میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہم اللہ کی ذات سے محبت کی بات کررہے تھے میرے محترم یاروں جب سے دنیا بنی
تب سے لیکر رہتی قیامت تک اس دنیا میں آنے والے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کچھ
لوگوں کو چن لیتا ہے جنہیں وہ اپنا خاص اور مقرب بندہ بنالیتا ہے یعنی ان
سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ بندے صرف اور صرف اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں
کیونکہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے خوف میں رہ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور
اللہ انہیں اپنی محبت میں بار بار آزماتا ہے وہ باری تعالی کبھی رلاکر کبھی
آزمائش میں ڈال کر اور کبھی کسی بڑی یا چھوٹی پریشانی میں ڈال کر باقی
ماندہ لوگوں سے انہیں الگ کردیتا ہے ان میں سے بعض لوگ خود چل کر اس مقام
تک پہنچتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کو کھینچ کر لایا جاتا ہے اور جو اللہ تک
پہنچ جاتے ہیں تو پھر وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ہوتا ہے کسی شاعر نے
کیا خوب کہا
تیری نگاہ ناز میں میرا وجود بے وجود
میری نگاہ شوق میں تیرے سوا کوئی نہیں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ایک بنیادی اصول بھی ہے اور ہونا بھی یہ
ہی چاہئے کہ جب رب تعالی نے ہمیں زندگی عطا کی ہے تو پھر یہ زندگی اس کے
نام پر ہی گزارنی چاہیے اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق بسر کرنی چاہیے
ہمارا جینا مرنا بھی ہو تو اس ہی ذات کے لئے دوستی دشمنی بھی اس کی خاطر ہی
ہو نفع نقصان بھی اس کی ذات کے تعلق کی بنا پر ہو کامیابی ناکامی بھی اس کی
رضامندی پر مبنی ہو مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے خود ساختہ معیار بنا لئے
ہیں زندگی گزارنے کا عمل ہو جینا مرنا ہو یا کامیابی ناکامی کا معاملہ اللہ
تعالیٰ کی رضا اور اس کی منشاء کو ہم کسی فہرست میں رکھتے ہی نہیں آج لوگ
پوچھتے ہیں کہ ہاں بھئی امتحان میں کتنے نمبر آئے ؟ جاب کیسی چل رہی ہے ؟
تنخواہ کتنی ہے ؟ کاروبار کیسا چل رہا ہے ؟ لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ اللہ
تعالیٰ سے تعلق کیسا چل رہا ہے ؟ نمازیں کیسی چل رہی ہیں ؟ روزے رکھ رہے ہو
یا نہیں ؟ ایمان کی کیا حالت ہے ؟ دین تو جیسے کوئی اجنبی چیز ہوگئی اور
رہی دنیا تو سب کو اچھا پروفیشن چاہئے میڈیکل ہو تو کیا بات ہے انجینئرنگ
کی کوئی اعلی ڈگری اچھا رشتہ اچھا خاندان اور بچے چاہئے آرام دہ بستر پر
موت چاہئے آج ہم نے راستے کے سامان کو اپنی منزل سمجھ کر راستوں پر ہی ڈیرے
ڈال لئے ہیں تو کیا اس طرح ہم منزل پر پہنچ پائیں گے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن اور احادیث کا مطالعہ کر لیجئے انبیاء
کرام علیہم السلام صحابہ کرام علیہم الرضوان اولیاء کرام اور بزرگان دین کی
زندگیوں کو دیکھ لیجئے کہ انہوں نے اللہ سے کیسی محبت کی اور اس محبت کی
وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو دنیا اور اس کی رنگینیوں سے دور کردیا دنیا کی
لذتوں اور خواہشوں سے انہیں نفرت ہوگئی اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت
کرنے لگا اور جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرے تو اسے اس مقام تک پہنچا
دیتا ہے جس کا ہر ذی شعور انسان خواہش مند ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ
جسے اللہ کی محبت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا اب اسے کسی چیز کی حاجت نہیں
