اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی اور تشفی دی، (تفصیل استیعاب میں بھی منقول ہے)
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مشرکین کی تردید یا تکذیب سے جو کچھ صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے پاس آکر ختم ہو جاتا تھا کیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپ کے سامنے ہلکا کر کے پیش کرتی تھیں۔
سنہ 7 نبوی میں جب قریش نے اسلام کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تو یہ تدبیر سوچی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے خاندان کو ایک گھاٹی میں محصور کیا جائے، چنانچہ ابو طالب مجبور ہو کر تمام خاندان ہاشم کے ساتھ شعب ابو طالب میں پناہ گزین ہوئے، خدیجہ بھی ساتھ آئیں، سیرت ابن ہشام میں ہے۔
اور وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شعب ابو طالب میں تھیں۔
تین سال تک بنو ہاشم نے اس حصار میں بسر کئے یہ زمانہ ایسا سخت گذرا کہ طلح کے پتے کھا کھا کر رہتے تھے تاہم اس زمانہ میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے اثر سے کبھی کبھار کھانا پہنچ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن حکیم بن حزام نے جو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کا بھتیجے تھے۔ تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے پاس بھیجے، راہ میں ابو جہل نے دیکھ لیا، اتفاق سے ابو البختری کہیں سے آ گیا، وہ اگرچہ کافر تھا، لیکن اس کو رحم آیا، ابو جہل سے کہا ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لیے کچھ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے
حافظ ابن کثیر نے مختلف لوگوں سے روایت لکھی ہے,کہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ رضی اللّٰہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللّٰہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(جو زندہ رہتی)
ام المومنین طاہرہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپ کی تائید میں نہ اٹھی، کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کر رہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللّٰہ کے قلب سے بلند ہوئی تھی، جو اس ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نور الہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ سے فرمایا، "بخدا میں کبھی لات و عزی کی پرستش نہ کروں گا" انہوں نے جواب دیا کہ لات کو جانے دیجیے، عزی کو جانے دیجیے، یعنی ان کا ذکر نہ کیجیے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کو ان کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبوی کے ایک ایک صفحہ سے نمایاں ہے، ابن ہشام میں ہے۔ "وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سچی مشیر کار تھیں۔" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کو جو محبت تھی، وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور دولت و ثروت کے جو انکو حاصل تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت خود کرتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجیے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زید بن حارثہ سے سخت محبت تھی، لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت سے رہتے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نے ان کو آزاد کرایا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کی بجائے شہنشاہ رسالت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے غلام تھے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی خدیجہ سے بے پناہ محبت تھی آپ نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی، پچیس سال مشترکہ زندگی گزاری، ان کی وفات کے بعد آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے،
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کہتی ہیں کہ گو میں نے خدیجہ کو نہیں دیکھا، لیکن مجھ کو جس قدر ان پہ رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے اس پر آپ کو رنجیدہ کیا، لیکن آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھ کو ان کی محبت دی ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیح بخاری و مسلم میں ہے: "عورتوں میں بہترین مریم بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلد ہیں۔"
ایک مرتبہ جبریل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ آئیں تو فرمایا:
"ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دیجیے جو موتی کا ہو گا اور جس میں شور و غل اور محنت و مشقت نہ ہو گی۔"۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ کی وفات مدینہ کی ہجرت اور نماز فرض ہونے سے پہلے اسی سال ہوئی جب حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی۔ اس سال کو عام الحزن کا نام ملا۔ روایات کے مطابق انہیں جنت میں موتیوں سے تیار کردہ گھر ملے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے ایک دن حاضر ہو کر حضرت خدیجہ رضی اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدیجہ رضی اللہ ہیں ان کا ساتھ اور کھانا پینا ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے گا کیونکہ اللہ تعالٰیٰ نے انہیں سلام بھیجا ہے اور میں بھی انہیں سلام کہتا ہوں۔
اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجیئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کرایا ہے۔ جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔۔۔
اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے امام بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد کی تعداد سات جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں جن کے نام ذيل میں دئیے جاتے ہيں :
بیٹے :
حضرت القاسم رضی اللّٰہ
حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ
حضرت ابراہیم رضی اللّٰہ

