قلعہ باغسر، سماہنی آزاد کشمیر (وقار کا سفر نامہ)

یہ سفر ہم نے یکم مئی ٢٠٢٣ کو فیصل آباد سے سماہنی تک کیا تھا۔ قلعہ باغسر جو اس وقت انتظامیہ کی انتہائی توجہ کا متقاضی ہے۔ تھوڑی سی توجہ اور دیکھ بھال اس تاریخی ورثہ کو آنے والی نسلوں تک محفوظ بنا سکتی ہے

مقبرہ جہانگیر اول اور قلعہ باغسر

آزاد کشمیر کے خوبصورت اور پرفضا مقام پر قائم یہ قلعہ کب تعمیر ہوا حتمی معلومات نہیں مل سکیں البتہ اتنا ضرور ہے اس سے ڈوگرہ راج اور مغل بادشاہوں نے بھرپور دفاعی فائدہ حاصل کیا تھا جن میں شہزادہ سلیم المعروف نورالدین شہنشاہ جہانگیر، احمد شاہ ابدالی اور رنجیت سنگھ کے نام بھی ملتے ہیں۔ سماہنی سے باغسر کی طرف جانا ہوتو آرمی چیک پوسٹ پر انٹری کروانا لازمی ہے کیونکہ یہ قلعہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ اس وقت بھی آرمی کے ہی کنٹرول میں ہے، اندرونی حصے دیکھنے کیلئے آرمی سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے ورنہ قلعہ کی برونی فصیل سے اندر تک رسائی ہے، اس سے اگے نہیں جانے دیا جاتا۔

ایک اہم بات جس نے حیران کیا وہ شہنشاہ جہانگیر کی قبر ہے۔ حالانکہ ان کا مقبرہ لاہور میں واقع ہے۔ پھر اس بلند و بالا اور دشوار گزار جگہ پر کیسے پہنچی؟ جب مزید جستجو کی تو معلوم ہوا کہ یہ قلعہ جس راستے پر واقع ہے یہ قدیمی راستہ ہے جو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پونچھ کی طرف نکلتا ہے، بلند مقام پر واقع ہونے کی بدولت یہاں خاص قسم کا شیشہ نصب تھا جس پر سورج کی روشنی کو منعکس کرکے سرائے عالمگیر کی طرف اور وہاں سے لاہور پیغام بھیجا جاتا ہے جو اس دور کا تیز ترین رابطہ کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ شہزادہ سلیم جو اکبر بادشاہ کے بعد تخت نشین ہوا(، نومبر 1605 – 28 اکتوبر 1627) اس کا زندگی کا آخری سفر اسی راستہ سے جاری تھا دوران سفر طبیعت خراب ہو گئی۔ سماہنی میں واقع سرائے جہانگیری میں علاج معالجہ کیا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکا۔

یہیں سرائے میں اس کی لاش کو حنوط کیا گیا، جس کیلئے جسم کے اندرونی اعضا کو نکال کر قلعہ باغسر کے پاس ٹھنڈی اور بلند جگہ پر دفن کر دیا گیا اور لاش کو سماہنی سے لاہور منتقل کیا گیا اور مقبرہ جہانگیر کے مقام پر دفن کر دیا گیا۔ (وللہ اعلم)۔

یہ قبر بھی معدوم ہو گئی تھی، وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں جب سیاحت کو فروغ دینے کیلئے اہم اقدامات اٹھائے گئے تو اس قلعہ کی بھی سنی گئی اور مقبرہ جہانگیر اول کو بھی سرامکس کی ٹائلز لگا کر محفوظ بنا دیا گیا، کچھ اہم تاریخی معلومات پر مبنی بورڈز بھی آویزاں کیے گئے جو اس وقت اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام گن گن کے گزار رہے۔

قلعہ کی مضبوط دیوار پر لا تعداد مورچے بنے ہیں جن میں تیر انداز ڈیوٹی کرتے تھے جہاں سے تیر پھینکا تو جا سکتا تھا مگر ان کو تیر سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی فائر بندی سے قبل یہ قلعہ بھی ہندوستانی بمباری سے نقصان اٹھا چکا ہے۔

ہم قاری غلام مصطفیٰ طیب صاحب کی سربراہی میں سماہنی سے قلعہ دیکھنے پہنچے، راستہ ایسا شاندار کہ بندہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ سواد آگیا بادشاہو۔ جنگل کے بیچوں بیچ بل کھاتی سڑک جس پر چیڑ کے بلند وبالا درختوں نے چھاؤں کر رکھی ہے۔ راستہ پرانا اور کچھ کچا اور کچھ شکستہ پکا ہے۔ کچھ چڑھائیاں ایسی کہ جیپ کا فور بائی فور گیئر لگانا پڑتا ہے۔ اگر بارش آجائے راستہ پھسلن کی بدولت دشوار گزار ہو جاتا ہے۔ ہم تو اپنے عشق کے گھوڑے پر تھے اس لیے بغیر کسی رکاوٹ کے قلعہ تک جا پہنچے۔ قلعہ کے دروازے کے پاس جنگلی جڑی بوٹی جس پر لگا پھل مقامی زبان میں اس کو آخرے کہتے ہیں وہ پکا ہوا ملا تو ہم نے بھی اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے، اس کی ٹہنیاں اور پتے بھی کانٹوں سے لیس ہوتے ہیں، ہاتھ بھی زخمی ہوئے لیکن مفت کا مال کون چھوڑتا ہے، ویسے تھے بھی بہت مزے کے۔ قلعہ تک جانے والے احباب راستے میں کسی سٹاپ سے پانی و ریفریشمنٹ ساتھ لیتے جائیں مگر ایک گزارش وہاں گند ڈالنے سے پرہیز کریں، کوڑا کرکٹ سنبھالیں یا واپس شاپر میں نیچے لیتے آئیں تاکہ یہ تاریخی ورثہ گندہ نہ ہو۔

اس دور کے باشاہوں کی ٹھاٹھ باٹھ اور آج کی جدید سہولیات دیکھ کر بندہ ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہاں اس دشوار گزار راستے پر گھوڑوں، خچروں سے سفر اور کہاں آج کے دور میں موٹر سائیکل پر پہنچ رہے، تب لاش کو ٹھنڈا رکھنے یا محفوظ رکھنے کیلئے اس بلند مقام تک لایا گیا اور کہاں آج کے سرد خانے، ۔۔۔۔۔ عالم تصورات میں گویا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ظل الہی اٹھو اور دیکھو کہ جس فوری داد رسی کیلئے آپ نے قلعہ پر زنجیر لگوائی تھی آج وہ سہولت ہر بندے کو گھر بیٹھے موبائل پر دستیاب ہے، ظل الٰہی اٹھو اور دیکھو کہ آج ہمیں دستیاب فوم کے میٹرس آپ کے مخملیں بستر سے زیادہ آرام دہ ہیں، جہاں پناہ مور کے پنکھ سے بنے پنکھے سے کہیں زیادہ ٹھنڈک کرنے والا اے سی آج اکثریت کے گھر میں لگا ہوا۔ شہنشاہ معظم جو سفر آپ مہینوں میں طے کرتے تھے ہم ایک دن میں بلکہ چند گھنٹوں میں کر لیا کرتے ہیں ۔ واقعی اگر جہانگیر بادشاہ قبر سے اٹھ کر دیکھے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی تو یقیناً فوری دوبارہ مر جائے گا۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 55 Articles with 17307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.