رہتی اور نہ ہی اس کی نظر میں کسی اور چیز کی کوئی اہمیت ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی لکھا کہ انبیاء کرام ،
صحابہ کرام ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیوں کا جب ہم مطالعہ کرتے
ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے مختلف انداز نظر آتے ہیں کیونکہ
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور اللہ تعالی کا اپنے ہر بندے سے محبت کرنے کا
انداز یکثر مختلف ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کی اپنے رب سے
محبت کے انداز کا اگر آپ مطالعہ کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کیونکہ آپ ﷺ
اللہ تعالیٰ کے محبوب تھے ایک معروف حدیث ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور ﷺ میرے بستر پر آرام فرما رہے تھے
رات کے پچھلے پہر یعنی تہجد کا وقت تھا تو میری آنکھ کھلی تو میں نے انہیں
نا پایا میں پریشان ہوگئی کیونکہ جب بھی سرکارﷺ تہجد کے لئے اٹھنے کا ارادہ
کرتے تو مجھ سے فرماتے کہ عائشہ وقت تو تمہارا ہے لیکن اگر اجازت ہو تو میں
اٹھ کر اپنے رب کو راضی نہ کرلوں اور آج بغیر کچھ کہے کیسے چلے گئے فرماتی
ہیں کہ میں پریشانی کے عالم میں یہاں وہاں دیکھتی ہوں ساتھ ہی حضور کی
استعمال شدہ تہبند پڑی تھی میں نے اوڑھی اور باہر کی طرف چلی گئی ہلکی ہلکی
بارش تھی میں مسجد نبوی سے ہوتی ہوئی جنت البقیع تک پہنچی تو دیکھا کہ حضور
ﷺ سجدے کی حالت میں تھے آہٹ سنی تو فرمایا کہ کون ہے تو میں نے عرض کیا کہ
میں ہوں عائشہ تو سرکارﷺ نے فرمایا کون عائشہ ؟ تو فرمایا یا رسول اللہﷺ آپ
کی زوجہ تو فرمایا کہ یہ زوجہ کیا ہوتی ہے ؟ تو فرمایا بنت حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرمایا یہ ابوبکر کون ہے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میرا کلیجہ پھٹنے کو آگیا اور میں وہاں سے
پریشانی کے عالم میں واپس گھر آگئی اور ایک کونے میں سہم کر بیٹھ گئی تھوڑی
دیر میں ہی حضورﷺ تشریف لے آئے انہوں نے جب مجھے پریشان دیکھا تو پوچھا کیا
بات ہے عائشہ کچھ پریشانی ہے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے
فرمایا کہ آج وہ ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا یعنی میں جنت البقیع آپﷺ کے
پاس آئی تو آپﷺ نے مجھے پہچاننے سے انکار کردیا میں نے کہا میں عائشہ ہوں
تو فرمایا عائشہ کون ؟ میں نے کہا آپﷺ کی زوجہ تو فرمایا یہ زوجہ کیا ہوتی
ہے ؟ میں نے کہا بنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرمایا یہ
ابوبکر کون ہے ؟ میرا تو کلیجہ پھٹنے کو آگیا اور یہ ہی نہیں جب میں واپس
آئی تو بارش میں بھیگی ہوئی تھی اور آپﷺ تشریف لائے تو کپڑے بالکل سوکھے
ہوئے یہ کیا ماجرا ہے حضور ﷺ۔توآپﷺ نے فرمایا عائشہ میرا اللہ کے ساتھ ایک
وقت ہوتا ہے جب میں اپنے رب سے گفتگو کرتا ہوں اور اس وقت کوئی فرشتہ بھی
وہاں نہیں آسکتا کسی کو بھی اجازت نہیں ہوتی تو پھر وہاں ابوبکر اور عائشہ
کا کیا کام یہ سن کر حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرض کرتی
ہیں کہ پھر وہاں کون ہوتا ہے تو سرکار ﷺ نے فرمایا کہ صرف میں اور میرا رب
وہاں تیسرا کوئی نہیں ہوتا تو عرض کیا کہ اچھا پھر یہ بارش کا کیا معاملہ
تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ تم نے میری تہبند جو اوڑھی ہوئی تھی تو
اس کی وجہ سے میرے رب نے تم پر رحمت برسائی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ حدیث پڑھ کر ہمیں کئی باتوں کا پتہ چلتا
ہے ایک تو رہتی قیامت تک میرے سرکار مدینہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ درس دے دیا