بیٹیاں:
حضرت زینب رضی اللہ
حضرت رقیہ رضی اللّٰہ
حضرت ام کلثوم رضی اللّٰہ
حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ

فاطمہ زہرا کے علاوہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اولاد ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی۔
کل زوجہ سید المرسلین حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ تعالی عنھا، آپ سرور کائنات، فخر موجودات جناب رسول اللہ ﷺ کی سب سے پہلی رفیقہ حیات ہیں، یوں تو آپؓ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں لیکن نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر خوشی و غم میں شریک رہنے والی تھیں۔
سید الانبیاء محبوب کبریا صلى الله عليه واله وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا بغیر کسی توقف کے ایمان لائیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہر قدم پر بھرپور نصرت فرمائی۔
تبلیغ دین کی راہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ستایا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تکذہب کی جاتی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا ہی آپکی دلجوئی فرمایا کرتیں، آپ ﷺ کی تسکین قلب کا باعث بنتیں، آپ ﷺ کا ہر ممکن اکرام فرماتیں جس سے آپﷺ کا غم دور ہو جاتا۔
"صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ آپ ﷺ کے پاس سالن یا کھانے کا ایک برتن لا رہی ہیں جب وہ لے کر آئیں تو ان کے رب اور میری طرف سے سلام کہہ دیں اور جنت میں انہیں موتی کے ایک محل کی بشارت دے دیں جس میں نہ شور ہوگا نہ تکلیف ہو گی۔ ( صحیح بخاری: ۳٨٢٠)"

•عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی
اس سرائے سلامت پہ لاکھوں سلام

رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مقرب ترین شریکہ حیات حضرت خدیجہؓ کا آج یعنی 10 رمضان المبارک یوم وصال ھے
خوب ایصال ثواب کیجئے
1. آپ محمد صل اللہ علیہ وسلم کے پہلی بیوی تھی.
2. آپکے والد کا نام خویلد بن اسد تھا.
3. اپکا تعلق قبیلہ قریش کے شاخ بنو اسد سے تھا.
4. شادی کے وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عمر 40 سال جبکہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کا عمر 25 سال تھا.
4. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ تیسری جبکہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کی یہ پہلی شادی تھی.
5. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے موجودگی میں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کسی اور سے نکاح نہیں کی.
6. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 25 سال رہی.
7. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے زریعہ نکاح کا پیغام بھیجا تھا.
8. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور محمد صل اللہ علیہ وسلم کانکاح آپکے چچا ابو طالب نے پڑھا تھا.
9. اللہ نے جبرائیل علیہ السلام کے زریعے خدیجہ کے لئے سلام بیجھا تھا.
10. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ 65 سال کی عمر میں 10 نبوی کو وفات پا گئی اور جنت المعلی میں دفن ہے.
11. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو طالب کے وفات کے سال یعنی 10 نبوی کو عام الحزن (غم کا سال) کہا جاتا ہے.

🌹اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جن کو امام الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی پچیس سال کی رفاقت نصیب ہوئی اور ان پچیس سالوں میں ایک لمحہ بھی محبوب رب العلمین کو ناراض نہ کیا ـ!

🌹ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جنہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حکم کی ہمیشہ تعمیل کی اور اشاعت اسلام کے صلہ میں ملنے والی تمام مصیبتوں کو صبر سے برداشت کیا .
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جو محبوب کبریاء صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر ہونے والے مظالم کو دیکھ دیکھ کر آٹھوں پہر آنسوں بہایا کرتی تھیں ـ!

🌹حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جو نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر عورتوں اور مردوں میں سے سب سے پہلے ایمان لائیں ـ سب سے پہلے امت محمدی میں نماز پڑھی ـ!

🌹حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جنکے لیے حضرت جبرائیل تبارک تعالیٰ کا سلام و بشارتیں لے کر حاضر ہوتے تھے

🌹وہی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جنکے متعلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ یہ دونوں جہاں میں میری ساتھی ہیں اور ان سے ہی میری اولاد چلی ـ!

