اس میں کوئی شک نہیں کہ خلاء سے متعلق تحقیق اور جستجو کا
مقصد، تمام بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ہے۔تاہم عالمی سطح پر انسانیت کے
مفاد میں خلائی تحقیق میں متعدد اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
عالمی تعاون نہ صرف زیادہ مساوی شرکت کو یقینی بناتا ہے بلکہ سائنسی پیشرفت
کو بھی تیز کرتا ہے اور خاص طور پر اس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے صلاحیت کی
تعمیر کو فروغ مل سکتا ہے۔ تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام خلائی سفر
کرنے والی قومیں تحقیق اور تعاون کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ کئی
قوتیں ایسی ہیں جو ٹیکنالوجی کی منتقلی اور سلامتی پر خدشات کا حوالہ دیتے
ہوئے عالمی خلائی اقدامات میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں۔
ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سیٹلائٹ ڈیٹا شیئرنگ کی طاقت سے صحیح
معنوں میں مستفید ہونے کے لیے اتحاد اور تعاون لازم ہے۔عہد حاضر میں
سیٹلائٹ ڈیٹا شیئرنگ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ، یہ مؤثر
رسک مینجمنٹ اور ڈیزاسٹر رسپانس کے لیے ضروری ہے جو جانیں بچا سکتا ہے اور
کمیونٹیز کی حفاظت کر سکتا ہے۔
چین کا اس حوالے سے کردار نہایت اہم ہے جو اس وقت خلائی شعبے میں اپنی
تحقیق اور تعاون کے حوالے سے نمایاں مقام پر فائز ہے۔ چین کے موسمیاتی
سیٹلائٹ اب عالمی آفات سے بچاؤ کی کوششوں میں کام کر رہے ہیں۔ چائنا
میٹرولوجیکل ایڈمنسٹریشن کے مطابق، ان سیٹلائٹس نے اپریل 2025 تک 133 ممالک
اور خطوں کو ڈیٹا اور مصنوعات فراہم کی ہیں، جو موسم کی پیشن گوئی،
موسمیاتی پیشن گوئی اور قدرتی آفات کی نگرانی میں معاون ہیں۔حالیہ عرصے میں
محض ایک مثال لی جائے تو جیسے ہی 28 مارچ کو میانمار میں 7.9 کی شدت کے
زلزلے نے ہلچل مچا دی، چین نے میانمار کو حمایت فراہم کرنے کی خاطر متاثرہ
علاقوں کی ہائی ریزولیوشن امیجری حاصل کرنے کے لیے 30 سے زیادہ سیٹلائٹس کو
فعال کیا۔ اس تیزی سے تعیناتی نے منڈالے کے قریب زلزلے کے مرکز کے 120
کلومیٹر کے دائرے میں تباہی کے 480 سے زیادہ مشتبہ مقامات کو قابل شناخت
بنایا۔
یونیسکو کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے، چین نے 17 ممالک سے نو بین الاقوامی
تجربات کا انتخاب کیا ہے جو چین کے خلائی اسٹیشن پر کیے جائیں گے۔ چائنا
مینڈ اسپیس ایجنسی کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، اگلے 10 سے 15 سالوں میں
اسٹیشن پر 1,000 سے زیادہ تحقیقی منصوبے متوقع ہیں، جن میں سائنسی رسائی،
تکنیکی اختراعات اور بین الاقوامی تعاون شامل ہے۔چین اقوام متحدہ کے ساتھ
بھی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے ، چین۔یورپ مشترکہ منصوبے بھی آگے بڑھ رہے
ہیں اور مزید بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کی کوششیں مستقل فروغ پا رہی
ہیں۔
چین قمری تحقیق سے متعلق اپنے بین الاقوامی قمری ریسرچ اسٹیشن کی بنیاد بھی
رکھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں ، چین اور سینیگال نے ایک تعاون کے معاہدے پر دستخط
کیے ہیں ، جو عالمی خلائی برادری میں شامل ہونے کے خواہاں افریقی ممالک کے
لیے ایک حوصلہ افزا قدم ہے۔چین کا اس حوالے سے موقف بڑا واضح ہے کہ ہمیں
دنیا بھر کے لوگوں کو خلائی سائنس میں تربیت دینے کے لیے مدد فراہم کرنے کی
ضرورت ہے، ہمیں انفراسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے؛ ہمیں اپنے نوجوانوں اور
بچوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی تعاون کے
ایسے منصوبے خلائی سائنس میں کام کرنے کے لیے اگلی نسل کی دلچسپی کا بہترین
طریقہ ہے۔ یہ منصوبے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
چین کی جانب سے اپنے قمری تحقیقی منصوبوں میں عالمی شراکت داری کی حوصلہ
افزائی کی گئی ہے۔ملک کے چھانگ عہ 8 چاند کی کھوج کے مشن میں شامل ہونے کے
لیے دس بین الاقوامی سائنسی اور تکنیکی منصوبوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو
2029 کے آس پاس لانچ ہونے والا ہے۔ یہ مشن چاند کے قطب جنوبی کے قریب مقام
پر توجہ مرکوز کرے گا، جو مستقبل میں قمری تحقیقی بنیاد کی ترقی کے لیے
اعلیٰ سائنسی دلچسپی کا علاقہ ہے۔
جیسا کہ خلائی تحقیق کا ارتقاء جاری ہے، عالمی چیلنجوں سے نمٹنے اور سائنسی
علم کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔ چین کا عالمی اسپیس
تعاون ایک طاقتور یاد دہانی ہے کہ خلا کا تعلق کسی ایک قوم یا ملک سے نہیں
ہے۔ جامع اور تعاون پر مبنی خلائی اقدامات کے لیے چین کا عزم مشترکہ پیشرفت
اور باہمی فائدے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
|