کہ چوبیس گھنٹوں میں ایک وقت اپنے رب سے گفتگو کے لئے مخصوص کرلیں جب آپ
اسے اپنے دکھڑے سنائے دعائیں مانگیں آنکھ سے آنسو بہاکر اسے منانے کی کوشش
کریں تنہائی میں اکیلے میں جب کوئی نہ ہو آپ کے اور آپ کے رب کے درمیاں پھر
دیکھیں کتنا کرم ہوتا ہے کیونکہ وہ رب آپ سے محبت کرتا ہے آپ بھی اس سے
محبت کرکے تو دیکھو اس کے ساتھ اپنا وقت گزار کر دیکھو ہم زندگی میں اکثر
منصوبے بناتے ہیں کی آج دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں گے آج گھر والوں کے ساتھ
وقت گزاریں گے آج فلاں رشتہ دار کے یہاں وقت گزاریں گے لیکن کبھی اپنے رب
کے ساتھ وقت گزارنے کا ارادہ کیا شاید کبھی نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسری بات جو معلوم ہوئی وہ یہ کہ میرے
سرکار ﷺ اور رب تعالی کے درمیان گفتگو ہوتی تھی اور اس گفتگو کے دوران کسی
کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی یہاں تک کہ فرشتوں کا داخلہ بھی بند تھا اور
تیسری بات یہ کہ جس طرح حضور ﷺ کے جسم سے لگنے والی تہبند اوڑھنے سے حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر رحمت چھما چھم برس رہی تھی تو حضورﷺ
سے چلنے والے اس سلسلے سے صحابہ کرام علیہم الرضوان اولیاء اللہ اور بزرگان
دین کی نسبت سے جڑی ہر چیز سے ہر تبرک سے فیض حاصل ہوسکتا ہے اور ہمارے لئے
باعث برکت ہوسکتی ہے جبکہ ہمیں اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس عارضی
زندگی میں اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی کے لئے اگر کوئی چیز
انتہائی ضروری ہے تو وہ صرف اللہ سے محبت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اسلام کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمیں
اندازا ہوتا ہے کہ اللہ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ہر کام
کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنے کی عادت بنالیں اگر ہمیں کسی سے ملنا ہو
اگر کسی کی عیادت کرنی ہو اگر کسی ناراض ہوجانے والے کو منانا ہو اگر کسی
کے سامنے مسکرانا ہو اگر اپنے کام میں ایمانداری اور خلوص کو ساتھ رکھنا ہو
وغیرہ تو ان سارے معاملات کو کرنے سے پہلے یہ نیت کرنی ہوگی کہ یا اللہ یہ
کام میں تیری رضا کے لئے کررہا ہوں پھر اللہ تعالی نہ صرف ہمیں اجر عطا کرے
گا بلکہ ہم سے محبت کرکے ہمیں اپنے مقرب بندوں میں شامل کرلے گا اسی طرح
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا پابندی کے ساتھ
شروع کردیں تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریمﷺ کے صدقہ و طفیل ہمیں اپنی محبت
عطا کردے گا جس طرح قرآن مجید سورہ النساء کی آیت 64 میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے کہ
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ
لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا
اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا
رَّحِیْمًا(64)
ترجمعہ کنزالایمان::
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت
کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور
حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو
ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب بھی کسی نے اللہ تعالیٰ کی محبت پالی اس
کا قرب حاصل کرلیا تو سمجھ لیجئے کہ اس نے سب کچھ پا لیا اور اسے اس محبت
کا صلہ مل گیا ایک بات ہمیشہ یاد رکھیئے اس رب کی محبت کے حصول کے لیئے
ہمیں بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بس اپنے نفس کے ساتھ جنگ لڑنی پڑتی ہے