🌹وہی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ جن پر حضرت عائشہ رضی اللّٰہ رشک کیا کرتی تھیں کہ جب انکا ذکر آتا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ دیر تک انکی تعریف میں رطب اللسان رہتے .اور جب فرماتیں تھیں کہ دنیا میں گویا کوئی عورت حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کی سوا ھے ہی نہیں تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ وہ ایسی ہی تھیں۔
ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا ہمارے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلی شریک حیات' سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون اور سب پہلے اسلام کے لیے آپ تمام تر جمع شدہ پونجی خرچ کرنے والی عظیم ہستی ہیں...
زمانہ جاہلیت میں سر زمین عرب میں جو چند پاک خواتین موجود تھیں آپ کا مقام ان میں نمایاں تھا...
حتی کہ اس زمانے میں بھی آپ *طاہرہ* کے نام سے پہچانی جاتیں تھیں...
25 سال کی عمر مبارک میں انہی کی خواہش پر ہمارے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اور ان کی اپنی عمر اس وقت 40 سال تھی اور یہ ان کا تیسرا نکاح تھا' پہلے یکے بعد دیگر ان کے دو شوہر شوہر فوت ہو چکے تھے....
ان کے پہلے شوہر عتیق بن عائد مخزومی تھے ان کی وفات کے بعد ان کی شادی ابو ہالہ بن نباش تمیمی سے ہوئی تھی ... جب وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تو اس کے بعد آپ نے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دامن عاطفت میں نکاح کی صورت میں پناہ حاصل کی..
پھر 10 رمضان المبارک 10 نبوی تک تقریباً 24 سال 6 ماہ اور 25 دن مسلسل بارگاہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذار دیئے...(رحمۃ اللعالمین ' جلد3 صفحہ 145)
سوائے ایک بیٹے کے ساری اولاد اللہ پاک نے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو انہی کے پاکیزہ بطن سے عطا فرمائی...
مکے کی مال دار ترین خاتون تھیں.... اسلام قبول کرنے کے بعد ایک ایک پائی خدمت اسلام کے لیے صرف کر دی..
آپ کی انہی خدمات کی بدولت اللہ تعالٰی اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں انہیں اہم مقام حاصل ہوا...
ان کی زندگی میں بھی اور بعد از وصال بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کیا اور ان کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ مسلسل اس کا ذکر کر کے ان کے تذکرے کو ہمیشہ کی زندگی عطا فرما دی...
ذیل میں آپ کے مقام و مرتبے اور سیرت و کردار پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند گواہیاں ملاحظہ فرمائیں :
*.......حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسیدۃ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کو(ان کی خدمات کی عوض) اس دنیا میں ہی ایسے جنتی محل کی بشارت دی دے تھی جس کی شان یہ ہے :
*بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ، وَلَا نَصَبَ* .
"ایسا محل کو موتیوں سے بنا ہے ' اس میں نہ شوروغل اور نہ تکلیف ہوگی".
(صحیح بخاری ' كِتَابٌ : مَنَاقِبُ الْأَنْصَارِ ' بَابٌ : تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ. رقم الحدیث : 3819)
*......حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو زمانے کی بہترین خواتین میں شامل فرما کر خصوصی اعزاز و اکرام سے نوازا.... چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ بْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ* "
"تمہارے لیے(قتداء و اتباع کے لحاظ سے) چار عورتیں کافی ہیں.... مریم بنت عمران ' خدیجہ بنت خویلد ' فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہم ".
(سنن ترمذی' أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ' بَابٌ : فَضْلُ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا' رقم الحدیث: 3878)
*....حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
*کَانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اِذَا ذَکَرَ خدیجۃَ رضی اللہ عنہا لَمْ یَکُنْ یَسْأَمُ مِنْ ثَنَاءِ عَلَیْھَا وَالْاِسْتِغْفَارِ لَھّا*
"حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حضرت خدیجہ کا تذکرہ فدماتےتو ان کی تعریف اور ان کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرتے نہیں تھکتے تھے".
(طبرانی کبیر' جلد 23 ' صفحہ 13 ' رقم الحدیث : 21 )
یعنی آپ یہ عمل مبارک مسلسل کیا کرتے...
*.......حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیان کرتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد جب بھی آپ کوئی بکری ذبحہ کرتے تو اس کا گوشت آپ کی سہیلیوں کو بھی بھیجا کرتے تھےاور آپ ان کی سہیلیوں کی بھی بڑی قدر کیا کرتے تھے.
(صحيح مسلم ' كِتَابٌ : فَضَائِلُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ ' بَابٌ : فَضَائِلُ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا ' رقم الحدیث : 2435)
*......حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہی زبانی حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ سے ایک انداز محبت ملاحظہ فرمائیے ' اس سے آپ کی سیرت و کردار اور خدمت اسلام کے بھی کئی گوشے نکھر کر سامنے آ جائیں گے.... آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
*كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ خَدِيجَةَ أَثْنَى عَلَيْهَا فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ. قَالَتْ : فَغِرْتُ يَوْمًا فَقُلْتُ : مَا أَكْثَرَ مَا تَذْكُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا خَيْرًا مِنْهَا. قَالَ : " مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا، قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ، وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ، وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ، وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ"*.
"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف کرتے ...آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آگئی اور عرض کیا کہ آپ اس سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت ذیادہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عورتیں اس کے بدلے میں عطا فرمائی ہیں...
(تو میری بات سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر عطا نہیں فرمایا..
وہ تو ایسی عورت تھی جو مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے... میری اس وقت اس نے تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے....اپنے مال سے اس نے میری اس وقت ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے... اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے اولاد عطا نہیں فرمائی".
( مسند أحمد ' مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ' رقم الحدیث : 24864)
ام المومنین طاہرہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپ کی تائید میں نہ اٹھی، کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کر رہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ کے قلب سے بلند ہوئی تھی، جو اس ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نور الہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔

