باپ جنت کا دروازا

استاد محترم جناب اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ
"ٹہنی پر بیٹھے دو پرندوں میں سے ایک اڑ جائے تو دوسرا بھی زیادہ دیر نہیں بیٹھتا وہ بھی اڑ جاتا ہے"
2021 میں اماں ہم سے جدا ہو گئیں تھیں اور اس وقت سے ابا بہت اداس رہنے لگے اور آہستہ آہستہ طبیعت میں بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ وہ اکثر اماں کو یاد کرتے اور افسردہ ہو جاتے۔
ایسی صورت حال میں جو دو میاں بیوی میں سے ایک رہ جاتا ہے اور عمر بھی اچھی خاصی ہو جائے تو اس ایک بندے یا بندی کو خاص توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ان کا خاص خیال رکھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے انہیں اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دینا چاہیے، ان کی دلجوئی کرتے رہنا چاہیے ان کی تمام تر ضروریات کا خیال رکھنا چاہئیے انہیں پہلے سے زیادہ وقت دینا چاہیے لیکن افسوس ہم یہ سب نہیں کر پاتے۔
ہماری مصروفیات آڑے آجاتی ہیں اور آج کی نسل (چھوٹے بچے) بزرگوں کے ساتھ بالکل بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان پہلی ترجیح موبائل فون بن گئی ہے ۔
ان تمام باتوں کی بناء پر گھروں میں بزرگ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کو وقت گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خود کو بالکل تنہا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور ہم نام نہاد خدمت گزار اولاد انہیں مسلسل نظر انداز کر کے مختلف بیماریوں میں دھکیل دیتے ہیں اور وہ بستر مرگ پر آجاتے ہیں۔
انتہائی افسوس ناک بات یہ کہ ہم صرف انہیں کھانا دینا ہی زمہ داری سمجھتے ہیں ان کے باقی کے تمام معاملات سے یکسر لا علم ہو جاتے ہیں۔
یہ آفاقی سچ ہے کہ اولاد کے دکھ پر ماں باپ تڑپ کر رہ جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ اولاد پر قربان کر دیتے ہیں لیکن افسوس کہ اولاد ماں باپ جیسی تڑپ اور محبت سے محروم نظر آتے ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ ماں باپ اپنی بیماری سے کم ہمارے سرد رویوں اور لاپرواہی سے ملک عدم چلے جاتے ہیں اور ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔
ایک اور حقیقت یہ کہ ہم اپنی اولاد کی ذرا سی چھینک پر تڑپ اٹھتے ہیں اور فورآ سے پہلے ان کا علاج کراتے ہیں لیکن افسوس یہ تڑپ والدین کے لئے کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو ڈیلی بیسز پر اپنے والدین کا حال پوچھتے ہیں ان کے دوا دارو کا خیال رکھتے ہیں کب ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا مکمل طبی معائنہ کرانا چاہئے، اپکو اچھی خوراک کی ضرورت ہے، اپکو ہماری کمپنی (ساتھ) کی ضرورت ہے، شاید بہت کم ہی ہاں میں جواب ملے اس کا۔
اگر چہ ابا ہم سب سے خوش تھے اور دو مرتبہ میرے ساتھ اور تین مرتبہ باقی بھائیوں کے ساتھ اللہ کا گھر بھی دیکھ آئے تھے لیکن پھر بھی دل میں ایک خلش سی ہے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت نہیں کر سکے، اس سے بھی زیادہ خدمت کے حقدار تھے وہ اور ہمیں کرنا بھی چاہئے تھی لیکن اب سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب اپنے ریت رواج بھولتے جا رہے ہیں جن میں بزرگوں کا خیال،احترام سب سے اولین ترجیحات میں ہوا کرتا تھا اور ہماری محبت کے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حقدار ہمارے والدین ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب ہماری محبتوں کی بھی ترجیحات بدل گئی ہیں ۔
رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے ماں باپ اور تمام بزرگوں کی خدمت اور احترام کا جذبہ عطا فرمائے ۔
والدین سے سچی کھری محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والدین تو جنت میں جانے کا خوبصورت ذریعہ ہیں اور اس وسیلہ سے ہمیں جنت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
رب العزت تمام والدین جو حیات ہیں ان سب کو صحت اور تندرستی والی طویل زندگی عطا فرمائے اور جو والدین رب کے ہاں جنت میں اس کے مہمان ہیں ان کے درجات بلند فرمائے ۔
رب العالمین میرے والدین کی بھی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔
آمین ۔🤲
 

Rasheed Malik
About the Author: Rasheed Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.