بسم اﷲ الرحمان الرحیم
پاکستانی بڑے لڑیا جنکی سہی نہ جائے مار
نفیس فریدی
بزدل بھارت نے پاکستان کی چھ جگہوں پر اپنے پندرا پندرا جہازوں کی ٹولیوں،
جن میں بہاول پور، مریدکے، سیالکوٹ، کوٹلی، شکر گڑھ ،مظفرآباد میں رات کی
تحریکی میں حملہ کیا۔ ہمارے ۲۶ بے گناہ شہری جن میں بچے عورتیں شامل ہیں کو
شہید کیا۔ پاکستانی شاہینوں نے فوراً رد عمل دیتے ہوئے، ان پر اپنے جے ایف
۱۷ تھنڈر جہازوں سے حملہ آور ہو کر بھارت کے سات جہاز گرا دیے۔ ان گرائے
کئے جہازوں میں وہ نامی گرامی رافیل جہاز بھی شامل ہیں۔ جس پر دہشت گردمودی
کو بڑا ناز تھا۔ مذید جہاز بھی گرائے جا سکتے تھے مگر ایئر فور کی پلائنگ
کے تحت صرف ان جہازوں کو گرایا گیا جن کے میزائیلوں سے پاکستانی شہید ہوئے
تھے۔پاکستان بری فوج نے لائن آف کنٹرول پر اندر گھس کر بھارت کے کئی مورچے
تباہ کیے ۔ بھارتی فوج نے اپنی جانیں بچانے کے لیے باقی مورچے مورچوں پر
سرنڈر کی نشانی سفید جھنڈے لہرا کر اپنی جانیں بچائیں۔ پاکستانی فوج نے
مقبوضہ کشمیر میں بریگیڈ ہیڈ کواٹر کو بھی تباہ کر دیا۔ سری نگر ایئر پورٹ
پر بھی حملہ کیا۔اس طرح بھارت پہلے ہی دن جنگ ہار گیا۔ ابھی تو ہماری بہادر
فوج کااپنے ۲۶ شہیدوں کابدلہ لینا بھارت سے باقی ہے۔
مجھے چھ ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ یاد آ گئی۔ جب بھارتی فوج نے لاہور اور سیا کوٹ
سے پاکستان پر حملہ کیا تھا۔اس وقت بھارتی فوج کے کمانڈر ان چیف نے تکبر سے
کہا تھا کہ میں صبح لاہور جم خانے میں شراب کا دور چلاؤں گا۔ مگر پاکستان
کی مسلح افواج نے بھارتی فوج کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ پاکستان کی بری فوج
نے بھارت کے ریلوے اسٹیشن مولانا باؤ اور کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔
پاکستانی فوج اکھنور سے پیش قدمی کرتی ہوئی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو
گئی۔ایئر فورس کے ایم ایم عالم ؒ بھارت کا پٹھان کوٹ ہوائی اڈہ اور دوسرے
ہوائی اڈے تباہ کر دیے۔ایک منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے گرا کر عالمی
ریکارڈ قائم کیا۔ پاکستان نیوی نے بھارت کا دوارکا نیول ہیڈ کواٹر پر حملہ
کر کے اُسے تباہ کیا تھا۔
ان حالات میں ایک محب وان شاعر جناب نفیس فریدی نے پاکستانی فوج اور عوام
کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ہندوؤں کی زبان ہندی میں نظم لکھی۔ اس نظم کا
عنوان’’ پاکستانی بڑے لڑیا سہی نہ جائے ان کی مار‘‘ تھا۔ یہ نظم ریڈیو
پاکستان سے ستمبر ۱۹۶۵ء تا نومبر ۱۹۶۵ء تک روزانہ نو بچ کر پچپن منٹ پر
ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہوتی رہی۔ اس کو گانے والے مشہور گلوکار نہال
عبداﷲ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گایا تھا۔ یہ نظم اتنی مشہور ہوئی کے ہر
پاکستان کی زبان سے جاری ہونے لگی۔اس کے دو بند آپ حضرات کی خدمت میں پیش
کرتاہوں:۔
سَنجی بات کہون میں بھیّا پُہونچوں جو دلّی دَربار
آنکھن دیکھو حال سُناؤں دیکھو ہے کو گنگا پار
بِنتی کرنگو ہانتھ جوڑ کے مان لے اے بھارت سرکار
دِن سے جیتو ہے کوئی جگ میں وِ ن سے لڑنو بیکار
پاکستانی بڑے لڑیا جن کی سہی نہ جائے مار
تمرا کا ہے بیٹھے بیٹھے دلّی بیچ حُکم چلاؤ
بھیج بھیج بھارت کی جنتا گاجر موری سی کٹواؤ
کان دھر باتوں پہ ہمری دھیان سے ہمری سنتے جائے
مار مار کی چھین لیو ہے کھین کرن اور مونا باؤ
پاکستان بڑے لڑیا جن کی سہی نہ جاؤ مار
۲
اس کتاب کو بعد میں کاشانہ اُردو ۶؍۲ اکبر روڈ صدر کراچی نے شایع کیا۔ جو
ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔ میں نے سوچا بھارت کی تازہ مار اور پاکستان