ہم اپنے اخلاق کو اچھا کرکے اس کی محبت کو حاصل کرسکتے ہیں ہم زندگی میں
عاجزی وانکساری سے دوستی کرکے اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں ہم اس رب کی
مخلوق کی مدد کرکے ان کے ساتھ بھلائی کرکے اس رب کی محبت کو حاصل کرسکتے
ہیں ہم ہر ایک کے لیئے اپنے دل کو صاف کرکے اس رب کی محبت کو حاصل کرسکتے
ہیں ہم اس رب کے احکامات کی پیروی کرکے اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں ہم
اس کے حبیب کریمﷺ کی احادیث پر عمل کرکے اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں اس
کی دی ہوئی ہر نعمت پر شکر کرکے اور کسی نعمت کے نہ ملنے پر اللہ کی مصلحت
سمجھ کر اس پر صبر کرکے اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں کسی پریشان اور
غمزدہ انسان کے سامنے مسکرا کر اس کا دل بہلا کر اس رب کی محبت حاصل کرسکتے
ہیں ہم اس کے بتائے ہوئے وہ راستے جن پر اس کے مقرب بندوں نے چل کر اسے
پایا ان راستوں پر چل کر اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں گھروالوں ، دوست
احباب اور جان پہچان والوں کے صلہ رحمی کرکے اس رب کی محبت حاصل کرسکتے ہیں
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم رات کے پچھلے پہر تنہائی میں سجدے کی حالت میں
اپنی آنکھ سے اس کی بارگاہ میں آنسو بہاکر بھی اس رب کی محبت حاصل کرسکتے
ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ دنیا اور اس کی زندگی صرف عارضی ہے جس
طرح ہم کسی سفر پر جاتے ہیں تو اس سفر کے حساب سے اپنا سامان اپنے ساتھ
رکھتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ یہ سفر ہمارا مختصر ہے ہمیں واپس
اپنے گھر آنا ہے لہذہ یہ دنیا بھی ہمارے لیئے مختصر سفر کی طرح ہے اور ہمیں
یہاں اتنا ہی سامان اپنے ساتھ رکھنا چاہیے جتنا ہمیں یہاں رہنا ہے جبکہ
آخرت کی زندگی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی ہے اور وہاں ہمیں ہر وہ چیز میسر
ہوگی جس کی ہم اس دنیا میں خواہش رکھتے تھے اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور منشاء
کے تحت اس دنیا میں ہم وہ پا نہ سکیں لیکن رب العزت نے وہ ہمیں وہاں نعمت
کی شکل میں عطا کی ہوگی اور یہ سب صرف اور صرف اس رب تعالی کی محبت حاصل
کرکے ہی ممکن ہے اور اس رب کی محبت حاصل کرنے کے لئے ان طریقوں پر عمل کرنا
ہوگا جو میں نے اوپر بیان کی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رب
العزت کو راضی کرنا ہو تو پہلے اس کے حبیب کریمﷺ کو راضی کرنا ہوگا اور اس
واقعہ سے اوپر پیش کی گئی آیت مبارکہ کی تفصیل بھی ہمیں مل جاتی ہے کہ جس
میں رب تعالی اپنے حبیب ﷺ سے فرماتا ہے کہ اے محبوب کہدو کہ جب یہ اپنے
جانوں ہر ظلم کریں یعنی گناہ سرزرد ہو جائے تو آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو
جائیں اور پھر آپ ﷺ کی سفارش سے ہم انہیں بخش دیں گے رب العزت کی محبت کے
حصول کے کئی طریقے ہمیں انبیاء کرام ، صحابہ کرام ،اولیاء کرام اور بزرگان
دین کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے فقہاء اور اکابرین کی تحریروں میں بھی
ملتے ہیں اور جو اس کو پڑھ کر سمجھ کر اس پر عمل کرلے تو اللہ اس سے محبت
کرنے لگتا ہے اور بندے کو بھی پھر کچھ نظر نہیں آتا ہر جگہ اسے رب ہی رب
نظر آتا ہے کیونکہ اسے بھی اپنے رب سے محبت ہوجاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیئے کہ دعائیں تو سب
کی قبول ہوتی ہیں کچھ جلدی کچھ دیر سے لیکن کچھ دعائیں بڑی خاص ہوتی ہیں جن
کا راز اللہ تعالیٰ نے سجدوں میں پوشیدہ رکھا ہوا ہے لیکن یہ بھی یاد
