انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہاؤس تک

فی الحال وقتی طور پر انکل ٹام کا اپنے جنوبی شکستہ چوبی کیبن سے شمالی شان دار قصرابیض کا سفر پورا ہوچکا ہے۔ اس کے لیے ہم تمام ہم خیال اور عقل مند پاکستانیوں کی جانب سے باشعور امریکی قوم کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

یورپ میں چرچ کی بحیثیت ایک ریاستی مقتدر ادارہ، مذہبی بالادستی اورعیسائی طالبان کے مظالم اور تشدد پسندی سے تنگ آئے مظلوم اور تنگ دست افراد 17ویں صدی میں اطالوی نژاد پرتگالی وہسپانوی مہم جو کرسٹوفر کولمبس (1506-1451) کی 1492 عیسوی میں ایک نئی مالا مال دنیا کے انکشاف کے بعد اس دریافت کی جستجو میں خود بھی بحراوقیانوس کے پار اس ان دیکھی خزانوں سے بھرپور زمین کی جانب چل نکلے۔

اپنی آبائی زمین، رشتہ داروں اور یادوں کو ترک کرکے یہ پرخطر سفر کرتے ہوئے وہ ایک کثیر تعداد میں نئی دنیا کے مشرقی ساحلوں پر جا اترے عیسائیت کے دو فرقوں، کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان ایک متوازن سوچ رکھنے والے یہ افراد اپنے آپ کوپیوریٹن، گویا کہ پاکی یا پاکستانی کہتے۔

نومبر میں وہاں پہنچ جانے کے بعد 11 دسمبر1620 کو 102 مسافروں پر مشتمل ان کا پہلا باقاعدہ سمندری قافلہ 'مے فلاور' نامی بحری جہاز میں ساٹھ روز کے سمندری سفر کے بعد اس سرزمین پرپہنچا۔ مشرقی ساحل پر بوسٹن اور نیویارک سے قریب، یہ جگہ پلائی ماتھ، میساچوسیٹس کہلاتی ہے۔ یہ خطہ زمین غیرآباد تو نہ تھا، مگر اس وقت یہاں مقامی آبادی سمندر پار سے درآمدی طاعون کا شکار ہوجانے کے بعد بہت ہی قلیل اور اس وقت کی تہذیب یافتہ دنیا سے غیرواقف تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین پر پچاس ہزار برس پہلے ہی موجودہ روسی، ایشیائی علاقہ سائبیریا سے کچھ لوگ شمالی امریکہ کے جغرافیائی خطہ میں پہنچ چکے تھے۔ بہرحال، نئے یورپی مہم جو اور مہاجرمشرقی ساحل پرکچھ سستا کر مزید مغرب کی طرف مقامی آبادیوں، جنہیں وہ ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہتے، سے لڑتے، بھڑتے، سونا تلاش کرتے پیش قدمی کرتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے 4,500 کلومیٹر دور مغربی ساحل کو چھولیا، اور وہاں بحرالکاہل کے وسیع، عریض اور عمیق پانیوں نے ان کا استقبال کیا۔

چھ ماہ کے دورانیے کے یہ سفر "اوریگن ٹریل، اوریگن راہ گذر" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ روایتی امریکی ادب میں اس بارے میں کہانیاں اور ناول بڑی تعداد میں لکھے گئے۔ یہ سفر نہایت ہی پرصعوبت، پرخطر اور جان لیوا ہوتے۔ ان سفروں کے لیے سایہ دار گول چھت والی بیل گاڑیاں استعمال کی جاتیں، جو خاص اس سخت سفر کے لیے بنائی گئیں، اور ان میں عام طور پر بیل جوتے جاتے، جن کے مرجانے پر مسافر بھی بسا اوقات ان کے ساتھ ہی چل بستے۔

