فطرت کے توازن میں ایک مکمل وجود

عورت کوئی ٹکڑا نہیں جو مرد میں تکمیل تلاش کرے؛ وہ خود میں ایک مکمل کائنات ہے، جو فطرت کے توازن کا عکس ہے۔ — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

جب ہم انسانی معاشرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ فطرت نے مرد و عورت کو ایک ہی بنیادی جوہر سے جنم دیا ہے۔ دونوں کی نفسیات، جذبات، اور جسمانی ساخت میں فرق ضرور ہے، مگر یہ فرق برتری یا کمتری کا پیمانہ نہیں بلکہ تکمیل کا ذریعہ ہے۔ انسانیت کا ارتقاء اسی وقت ممکن ہوا جب عورت اور مرد نے ایک دوسرے کی تکمیل کے اصول کو سمجھا، اور ایک متوازن اشتراک کی بنیاد پر آگے بڑھے۔

عورت کوئی ضعیف یا محتاج ہستی نہیں بلکہ مکمل وجود ہے، جس کے اندر محبت، فہم، برداشت اور تخلیق کے حیرت انگیز پہلو موجود ہیں۔ تاریخِ انسانی میں عورت نے صرف ماں، بیٹی یا بیوی کے کردار تک خود کو محدود نہیں رکھا، بلکہ فکری، علمی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔

قانونِ فطرت کے مطابق، ہر فرد کو اپنی محنت اور قابلیت کے مطابق حق ملنا چاہیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اسی اصول کی روشنی میں معاشی خودمختاری، جائیداد میں حق، اور فیصلوں میں رائے کا احترام عورت کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ جو عورت کو ان حقوق سے محروم رکھتا ہے، خود اپنی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہوتا ہے۔

عورت اور مرد کی برابری کا مطلب مساوات کے نام پر یگانگت مٹانا نہیں، بلکہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ دونوں اپنی فطری صلاحیتوں میں مختلف ضرور ہیں، مگر اس فرق میں ہی حسن ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مشیر، مددگار اور محافظ ہیں، اور یہی اشتراک انسانی معاشرے کو متوازن بناتا ہے۔

جب کسی معاشرے میں عورت کو ایک مکمل انسان سمجھا جاتا ہے، تو وہاں علم، اخلاق اور ثقافت پروان چڑھتی ہے۔ عورت کے لیے تعلیم، خود ارادی، اور اظہارِ رائے کی آزادی اس کی فطری ترقی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح گھر کے اندر اس کی رائے، اس کی مرضی اور اس کے جذبات کا احترام ایک صحتمند خاندان کی بنیاد ہے۔

محض روایات یا قبائلی تصورات کی بنیاد پر عورت کے حقوق کو محدود کرنا دراصل فطرت کی نافرمانی ہے۔ کیونکہ فطرت خود توازن اور ہم آہنگی کا نام ہے، اور اگر اس میں سے ایک عنصر کو دبا دیا جائے تو پورا نظام بگڑ جاتا ہے۔

عورت کو صرف ایک جسمانی وجود کے طور پر دیکھنا سراسر ناعاقبت اندیشی ہے۔ وہ ایک مکمل ذہن، ایک زندہ دل، اور ایک روشن شعور کی حامل ہے، جو نہ صرف نسلوں کو جنم دیتی ہے بلکہ انہیں سنوارنے اور سیکھانے کا ہنر بھی رکھتی ہے۔ اگر عورت کو خودمختار سوچ، فیصلہ سازی، اور ذاتی وقار کا حق نہ دیا جائے تو یہ صرف ایک فرد کی محرومی نہیں بلکہ پوری نسل کی پسماندگی ہے۔

جدید معاشروں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ عورتوں کو ان کا جائز مقام دیے بغیر ترقی کا تصور ادھورا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دیں اور عورت کو وہ احترام دیں جس کی وہ مستحق ہے — بطور انسان، بطور شریک، اور بطور رہنما۔

عورت کوئی مانگنے والی نہیں، دینے والی ہے۔ اس کا مقام صرف یہ نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ چلے، بلکہ وہ خود بھی راہ متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور یہی شعور جب اجتماعی سطح پر پروان چڑھتا ہے، تو ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو توازن، وقار اور انصاف کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 411 Articles with 305643 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More