رکھیئے کہ وہ سجدے سب کے نصیب میں نہیں ہوتے بلکہ جس بندے سے اللہ کو محبت
ہوجاتی ہے بس اسے ہی ان سجدوں کی توفیق عطا ہوتی ہے اور ان سجدوں کے سبب
اللہ تعالیٰ اس کی دعائوں کو اس کے پسندیدہ انداز سے قبول فرماتا ہے وہ تو
مالک ہے بڑا غفور الرحیم ہے وہ چاہے تو بے حساب بخش سکتا ہے لیکن وہ کسی
کسی کو سجدوں کی لذت سے آشنا کردیتا ہے اور جب بندہ اپنا سب کچھ اپنے رب پر
چھوڑ دیتا ہے تو اسے سجدوں میں لذت ملنا شروع ہوجاتی ہے اور اس کے لئے بس
اللہ ہی کافی ہوجاتا ہے پھر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور اللہ تعالی اس کے
اتنا قریب ہوتا ہے کہ جتنا قریب آنے کی اجازت فرشتوں کو بھی نہیں ہوتی
کیونکہ اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے اور وہ بندہ بھی اللہ کا ہوجاتا ہے
جیسے شاعر کہتا ہے
اک بار جا کر سجدے میں بس گڑگڑانا ہے اور تمہیں
آنسو کا اک قطرہ زرا بس اپنی آنکھوں سے گرانا ہے
مل گئی جسے یوسف سجدوں کی لذت اک بار تو
سجدے میں پڑے سر کو پھر کہاں اس نے اٹھانا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا یا اس کی محبت کا مل جانا کسی بھی انسان کے اپنے
ہاتھ میں نہیں جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات میں ایسے
لوگوں کو چن لیتا ہے منتخب کرلیتا ہے پھر وہ چاہے کوئی گناہگار ہو سیاح کار
ہو بدکار ہو یا کوئی شرابی جب باری تعالی اس بندے کو اس کے خاص مقام تک
پہنچانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کی زندگی میں تبدیلی کے وسائل بھی پیدا
فرما دیتا ہے کاش رب تعالی اپنے ان چنے ہوئے لوگوں میں ہمارا نام بھی شامل
کردے آمین لیکن ہمارے آج کے معاشرے میں ایسا کم کم نظر آتا ہے ہاں مگر جب
کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے کسی ولی کا ہاتھ پکڑ کے ان کے دامن سے اپنا دامن
وابستہ کرلے تو ممکن ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ کوئی انسان دنیا کے
دھوکے سے بیزار ہوکر رب تعالی کے کسی مقرب اور محبوب بندے سے اپنی نسبت جوڑ
لیتا ہے اور اسے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی ملنا شروع ہوجاتی ہے تو پھر رب
تعالی کی توجہ ایسے انسان پر ہو جاتی ہے ویسے تو قرآن اس رب العزت کی نظر
اس پوری کائنات میں موجود اپنے ہر بندے پر ہر وقت ہر لمحہ ہوتی ہے وہ اس
انتظار میں ہوتا ہے کہ کب کونسا بندہ مجھے پکار اٹھے میری طرف مائل ہو جائے
میری پناہ مانگے میری محبت کا طالب ہو پھر وہ باری تعالی اس بندے کی نیت کو
پرکھتے ہوئے اس کے لئے اگلے راستے کے تعین کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ جو لوگ
چنے ہوئے ہوتے ہیں ان کو منزل تک پہنچنے میں مشکل نہیں ہوتی اور جب کوئی
عام انسان اس راستے پر چلنے کی خواہش رکھتا ہے تو اس کو کافی محنت درکار
ہوتی ہے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہوتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب کوئی عام شخص اللہ کی محبت پانے کی آرزو
رکھتا ہے تو اسے دنیا اور دنیاداری رشتے اور رشتہ داری سب سے دور رہنا ہوتا
ہے دنیا کی رعنائیوں ، دلکشی اور خوبصورتی سے منہ موڑنا پڑتا ہے دنیا کی
لذت کو صرف زبان سے نہیں بلکہ دل و دماغ سے بھی نکالنا ہوتا ہے اور پھر جب
وہ ان راستوں پر چلنا شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا امتحان لیتا ہے اس
پر آزمائش ڈال کر اس کو پریشانی میں مبتلا کرکے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس
شخص کی طلب کتنی گہری ہے کیا وہ مجھ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیا میری