اسی قسم کے ایک سفر میں ایک قافلہ نیوادا کے صحرا میں بھٹک گیا اور آدم خوری کی نوبت آگئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کی سرشت میں جو مہم جوئی رچ بس گئی ہے، اسی وجہ سے وہ آج بھی بے چین رہتے اوراپنے ملک کی سرحدوں سے باہر دوردراز علاقوں پرشب خون مارتے رہتے ہیں۔

لگ بھگ پانچ صدیوں پر مشتمل یورپی نوآبادگاروں کی یہ زمینی قبضہ گیری، مقامی غیرتہذیب یافتہ قلیل تعدادی آبادیوں سے مقابلے اوربارودی اسلحہ سے ان کا بے دردی اور بے رحمی سے قتل عام اور ان کے تمام وسائل پر قبضہ اور دنیا کی سب سے بڑی جائیدادی خرید و فروخت (نپولین سے جنوب میں لوزیانا، اور روس سے شمال مشرق میں الاسکا)، یورپی ممالک کی امریکی خطہ پر کنٹرول پانے کی کشمکش میں آپس میں جنگیں، اور آخر کار 13 امریکی ریاستوں کی جانب سے برطانیہ کے خلاف 4 جولائی 1776 کو اعلان آزادی، امریکی تاریخ کے دلچسپ ترین عنوانات ہیں۔

تاہم جس دوران یورپ کی مغربی سرحدوں سے نئی دنیا کی مشرقی سرحدوں کی جانب ایک کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کررہے تھے، افریقہ کے ساحلی علاقوں کے ممالک یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہجرت کے سبب ان پر کیا مصیبتیں ٹوٹ پڑنے والی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صنعتی انقلاب برپا نہیں ہوا تھا، اور زراعت کے لیے مویشی اور انسانی ہاتھوں کی مزدوری اورمحنت ہی کی ضرورت تھی، یورپی گوروں کوپہلے یورپی غریبوں، اور بعد میں افریقہ سے انسانی تجارت غلاموں کی شکل میں اس کا بہترین حل نظرآیا۔

اس طرح ایک بڑی تعداد میں آزاد افریقیوں کو زبردستی خرید کر اور ان کی جسمانی آزادی سلب کرکے نئی دنیا لے جایا گیا۔ وہاں ان پر جو ظلم وستم روا رکھے گئے وہ امریکی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں۔ تاہم یہ جسمانی غلامی ان کالی جلد والوں کی روح اور ذہن کو مسخر نہ کرسکی۔ اس کی بہترین عکاسی انیسویں صدی کے ایک امریکی ناول "انکل ٹامزکیبن" میں کی گئی۔

یہ ناول 1852 میں شائع ہوا، اور امریکہ میں بائبل کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کی حیثیت اختیار کرگیا۔ ایک نیک دل خاتون ٹیچر، ہیریئٹ بی چر اسٹوو، کے اس ناول نے امریکی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جنوب میں غلامی کو پسند، اور شمال میں اسے برا سمجھا جانے لگا تھا۔ اس خانہ جنگی کے دوران مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن برسراقتدار رہے اور انہوں نے انکل ٹامز کیبن کی اس بارے میں بہت تعریف کی اور اس کی مصنفہ سے خاص طور پر ملاقات کی۔

وہ امریکن خانہ جنگی کے لیے ہیریئٹ کے کردار کو سراہتے اور کہتے کہ یہ جنگ اسی خاتون نے شروع کرائی ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان اہم نزاع غلامی کا خاتمہ ہی تھا۔ (20 لاکھ نیگرو غلاموں کی آزادی کی جانب پہلا قدم امریکی صدر ابراہام لنکن کا وہ فرمان آزادی تھا جو انہوں نے 1 جنوری 1863 کو جاری کیا۔) ایک کالے پادری ہوسیا ہینسن کی زندگی کی حقیقی کہانی پر مبنی اس جذباتی ناول میں پہلی مرتبہ امریکی شعور کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں بیدار کیا گیا، ا ور غلام بنائے جانے والے خاندانوں کے مصائب کو ایک نہایت ہی رحمدلانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے اعلی عیسائی مذہبی اقدار کو کام میں لاتے ہوئے گورے مہاجر امریکیوں کے ضمیرکو جھنجھوڑ ڈالا گیا۔

