بسم الله الرحمن الرحيم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً
مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي
سورة البقرة -٢٧
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ
یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ
فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾
اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں ،اللہ نے جسے جوڑنے
کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں ، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔حقیقت میں
یہ لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
سورة البقرق آیت 22
وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ
اور وہ فساد کرتے ہیں۔
آج ہم آیت کے تیسرے حصہ کی بات کریں گیں میں نے آپ کو ابتداء میں ہی بتا
دیا تھا کہ یہاں فاسقوں کی نشانیاں بتائی جارہی ہیں ۔
منکرین = انکار کرنے والے یعنی کہیں نہ کہیں مانتے ہیں پر انکار کر رہے
ہیں۔
کافرین - کفر = جھٹلانے والے مانتے بھی نہیں ہیں اور غلط ثابت کرنے کی بھی
کوشش کرتے ہیں
منافقین - نفق - منفق : سوراخ Tunnal کے جیسے دو دروازے ہوتے ہیں ایک سے
داخل ہوتے ہیں اور دوسرے سے نکل جاتے ہیں۔
فاسقین = فسق = حد کو چانتے ہوئے انہیں توڑتے ہیں اور خرابی پیدا کرتے ہیں۔
پہلی دو categories کٹیگریز میں جو لوگ آتے ہیں وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے
جتنا یہ دوCategoriesکٹیگریز کے لوگ پہنچاتے ہیں کیونکہ وہ دو تو صاف دشمن
ہے ان سے مقابلہ بھی آسان ہے پر یہ دو گھر کے بھیدی ہیں انہیں ڈھونڈنا مشکل
بھی ہے اور یہ معاشرہ میں زیادہ خرابی کا باعث ہیں۔
تبھی ان کے بارے میں یہ آیات آئی ہیں وہ کیسے اللہ کا عہد توڑتے ہیں
اور وہ کاٹتے ہیں اسے جیسے حکم دیا اللہ نے کے اسے جوڑا جائے ۔
. اور وہ فساد کرتے ہیں زمین میں
ہم نے ان آیات کو پڑھتے ہوئے دوسروں کا نہیں سوچنا بلکہ اپنا جائزہ لینا ہے
کیونکہ حدود کو جاننے اور ماننے والے تو ہم بھی ہیں کہیں ایسا تو نہیں کے
ہم صرف زبانی اقرار کر رہے ہوں عمل بلکل مترادف ہو ۔
لفظ: "زمین"
زمین کا وہ ٹکڑا جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں اور قدرتی طور پر ماں کی محبت کے
بعد یہ وہ محبت ہے جو دل میں کب جڑ پکڑتی ہے کسی بھی انسان کے لیے اس محبت
کا تعین کرنا مشکل ہے۔ زمین کا وہ ٹکڑا جس سے ہمیں محبت ہوتی ہے ہم اسے وطن
کہتے ہیں۔
وطن کتنا خوبصورت لفظ ہے نہ ....
وطن سے محبت تو ایک فطرت ہے جس جگہ پر ہم بڑے ہوئے جس زمین پر ہم نے اپنا
پہلا قدم لیا، اور جس نے ہمارا بوجھ سدھارا اور جس کی مٹی کی بھینی بھينی
خوشبو سے ہمیں لگاؤں ہے ....
ہم میں سے بہت سے دیارِ غیر میں محنت کرتے ہیں اور زندگی کے اس مشکل ترین
دور میں کہیں اندر دل کے کسی خانچے میں یہ خواہش شدت سے پروان چڑھتی ہے کہ
ممکن ہے یہ عمر رواں بستیِ غیر میں گزرے پر آخری لمحات اپنے سرزمین پر ہو
جست خاکی اس مٹی کے سپرد ہو جس مٹی کی پروان ہیں ہم .... آہ یہ وطن کی محبت
:
محب وطن ہمارے ہاں محب وطن کون ہے پتہ ہے ؟
وہ جو پورے سال اس ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور 14 اگست والے
دن یہ کام ذرا دھڑلے سے کرتے ہیں یا اپنی حب الوطنی کا اظہار سڑکوں پر ناچ
کر باجےبجا کہ ٹرافک کے قوانین توڑ کر اور ہوائی فائرنگ کے ذریعہ کرتے
ہیں۔کیا واقعی یہ حب الوطنی ہے۔۔۔۔!
محب وطن شہری ہونے کا تو چھوڑیں ہم صرف شہری ہونے کا ہی حق ادا کر دیں۔تو
آدھے مسائل حل ہو جائیں لیکن ہمیں عادت ہوگئی ہے ... Blame game بلیم گیم
کھیلنے کی ۔۔۔
لفظ محبت ہمیں ذمہ داری دیتا ہے محبت کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری ... اور
ان ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ہم کھیلتے ہیں۔۔۔ Victom card
وکٹم کارڈ تاکہ ہم بری الذمہ ہوجائیں فرائض سے اور یوں ہماری جان کنی ہو۔
کسی بھی ملک کی بری صورتحال کا ذمہ دار وہاں کا حاکم نہیں ہوتا اور نہ ہی
صرف رعایا ہوتی ہے وہاں پر موجود ہر شخص ذمہ دار ہے۔
ہرشخص سے مراد اب ہر کوئی سمجھے گا باقی سب میں نہیں تو ایسا نہیں ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار آپ بھی ہیں اور میں بھی اب لڑکیاں
کہیں گیں ہم کیسے؟ جب ایک مرد پڑھتا ہے تو علم اس گھر کی دہلیز تک آتا ہے
اور جب ایک عورت پڑھتی ہے تو علم نسلوں تک جاتا ہے۔
ہم اس ملک سے امیدیں تو بہت باندھ لیتے ہیں ہمیں یہ بھی چاہیئے وہ بھی
چاہیے ہمیں ہر آسائش چاہیے ہم کسی بات پر کمپرومائز نہیں کر سکتے ۔ لیکن ہم
یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جہاں حق ہوتے ہیں وہاں پہلے فرائض کی ادائیگی لازم
ہوتی ہے۔ ہم نے کبھی خود پر غور کیا ہے ہم یہاں کتنے فرائض ادا کر رہے ہیں
بلکہ ہم میں سے کسی کو اپنے فرائض یاد بھی ہیں؟ نہیں ...! ہمیں اپنے حقوق
پورے چاہیے تو ہمیں ہمارے حق تبھی ملیں گیں جب ہم اپنے فرائض کی ادائیگی
کریں گیں کیونکہ حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہیں ۔
امام جعفر صادق فرماتے ہیں۔۔۔
*اگر صبح کی پہلی کرن انسان پر قوم کا مسئلہ نہیں لاتی تو وہ انسان بنا ہی
نہیں کبھی*
|