قوم کی خوشی کے موقعہ پر اس تاریخی کتاب کور وشناس کرایا جائے ۔ شاعر حساس
ہوتے ہیں۔ راقم بھی پانچ اکتوبر ۲۰۲۳ سے طوفان قصی پر اپنے جذبات کو
پاکستان عوام اور امت مسلمہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہر روز نیٹ پر ویڈیو
اورو اخبارات سے غزہ جنگ کی معلومات جمع کر کے اُسے نظم میں پیش کر رہا
ہے۔طوفان اقصی پر شاعری کی دو کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔تیسرے کا مسودہ
پرنٹر کے پاس جانے کے لیے تیار ہے۔ چوتھی کی نظمیں جمع کررہا ہوں۔ان شاء اﷲ
یہ بھی شائع کرواؤں گا۔
جنگ ستمبر کے موقعہ پر’’پاکستانی بڑے لڑیا سہی نہ جائے جنکی مار‘‘ شاعری کی
کتاب کو بہت پذیرائی ملی تھی۔ کیوں نہ ملتی، اس میں نفیس فریدی نے اپنی
پاکستانی قوم کے جذبات کو شاعری کی شکل میں پیش کیا تھا۔ اس کے تعارف میں
ملک کے نامی گرامی حضرات نے کلمات لکھے۔ اس کتاب کا انتساب جنگ ستمبرکے
غازیوں شہیدوں کے نام کیا گیا ہے۔ تعارفی کلمات میں جو ش ملیح آبادی لکھتے
ہیں ۔’’ نفیس فریدی نے عساکر پاکستان کی یاد گار شجاعت پر جو نظم لکھی ہے۔
اس سے فوج کا دل بڑھتا ہے‘‘ ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں’’رزمیہ شاعر ی کی
اصنافادب میں قدیم ہے۔۔۔۔رزمیہ کا بنیادی جذبہ رہنے کا جذبہ اور اس زندگی
کی مدافعت اور محافظت ہے، زندہ وہی رہتا ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر اس کا مقابلہ کرتاے‘‘ مشہور شاعرریئس امروہوی لکھتے ہیں’’ نفیس
فریدی وہ بادر و تازہ پھول ہیں جو ہمارے گلشن تخلیق میں اس آن بان اور دھوم
دھام کے ساتھ شگفتہ ہوئے ہیں کہ سارے چمن اور اہل چمن کی نگاہیں ان پر یا
اُن میں گم ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ان کا جنگ نامہ انداز بیان، عوامی محسوسات
اور فنی مہارت کانمونہ ہے‘‘۔
خود نفیس فریدی اس کتاب میں فرماتے ہیں۔’’چھ ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر
اچانک حملے کی خبر وطن پاکستان کے گوشے گوشے میں طوفانِ بلاخز کی طرح پھیل
گئی۔ پر پاکستانی وطنِ عزیز کے تحفظ کا جذبہ لئے اپنی اپنی جگہ سینہ سپر ہو
کر ڈٹ گیا۔میرے دل میں بھی حب الوطی کاجذبہ اُٹھا، جس نے روح میں عجیب سی
ہیجانی کیفیت پیدا کر دی۔ اس ہنگامہ خیز جذبے کو دل میں لئے ہوئے میں نے
تہیہ کی کہ میں بھی کسی نہ کسی حیثیت سے اس جدو جہد میں اپنی بساط پھر حصہ
لوں۔ بات جہاں آ کر ٹھہری کہ شریک جہاد بلقلم ہوا جائے اور ایک ایسا نغمہ
لکھا جائے جس میں بھارتیوں کی بزدلانہ حرکات کا تمسخر اُڑایا جائے اور وہ
بھی ان کی مادری زبان میں۔میں نے اس نظم کو اپنے نغمے کا مرکزی خیال بنایا
اور مصرعہ یوں موزوں کیا‘‘۔‘‘پاکستان بڑے لڑیا جنکی سہی نہ جائے مار‘‘
کیاہی اچھا ہو کہ اس نظم کو اب بھی پاکستان کی وزارت اطلاعات پاکستان
ٹیلیوژن پر کسی مشہور گانے والے کے ذریعے پیش کرے۔ یا کوئی پرائیویٹ
ٹیلویژن اسٹیشن اس نظم کو پیش کرے ۔ اس سے عوام میں جزبہ حب الوطنی پروان
چڑھے گا۔ پھر بھارت پاکستان کو ختم کرتا ہے یا’’ غزہ ہند‘‘ بھر پاہ کر
پاکستان بھارت کو ختم کرتا ہے۔ خاص کر پاکستانی کے ازلی دشمن بھارت، جو
پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے کہ
پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ہمارے سیاست دانوں جو
بھارت کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں ان کو بھی ہدایات دے اور وہ دوست دشمن
میں تمیزکرنے کے طریقے سے روشناس ہوں۔ اﷲ مثل مدینہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ
پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔
|