محبت کے حصول میں وہ سچا ہے کیا وہ واقعی اپنی رنگین دنیا سے باہر نکل کر
میرے پاس آرہا ہے ان تمام مراحل سے گزر کر پھر وہ اپنے اس بندے کے بارے میں
اپنی حکمت ، منشاء اور مصلحت کے تحت اس کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ جب اللہ
تعالٰی کسی کو اپنا قرب عطا کرتا ہے کسی سے محبت کرتا ہے تو پھر اسے کسی
بھی تیسرے کی دخل اندازی بالکل گوارا نہیں اب وہ چاہے دنیا ہو یا کوئی
دنیادار ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس طرح جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو ڈھونڈتے ہوئے جنت البقیع میں
پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کون ہے تو عرض کیا میں
عائشہ تو جواب ملا کون عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا آپ ﷺ کی زوجہ
تو فرمایا کہ یہ زوجہ کیا ہوتی ہے عرض کیا بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ تو فرمایا یہ ابوبکر کون ہے اور جب گھر تشریف لائے تو فرمایا کہ میں جب
اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہوں تو مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کیونکہ وہاں میرے
اور میرے رب کے درمیاں تیسرا کوئی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی کو آنے کی
اجازت ہے یہاں تک کہ فرشتوں کا داخلہ بھی بند ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
کو اپنے اور اپنے محبوب بندے کے درمیان کسی تیسرے کی دخل اندازی پسند نہیں
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سب سے
بہترین اور مجرب راستہ عاجزی و انکساری ہے کیونکہ باغوں میں لگے ہوئے
درختوں کی پہچان اچھے پھل سے ہوتی ہے جبکہ ایک انسان کی پہچان اس کی زبان
سے نکلے ہوئے الفاظوں سے ہوتی ہے جب انسان پریشان ہوتا ہے تکلیف میں ہوتا
ہے تو اسے صرف یہ یقین رکھنے چاہئے کہ میری فریاد میری آواز میری کہانی
کوئی سنے نہ سنے میرا رب ضرور سن رہا ہے اور جب انسان کو اس بات کا پختہ
یقین ہو جائے تو اپنی بات اپنی فریاد اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں کرتا
اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتا تمہاری کوئی بھی تکلیف پانی کی ایک بوند سے
زیادہ نہیں ہے جبکہ اس رب کی تم سے محبت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیونکہ جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی سے
محبت کرتا ہے دوستی کرتا ہے تو اس کی زباں پر اپنا ذکر اور دل پر اپنی فکر
کے دروازے کھول دیتا ہے اور یاد رکھو جب رات کی تنہائی میں دعا کے لئے ہاتھ
اٹھائو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ وہ رب بھی تمہیں دیکھ رہا ہے اور دل میں
خیال آئے گا کہ اللہ صرف میرا ہے دنیا اور دنیا داروں کو چھوڑ کر صرف اپنے
رب سے محبت کرنا سیکھئے کیونکہ اس دنیا میں ہمیں ایک مخصوص مدت تک رہنا ہے
لہذہ جتنا وقت اتنا سامان اتنی محنت اتنی جستجو جبکہ ہمیشہ رہنے والی اخرت
کی جنت کی زندگی کے حصول کے لئے صرف اللہ اور اس کے حبیب کریمﷺ سے محبت
کرنا ہوگی اور پھر اس محبت کے صلہ کے طور پر جنت کا جو مقام عطا ہوگا وہ ہر
ذی شعور انسان کی خواہش ہے آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صرف
ان راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی محبت اور اس کے قرب کے
حصول کی طرف جاتے ہیں اور ہمیں بھی اپنے محبوب ، خاص اور مقرب بندوں کی صف
میں شامل کرے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمِین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|