فلسطین کی باتیں (مہاجر کیمپوں کی زندگی)

فلسطین کی باتیں (مہاجر کیمپوں کی زندگی)
تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش
(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)
ہم گھر ،اپنا شہر اپنا ملک کتنا پیارالگتاہے ۔ہم شہر کی ہرہر چیز اپنی اپنی اور بہت پیاری لگتی ہے میں کشمیر النسل ہوں میں اس تکلیف کو بہت اچھے سے سمجھ سکتاہوں خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔گھر ،محلہ شہر ،ملک بھلا کس کو اچھا نہیں لگتا۔لیکن اگر اس کے برعکس انسان کا گھر چھن جائے، شناخت مٹ جائے، اور زمین تلے زمین نہ رہے — تو وہ صرف مہاجر نہیں رہتا، وہ ایک زندہ المیہ بن جاتا ہے۔وہ انسان اس کائنات میں سوائے حیرانی کے اور کچھ نہیں محسوس کرتا۔اُسے اجنبیت کاٹتی ہے ۔آہ !!!قارئین :کیسے لکھوں لیکن لکھنا تو پڑے گاوہ میری علمی دیانت کا تقاضاہے کہ فلسطینی مہاجر کیمپ، دنیا کے نقشے پر موجود وہ داغ ہیں، جو ہمیں روز یاد دلاتے ہیں کہ اقوام عالم کی خاموشی، طاقتوروں کی جارحیت اور انصاف کے اداروں کی بے بسی نے کس طرح ایک پوری قوم کو "بے وطن" بنا دیا۔
آئیے اب تاریخی منظر نامے سے اس ہجرت کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
فلسطینیون کی ہجرت کا آغاز کیسے ہوا؟
1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطین کے لاکھوں افراد کو ان کے گھروں، بستیوں اور کھیتوں سے بےدخل کر دیا گیا۔یہ سانحہ تاریخ میں "نقیبہ" (Nakba) کہلاتا ہے، جس میں8 لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجر بنے!531 دیہات تباہ کیے گئے!!ہزاروں افراد شہید یا زخمی ہوئے۔یہ لوگ فلسطین کے اندرونی علاقوں، اور پھر اردن، لبنان، شام، مصر اور دیگر عرب ممالک میں مہاجر کیمپوں میں جا بسے۔
قارئین :ستم کی داستان ختم نہیں ہوئی ۔ان مہاجر کیمپوں میں اللہ کے یہ بندے کیسے روز شب بسرکرتے رہے ذراوہ بھی جان لیجئے ۔ایک مہاجر کیمپ کوئی چھاؤنی یا شہر نہیں ہوتا، بلکہ ٹوٹی پھوٹی خیموں یا کنکریٹ کی جھگیوں پر مشتمل بستیاں
بغیر نکاسی، بغیر صفائی، اور اکثر بغیر بجلی ظلم بالاظلم کہ ایک خیمے میں 8–10 افراد کا بسیرا ہوتا۔خوراک کی قلت، علاج کی عدم دستیابی، تعلیم کی کمی۔یہ کیمپ "عارضی" بنائے گئے تھے، مگر آج 75 سال بعد بھی لاکھوں فلسطینی انہی میں پیدا ہو رہے ہیں، وہیں مر رہے ہیں — واپسی کے حق کے انتظار میں۔
فلسطین میں مختلف مہاجر کیمپ ہیں جن کے بارے میں میں اپنے مطالعہ اور سوشل میڈیاریسورسز سے حاصل ہونے والی معلومات پیش کرنے جارہاہوں ۔آئیے ان کیمپوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں
الیرموک کیمپ (دمشق، شام):
کبھی 1 لاکھ سے زائد فلسطینی یہاں مقیم تھے۔
!عین الحلوہ کیمپ (لبنان):
لبنان کا سب سے بڑا فلسطینی کیمپ
بقا کیمپ (اردن):
جہاں تعلیم، صحت اور نوکری سب ایک خواب بن چکے ہیں
جبالیا کیمپ (غزہ):
سب سے پرانا اور گنجان آباد مہاجر کیمپ
قارئین:ایک ریپورٹ اسٹڈی کے مطابق دنیا میں اس وقت 70 لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین موجود ہیں
اقوام متحدہ نے ان کی مدد کے لیے UNRWA (United Nations Relief and Works Agency) 1949 میں قائم کی۔ان مہاجرین کی نسلیں اب تیسری اور چوتھی نسل میں داخل ہو چکی ہیں۔یہ مہاجرین آج بھی "حقِ واپسی" (Right of Return) کے منتظر ہیں
آہ کیا بتائیں اور کیا سنائیں ۔ان مہاجر کیمپوں کی حالت کیا ہے آئیے اس پر بھی کچھ بات کرلیتے ہیں ۔
صبح سویرے، ایک بچہ گندے نالے کے کنارے وضو کرتا ہے۔۔ماں راشن کارڈ کے ساتھ UNRWA کے کیمپ میں قطار میں کھڑی ہے۔باپ مزدوری کے لیے کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت کا منتظر ہے۔اور دادا، خیمے کے کونے میں ایک پرانا نقشہ پکڑے، ہر نماز کے بعد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے دعا مانگتا ہے...یہ روزمرہ نہیں، یہ ایک قومی سانحہ کی تسلسل ہے۔یہ وہ شب وروز کی منظر کشی ہے جو کیمپ کی حالت زار ہے ۔
فلسطینی مہاجرین کہاں کہاں ہیں؟
اگر ہم سروے ریپورٹس پڑھیں یا اخبارات کا مطالعہ کریں تو ہمیں مختلف باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ایک رف آئیڈیا کے طور پر کچھ باتیں بیان کردیتے ہیں ۔فلسطینی مہاجرین کہاں کہاں ہیں ۔
اردن
سب سے زیادہ فلسطینی مہاجرین یہاں آباد ہیں (تقریباً 2 ملین)!!کئی کو شہریت بھی دی گئی، مگر مکمل حقوق آج بھی محدود ہیں
لبنان
تقریباً 4 لاکھ فلسطینی مہاجر!!نہ شہریت، نہ نوکری، نہ پراپرٹی خریدنے کا حق!!12 رسمی کیمپ جیسے: عین الحلوہ، برج البراجنہ، ناہر البارد
شام
5 لاکھ سے زائد مہاجرین تھے!!خانہ جنگی کے بعد ان کا بھی بڑی تعداد میں دوسرے ممالک میں انخلا ہوا
مصر، عراق، لیبیا، کویت، سعودی عرب
مختلف ادوار میں یہاں فلسطینیوں نے پناہ لی، مگر شہریت یا استحکام کبھی مستقل نہیں ملا
جرمنی، سویڈن، ہالینڈ، ناروے، برطانیہ
بیشتر مہاجرین نے 1980–2010 کے دوران پناہ لی۔بہت سے لوگ ابھی بھی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر انتظار میں ہیں
امریکہ، کینیڈا، لاطینی امریکہ:
ان ممالک میں بھی فلسطینی مہاجر آباد ہوئے، مگر ان کی تعداد نسبتاً کم ہے
قارئین :
یہ وہ فیکٹس تھے جو ہمیں مختلف سائٹس و اخبارات و جرائد سے ملے ۔ہمارامقصد وہ فکٹس نہیں بلکہ ان مظلوموں کی کرب ناک زندگی کا آپکو ادراک کرواناتھا۔اے پیارے اللہ !!کوئی معجزہ کردے ۔اپنے نام لیوا کی مدد فرما۔فتح ان کا مقدر فرمادے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 399 Articles with 626066 views i am scholar.serve the humainbeing... View More