بعد میں "1976" میں امریکی ادب میں ایک اور تہلکہ خیز کتاب کا اضافہ ہوا، جب ایلکس ہیلے نے اپنے خاندان کی جڑیں تلاش کرڈالیں، ا ور وہ افریقہ میں گمبیا میں اپنے گائوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس ناول کو "روٹس" کا نام دیا گیا۔ 1976 میں امریکہ نے اپنے دوسوسالہ جشن آزادی کو بہت جوش و خروش سے منایا اور اسی دوران ہم نے بھی امریکی سفارت خانہ کے زیراہتمام امریکی تاریخ کا ایک کورس مکمل کیا، جس کی یادیں اس وقت آپ کے لیے یہ مضمون لکھتے اور تحقیق کرتے کام آرہی ہیں۔

اسی دوران ہمیں یہ علم ہوا کہ امریکہ میں نسلی منافرت ایک خاصہ اہم قومی مسئلہ ہے۔ اس کورس کے دوران امریکیوں نے بڑے فخر سے ہمیں 1967میں بنی ایک فلم 'ان دی ہیٹ آف دی نائٹ' دکھائی، جس میں سڈنی پوائیٹیر نے ایک ایسے کامیاب سیاہ فام جاسوس کا کردار ادا کیا تھا، جسے سفید فام پولیس آفیسرز کے غیردوستانہ رویہ کا سامنا تھا۔ امریکی نسلی تعصبات پر بنی یہ ایک دلچسپ فلم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ موجودہ امریکہ میں تو صرف چار لاکھ غلام لائے گئے، مگر جنوبی امریکہ اور میکسیکو میں ان کی جملہ تعداد پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔

ان تمام خطوں میں یورپی نوآباد گار پہنچ چکے تھے، اور وہ سخت محنت کے لیے اپنی انسانی وسائل کی ضروریات کو غلاموں کی تجارت کے ذریعہ پورا کرتے رہے۔ اب 2008 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کل آبادی 30 کروڑ ہے، جس میں افریقی امریکی لگ بھگ 14 فی صد یعنی 4.5 کروڑ ہیں۔ ان میں سے ہی ایک نمایاں نام باراک حسین اوباما کا بھی ہے۔ افریقی امریکیوں کو غلامی کے چنگل سے آزاد ہونے کے باوجود گورے امریکیوں کی جانب سے مستقل نسلی تعصب آمیز سلوک کا سامنا ہے۔

معاشرتی مساوات کی جدوجہد میں ہوسیا ہینسن سے لے کر باراک اوباما تک کئی رہنمائوں کے نام نمایاں ہیں۔ ان میں روزا پارکس نامی خاتون پہلی شیردل امریکن تھی جس نے1955 میں بسوں میں علیحدہ نشستوں پر کامیابی سے اعتراض کیا۔ دیگر افراد میں مارٹن لوتھر کنگ، عالی جاہ محمد، محمد علی وغیرہ کے نام ہیں۔ سفید فام نسل پرستی اور ان کی برتری کے لیے دنیا بھر میں کئی تنظیمیں شدت پرستی سے کام لیتی رہی ہیں۔

امریکہ میں سب سے زیادہ معروف "کو کلکس کلان" ہے۔ جسے kkk بھی کہا جاتاہے۔ یورپ میں اسکن ہیڈز، نازی اور نیونازی بھی اسی نسل پرستی کے پیروکارہیں۔ آپ میں سے وہ دوست جو امریکی تاریخ سے واقف نہیں، وہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ میں بالخصوص جنوب میں، معمولی معمولی باتوں پر نیگرو غلاموں اور آزاد افراد کو بھی گرفتار کرکے بپھرے ہوئے گورے ہجوموں کے سامنے اذیتیں دے کر اور درختوں سے لٹکا کر ماردیا جاتا۔

