فلسطین نبی کریم ﷺ کی دعاوں میں !!!
(Dr Zahoor Danish, karachi)
|
فلسطین نبی کریم ﷺ کی دعاوں میں !!! |
|
فلسطین نبی کریم ﷺ کی دعاوں میں !!! تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) یہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں،یہ وہ مقدس آستانہ ہے جہاں انبیائے کرام نے سجدے کیے،جہاں بیت المقدس کی چھتوں نے وحی کی سرگوشیاں سنی،اور جہاں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی دعا کے بادل آج بھی محبت کی خوشبو بن کر لہراتے ہیں۔صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے:اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا "اے اللہ! ہمارے شام (فلسطین و شام کے خطے) میں برکت عطا فرما!" (بخاری: 1037، مسلم: 1374) یہ وہ دعا ہے جس میں فلسطین کے ذرے ذرے کے لیے رب کی رحمت مانگی گئی،جہاں مسجد اقصیٰ کی مٹی، زیتون کے درخت، پہاڑوں کی ہوائیں،سب اللہ کی برکتوں کے محتاج ہیں، اور مصطفی ﷺ کی دعا میں ڈھل چکے ہیں۔جب مدینہ میں بارش نہ برسی،جب دنیا کے کنارے خشک ہونے لگے،نبی ﷺ نے شام اور فلسطین کو یاد کیا،اور اپنی امت کو سکھایا کہ:"جس زمین کو اللہ نے چنا، وہاں کے لیے مانگو، وہاں کی ہواؤں میں برکت مانگو، وہاں کی ماؤں کی دعاؤں میں رحمت مانگو۔ قارئین: جب نبی ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور شام و فلسطین کے لیے دعا کی،تو وہ صرف ہاتھ نہیں تھے، وہ نبوت کا دل تھا جو تڑپ اٹھا تھا۔ان دعاؤں میں صرف لفظ نہیں،ان میں انبیاء کی صدیوں کی دعاؤں کی بازگشت تھی،امت کی نسلوں کی سلامتی کی التجا تھی۔ قارئین: نبی ﷺ کی زبان سے نکلے یہ الفاظ آج بھی ہم سے کہتے ہیں:فلسطین صرف ایک قوم کا نہیں، یہ پوری امت کا قرض ہے۔بیت المقدس صرف ایک جگہ نہیں، یہ ایمان کا پیمانہ ہے۔مسجد اقصیٰ صرف ایک مسجد نہیں، یہ آسمانی وعدوں کا گواہ ہے۔ مسجد اقصیٰ وہ جگہ ہے جہاں:نبی ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کی،سجدے کے نشان چاند تاروں تک پہنچے،اور دعاؤں کی خوشبو آج بھی اس کی فضا میں بسی ہوئی ہے۔نبی ﷺ کے لبوں سے نکلنے والی دعا،اقصیٰ کی دیواروں میں گونجتی رہی۔اے اللہ! اس زمین کو ظلم سے پاک فرما،اسے قیامت تک اپنی برکتوں کا گھر بنا! قارئین:فلسطین کا غم امت کا غم ہے۔فلسطین کی آزادی امت کی غیرت ہے۔فلسطین کی مسکراہٹ امت کی کامیابی ہے۔نبی ﷺ کی دعا ہمیں سکھاتی ہے کہجس کا دل مسجد اقصیٰ کے لیے نہیں دھڑکتا۔اس کا دل امت کے درد سے خالی ہے۔ افسوس جب اسلامی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں تو سوائے ندامت کے کچھ نہیں ہاتھ نہیں آتا۔اتنے بڑے بڑے اسلامی ملک اور لڑتے ،جلتے فلسطین کے لیے کسی نے کوئی موثر کردار ادانہ کیا۔اسلامی دنیا کا عالمی وقار مسلسل گر رہا ہے۔غیروں کو مسلمانوں پر چڑھ دوڑنے کا حوصلہ مل رہا ہے۔فلسطین صرف ایک زمین نہیں، امت کی غیرت کا مرکز ہے — اس کی خاموشی عالمی سطح پر اسلامی کمزوری کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ قارئین: صرف قراردادوں سے نہیں، معاشی اور سفارتی دباؤ سے بات کرنی ہوگی۔امت کو ایک عالمی جسم بن کر اٹھنا ہوگا، ورنہ تاریخ گواہی دے گی کہ جب مسجد اقصیٰ پکارتی رہی،امت صرف اقتدار کی کرسیوں پر سمٹی رہی ۔خیر سوائے افسوس کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ۔آپ یقین کریں اپنی ذات مجرم مجرم سی لگتی ہے ۔ضمیر کی عدالت میں ایک عجیب سی شرمندگی ہے ۔اے اللہ پاک ہم سوری کرتے ہیں ۔ہم معافی مانگتے ہیں ۔ہمارے مسلمان بہن بھائیوں بچوں کو بہت بے دردی سے ماراگیا ہم موثر اور مثبت کردار نہ اداکرسکے ۔اے اللہ !معجزہ کردے پھر سے مسلمانوں کو عروج عطافرما۔ہماری مدد فرماآمین
|