فلسطین کی باتیں (عالمی میڈیا کا مکروہ چہرہ )
(Dr Zahoor Ahmed Danish, karachi)
|
فلسطین کی باتیں (عالمی میڈیا کا مکروہ چہرہ ) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش کسی داستان غم کولکھنا اوراس کوبیان کرنا تو میں سمجھتاہوں کہ بہت آسان ہے بنسبت اس کے کہ جو اس داستان غم کا حصہ بنے ۔جن پر وہ ظلم کی آندھیاں چلیں ۔جنھوں نے اپنے کندھوں پر اپنے پیاروں کے لاشے اُٹھائے ۔جن کے سامنے ان کاگھر ،محلہ ،شہر ،ملک کھنڈر بن گیاہوں ۔اف میرے مالک !! قارئین :میں فلسطین کی باتیں کے نام سے ایک سیریز لکھ رہاہوں صرف اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہاہوں ایک حجت قائم کرنے کی ایک کو شش کررہاہوں کہ قیامت میں اپنے کریم کو عرض کرسکوں کریم رب لکھ کر تیرے بندوں کو اطلاع دینے کا کام کرنے اور کرب کی شدب بتانے کی اپنے حصے کی کوشش کرتارہا۔میں کربھی کیاسکتاتھا ۔سوری پیارے اللہ !! قارئین :بات طویل ہوجائے گی ۔عالمی میڈیا کا مکروہ رویہ بھی ہم آپ آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔آپ خود ہی انداز کرلیجئے گا کہ آخر ہمارے ساتھ گیم کیا ہوگیا ۔آئیے اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں ۔ مغربی میڈیا کا اسرائیل کی بولی بولنا: الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، CNN اور BBC کے صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے نیوز رومز میں اسرائیل کے حق میں تعصب پایا جاتا ہے، جس سے فلسطینیوں کی مشکلات کو کم اہمیت دی جاتی ہے ۔ اسی طرح، The Nation کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ CNN اور MSNBC نے غزہ کی جنگ کی ابتدائی 100 دنوں میں فلسطینیوں کو کم ہمدردی کے ساتھ پیش کیا، جبکہ اسرائیلی اور یوکرینی متاثرین کو زیادہ انسانی پہلو سے دکھایا گیا ۔ BBC کی قابل تشویش رویہ : BBC کی ڈاکیومنٹری "Gaza: How to Survive a War Zone" میں عربی الفاظ "یہود" اور "جہاد" کو "اسرائیلی افواج" اور "مزاحمت" کے طور پر ترجمہ کیا گیا، جس پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ ترجمے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے گئے، کیونکہ اس سے ناظرین کو اصل بیانیے سے محروم رکھا گیا۔ مظلوم فلسطینوں کی کوریج میں بُخل : مغربی میڈیا نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو نمایاں طور پر کوریج دی، جبکہ 1,900 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو کم اہمیت دی گئی۔ یہ عدم توازن میڈیا کی جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر فلسطین کے لیے رویہ 2025 میں، Meta (فیس بک اور انسٹاگرام) نے اسرائیلی حکومت کی درخواست پر 94% مواد کو ہٹا دیا، جو فلسطینیوں کے حق میں یا اسرائیل پر تنقید پر مبنی تھا۔ اس سے سوشل میڈیا پر بھی فلسطینی آوازوں کو دبانے کا رجحان ظاہر ہوتا ہے ۔ قارئین: عالمی میڈیا اکثر فلسطینی مزاحمت کو “دہشت گردی” جبکہ اسرائیلی حملوں کو "دفاعی کارروائی" کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آئیے میں کچھ اخباری تراشوں سے خبروں کی مثالیں پیش کرتاہوں آپ خود فیصلہ کرسکیں گے کہ ہوکیارہاہے خبر:جب اسرائیل نے غزہ میں 2023–2024 میں بمباری کی، تو The New York Times اور Reuters نے سرخی میں لکھا:“Israel retaliates after Hamas rocket fire” جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بمباری کا آغاز اسرائیل نے خود کیا تھا۔ حوالہ:Middle East Eye – Gaza coverage analysis, 2024 قارئین: 2023–2024 میں 123 فلسطینی صحافی شہید ہوئے، جن میں الجزیرہ کے مشہور رپورٹر شریف ابو عاقلہ کی شہادت عالمی توجہ کا مرکز بنی۔تاہم، CNN، BBC، Fox News جیسے اداروں نے ان واقعات پر یا تو رپورٹنگ نہ کی یا غیرواضح انداز میں کی، گویا فلسطینی صحافیوں کی زندگی کم قیمتی ہو۔ حوالہ:Committee to Protect Journalists (CPJ), 2025 Report قارئین : اسرائیلی شہری کی موت کو "Breaking News" بنا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے۔جبکہ ایک ہی حملے میں شہید ہونے والے 40 فلسطینی بچوں کو ایک عددی خبر یا کونے کی تصویر میں محدود کر دیا جاتا ہے۔امریکی چینلز نے اسرائیلی متاثرین کو اوسطاً 6 گھنٹے کی کوریج دی جبکہ فلسطینی شہداء پر صرف 40 منٹ دی ۔ حوالہ:[Media Bias Monitoring Institute, 2025 Media Equity Index] قارئین : جب کوئی رپورٹر فلسطینیوں پر مظالم کی بات کرتا ہے، تو فوری "دونوں طرف" کی بات شامل کر دی جاتی ہے۔مگر اسرائیلی بیانیہ بغیر توازن کے نشر ہوتا ہےیہ توازن نہیں، سچائی کو "کمزور" کرنے کی چال ہے۔ قارئین: Meta (Facebook, Instagram) نے 2024 میں فلسطینی ہیش ٹیگز پر شدید سینسرشپ کی TikTok نے "Free Palestine" ٹرینڈ کو محدود کیا۔Twitter/X پر فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بند کیے گئے. قارئین: آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے ہم مسلمانوں کے ساتھ ہوکیا رہاہے افسوس اتنے مسلم ممالک ٹیکنالوجی میں اپنا کوئی کردار نہ کرسکے ۔کوئی اپنا سرچنگ اینجن نہ بنا سکے ۔کوئی سوشل میڈیا اپنا پلیٹ فارم نہ بناسکے ۔سیٹلائٹ پر کوئی کام نہ کرسکے ۔افسوس ۔۔۔بعض مسلم ممالک کے چینلز نے فلسطین کی رپورٹنگ کو محدود کیا تاکہ سفارتی تعلقات متاثر نہ ہوں مثلاً UAE، بحرین، اور مراکش کے سرکاری میڈیا میں حماس، اسرائیل تنازع کو جان بوجھ کر کم اہمیت دی گئی قارئین: CNN، BBC، AP، New York Times کے درجنوں صحافیوں نے 2024 میں اپنے اداروں کے تعصب پر کھلا خط لکھا:ہم غیر جانبدار صحافت کے دعوے دار ہیں، مگر سچائی کو چھپانے کے گواہ بھی۔قارئین:2025 تک کے تجزیے سے واضح ہے کہعالمی میڈیا نے فلسطین کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار نہیں کیا صحافت کے بنیادی اصول — سچ، توازن، انسانی ہمدردی — کو جانبداری، لابی، اور پالیسی نے دبا دیا۔فلسطین نہ صرف زمینی جنگ بلکہ بیانیے کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔سچ کی آواز بند کی جا سکتی ہے، دبائی جا سکتی ہے۔لیکن فلسطینی بچے کا خون… کیمرہ نہ بھی دکھائے، تاریخ ضرور لکھے گی۔ اے نوجوان!! سوشل میڈیاپر فضولیات ،ویلاگ اپنے خاندان کی نمائش كرنے والو!!دشمن نے تمہیں کھیل تماشوں میں لگاکر خود دریافت اور ریسرچ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔تمہاری نسلوں کو ذہنی طور پر برباد اور تمہیں ہلاک کرنے کا پورابندوبست کررکھاہے ۔کچھ ہوش کے ناخن ہو۔جس سوشل میڈیا پر اتراتے ہو۔۔گولڈن ،سلور ،دائیمنڈ بٹن میں الجھے اور بگڑے نوجوانوں رب کا واسطہ یہ انہی کا پلیٹ فارم ہے ۔جب چاہیں تمہاری آواز بند کردیں ۔ابھی وقت ہے ۔سنھبل جائے ۔ قارئین: میری مثال تو خریداران یوسف ہی کی سی ہے ۔کہ کچھ بڑانہیں تو اپنے حصے کی اپنے کمرے سے آواز تو بلند کرسکتاہوں وہی کرلیتاہوں ۔اے پیارے اللہ !!تیرے نام لیوابہت تکلیف میں ہیں کوئی معجزہ کردے ۔مالک اتاردے ابابیل ۔مالک فضائے بدر بنادے ۔پیارے اللہ ہم سوری کرتے ہیں ۔
|