اس عمل کو عوامی لنچنگ کہا جاتا، اور یہ بدترین اعمال اب سے چند برس پہلے تک بھی وہاں جاری تھے۔ نیگروافراد کو عوامی جگہوں پر اٹھنے بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ واضح رہے کہ اسی قسم کے حالات جنوبی افریقہ میں بھی پائے جاتے تھے، اور موہن کرم داس گاندھی، اور نیلسن منڈیلا نے بھی اس کے خلاف جدوجہد کی۔ امریکی سنیما کی ایک بہترین فلم 'ٹو کل اے موکنگ برڈ' جو 1962 میں بنائی گئی، امریکی نسلی تعصب پر مبنی عدالتی نظام پر ایک کڑی ضرب ہے۔

اس میں گریگوری پیک نے ایک دفاعی وکیل کا لافانی کردار ادا کیا، جو اب امریکی نفسیات میںایک مثبت انداز میں داخل ہوچکاہے۔ بہر حال پیارے دوستو، آج کی امریکی صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر آپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے، ورنہ آپ آج کے اس عظیم تاریخی موڑ کا ادراک نہ کر پائیں گے، جس پر آج امریکہ کھڑاہے۔ باراک اوباما کی امریکی سیاست کے اکھاڑے میں کامیابی ایک طویل جدوجہد کا ایک اور قدم ہے۔

مگریہ صرف ایک سنگ میل ہے، اور امریکی معاشرتی مساوات کی منزل نہیں۔ نیگرو جنرل کولن پاول، مذہبی اور سیاسی رہنما جیسی جیکسن، اور خاتون کونڈولیزارائس بھی اسی اہم سفر کے خاص خاص نام ہیں۔ تاہم اس معاشرتی مساوات کو ایک بہت بڑی ترغیب اور بڑھاوا اگست1963میں مارٹن لوتھرکنگ کی ایک تاریخی تقریر نے دیا، جس میں اس نے کہا کہ میر ا ایک خواب ہے کہ امریکہ میں سب لوگ رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر رہ سکیں، اور یہ جان لیں کہ ہرنوزائیدہ بچہ انسانی حقوق کی مساوات کی امید کا ایک چراغ ہے۔

مارٹن لوتھر کنگ کا یہ پیغام اللہ سبحان تعالی کے آخری نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الوداعی خطبہ حج پر مبنی تھا۔ بہرحال سفید فام نسل پرستوں نے کنگ کو 1968 میں جنوبی شہر میمفس، ٹینیسی میں قتل کردیا۔ اس وقت جیسی جیکسن ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اور آج جب 47 سالہ باراک اوباما شکاگو میں اپنی کامیابی کے بعد ایک بڑے ہجوم سے خطاب کررہے تھے تو 67 برس کی عمر کے نیگرو پادری جیسی جیکسن کے آنسو کسی صورت تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔

ان کی جدوجہد میں کامیابی کا یہ موڑ ان کی زندگی ہی میں آجائے گا اس کا انہیں یقین نہ تھا۔ تاہم یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باراک اوباما کی کامیابی افریقن امریکن شہریوں اور رنگ دار شہریوں کے لیے آخری منزل ہے تو یہ ایک فاش غلط فہمی ہے۔ امریکن انتخابی نظام میں صدارتی امیدوار اسمبلی ممبران کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے، جو زیادہ باشعورمنتخب سیاسی نمائندے کہلائے جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب عوام بھی اپنے ووٹ براہ راست ڈالتے ہیں۔ تاہم ان عوامی ووٹوں کا نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ یہ ایک اہم نقطہ ہے کہ اس موقع پر امریکی قوم نے ایک تقسیم شدہ ووٹ دیا۔ باراک اوباما کو 52 فی صد عوامی ووٹ، اور 69 فی صد الیکٹورل ووٹ ملے۔ چنانچہ اب باراک حسین اوباما کو ایک بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا، ان کے مخالفین امریکی میڈیا میں یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اب باراک اوباما کو اپنے تمام انتخابی وعدے پورا کرنا ہوں گے، ورنہ ۔۔۔ ہم دیکھ لیں گے اس کو۔۔۔

چنانچہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ ایک مخصوص لابی باراک اوباما کو ایک ناکام صدر ظاہرکرنے کی پوری کوشش کرتی رہے گی۔ ان کے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایک بہترین مقرر و خطیب تو ثابت ہوچکے ہیں، اب عملی میدان میں ان کا کڑا امتحان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باراک اوباما کی شان دار کامیابی سے دنیا بھر میں کیوں ایک جشن کی سی کیفیت ہے؟ یہاں تک کہ پاکستانی بھی، جنہیں اوباما جنگی دھمکیاں دے چکے ہیں، ان سے خوش ہیں۔

اس کا جواب اس کالم اور مضمون کی پیشانی پر تحریر مرزاغالب کے شعر، اور اس محاورہ میں بھی ہے کہ، نادان دوست سے دانا دشمن بہترہے۔ پاکستانی عدل و انصاف کے لیے کام کرنے والے لوگ یہ جان کر خوش ہیں کہ باراک اوباما بھی ایک وکیل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ باراک اوباما دنیا بھر کے مظلوم اور پچھڑے ہوئے انسانوں کے لیے امید کی ایک کرن اور ایک ماڈرن پیغمبر ہیں۔ ان کی امریکہ میں کامیابی دنیا بھر میں نسلی تعصب کے شکار ہر انسان کے لیے ایک مہمیز اور ترغیب ہے کہ اسے بھی اپنے ظالم آقائوں سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

آپ ملاحظہ کیجیے کہ یہ پیغام نسلی اور مذہبی تعصب پر چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کے کروڑہاکروڑ دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں وغیرہ کے لیے کتنا پرکشش ہے۔ اگر وہ بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو ایک دن بھارت میں بھی ایک دلت یا مسلمان وزیراعظم بن جائے گا۔ آپ کی اطلاع کے لیے ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ انکل ٹام کے کیبن نامی کتاب کا پورا نام یہ تھا: انکل ٹام کا کیبن یا نچلے طبقات کی زندگی۔ گویا کہ یہ کتاب بھارتی باشندوں کے لیے بھی ایک آفاقی پیغام رکھتی ہے۔

جہاں تک باراک اوباما کا تعلق ہے تو انہیں صدرجان ایف کنیڈی کی طرح قتل کیے جانے کا خدشہ رہے گا، کیوں کہ نسل پرستی امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھِی پائی جاتی ہے، جو اب ان کی حفاظت پر مامور رہیں گے۔ آج بھی امریکی نظام انصاف رنگ دار شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا ہے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اگرچہ رنگ دار امریکی کل آبادی کا 14 فی صد ہیں، مگرامریکی جیلوں میں قید لوگوں میں وہ 50 فی صد ہیں۔

یہ انوکھا صدارتی انتخاب کا امریکی تجربہ اس وقت کامیاب ترین قرار پائے گا جب کہ باراک اوباما کے بعد بھی رنگ دار امریکی شہری باآسانی بلا تمیزرنگ و نسل صدر بن سکیں، اور یہاں تک کہ ایک دن ریڈانڈین یا آنیوٹ شہری بھی صدرچن لیا جائے۔ فی الحال وقتی طور پر انکل ٹام کا اپنے جنوبی شکستہ چوبی کیبن سے شمالی شان دار قصرابیض کا سفر پورا ہوچکاہے۔ اس کے لیے ہم تمام ہم خیال اور عقل مند پاکستانیوں کی جانب سے باشعور امریکی قوم کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔
Hashims
About the Author: Hashims Read More Articles by Hashims: 4 Articles with 7254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.