مسند احمد میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ سے فرمایا، "بخدا میں کبھی لات و عزی کی پرستش نہ کروں گا" انہوں نے جواب دیا کہ لات کو جانے دیجیے، عزی کو جانے دیجیے، یعنی ان کا ذکر نہ کیجیے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کو ان کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبوی کے ایک ایک صفحہ سے نمایاں ہے، ابن ہشام میں ہے۔ "وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سچی مشیر کار تھیں۔" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کو جو محبت تھی، وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور دولت و ثروت کے جو انکو حاصل تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت خود کرتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی کہ خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجیے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زید بن حارثہ سے سخت محبت تھی، لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت سے رہتے تھے، خدیجہ نے ان کو آزاد کرایا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کی بجائے شہنشاہ رسالت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے غلام تھے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی خدیجہ سے بے پناہ محبت تھی آپ نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی، پچیس سال مشترکہ زندگی گزاری، ان کی وفات کے بعد آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے،
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کہتی ہیں کہ گو میں نے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کو نہیں دیکھا، لیکن مجھ کو جس قدر ان پہ رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے اس پر آپ کو رنجیدہ کیا، لیکن آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھ کو ان کی محبت دی ہے۔
خدیجہ کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیح بخاری و مسلم میں ہے: "عورتوں میں بہترین مریم بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلد ہیں۔"

ایک مرتبہ جبریل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، خدیجہ آئیں تو فرمایا:

"ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دیجیے جو موتی کا ہو گا اور جس میں شور و غل اور محنت و مشقت نہ ہو گی۔"۔
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ نکاح کے بعد ربع صدی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی شریک حیات رہیں۔ شادی کے بعد 25 برس تک زندہ رہیں اور 11 رمضان سنہ 10 نبوی (ہجرت سے تین سال قبل)
انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی، چنانچہ نماز جنازہ اس وقت تک شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا جسد مبارک اسی طرح دفن کر دیا گیا۔

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا، حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کی قبر حجون قبرستان میں ہے۔ اور زیارت گاہ خلائق ہے۔

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کی وفات سے تاریخ اسلام میں ایک جدید دور شروع ہوا۔ یہی زمانہ ہے جو اسلام کا سخت ترین زمانہ ہے۔ اور خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے کیونکہ ان کے اٹھ جانے کے بعد قریش کو کسی شخص کا پاس نہیں رہ گیا تھا اور وہ نہایت بےرحمی و بیباکی سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ستاتے تھے، اسی زمانہ میں آپ اہل مکہ سے ناامید ہو کر طائف تشریف لے گئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی سیرت مبارکہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 894 Articles with 626534 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More