تنہائی۔رزم حیات کا خاموش معرکہ

اسے تم یعنی اپنا نیا ہم سفر مبارک
‎ہمیں اپنی تنہا راستوں کا نیا سفر مبارک
‎میری تنہائی میری سرمایہ زیست بن جائے گی
‎تجھے وقتی پجاریوں کا رسمی سَنگر مبارک

‎انسان کو فطری طور پر رنگینی، ہجوم اور معاشرے کی زینت سے انسیت ودیعت میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہنگاموں ، پر کشش محفلوں ، موسیقی کی سرمستی، اور دوستوں کی جست میں اپنا بیشتر وقت بسر کرتا ہے ۔ وہ مختلف اذہان کے فلسفے سن کرسمجھنے لگتا ہے کہ گویا وہ فکری معراج پر پہنچ چکا ہے ۔ اور عقل و دانائی کا حد پار کر چکا ہے

‎یہ محفلیں یہ میل ملاپ اسے عارضی سرور اور وقتی بھلاوے کے مانند مسرور رکھتی ہیں ۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب یہ عارضی سرور حوادث زمانے کے بعد حقائق کی رو اختیار کر لیتا ہے اور کوئی اپنے ہی محفل یاراں کے ہاتھوں فریب کھاتے ہیں تو کوئی حسنِ عارضی کے ہاتھوں شکستہ حال ہو جاتے ہیں۔ یوں زندگی کی شطرنج پر مات کھا کر ان میں سے بعض خلوت گزینی اختیار کرتے ہیں۔ اور اہستہ اہستہ گہری تنہائی کے بوجھ میں ڈھل جاتے ہیں . اسی تنہائی میں انسان لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے لگتا ہے گزری ہوئی ساعتیں اسے تسبیح کے دانوں کی مانند یاد انے لگتی ہیں ہر لمحہ ایک سوال بن کر ذہین پر دستک دیتا ہے ہر خیال ایک دہکتا ہوا انگارہ بن جاتا ہے۔

‎انہی لمحوں میں دو راہیں واضح ہو جاتی ہیں۔ پہلا راہ دیوانگی اور دوسرا ہے راہ دانائی ۔ جو پہلے راہ کو اختیار کر لیتا ہے وہ جنون کی وادیوں میں چلا جاتا ہے جہاں وه سودائی بن کر اپنی ذات کا مرکز کھو دیتا ہے۔

‎جو راہ دانائی اختیار کرتا ہے اور خوش کے ناخن لیتا ہے اس پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہیں ہے کہ معاشرے اور بنی نواع کی رعنایاں مہتاب کی مانند ہے - جو رح حقیقت کے بر عکس ہیں وہ سفید و روشن ہے ۔لیکن جو رخ حقیقت کے نگاہ میں ہیں وہ درحقیقت داغ دار ہیں ۔ لیکن اب تک وہ برعکس رخ کو دیکھنے سے قاصر تھا اسلئے داغے دار کو ہی خوش رو سمجھتا رہا۔ اور یہ منطقی سوچ اس کو شعور کی سمت لے جاتی ہیں۔ جہاں وہ اپنی خاموشی کو تجربے مشاہدے اور تدبیر کے آئنے میں ڈھال کر ایک فکری رہنما کے طور پر ابھر آتا ہے ۔

‎یہ جو نکتہ میں نے اٹھایا اس پر مولانا رومی بھی بھی کچھ یوں کہتے ہیں۔ " کہ بے شک دنیا کی بھیٹر میں رہتے ہوئے انسان زندگی کے متعلق کچھ تجربات حاصل کر لیتا ہے، مگر تنہائی وہ مدرسہ ہے جو فلسفی پیدا کرا دیتی ہے

‎یہ قول اس فلسفے کی اہمیت کو عیاں کرتا ہے کہ تنہائی اگر چہ بظاہر ویرانی کا استعارہ ہے لیکن باطن میں یہ شعور کی وہ کھیتی ہے جو سوچنے والوں کو دانائی کی فصل عطا کرتی ہے۔ یہ وہ رزم ہے جس میں اگر انسان خود کو شکست نہ دے تو وہ دنیا کو اپنی بصیرت سے فتح کر سکتا ہے ۔

‎آج کا انسان خاص طور پر نوجوان طبقہ ایک خاموش جنگ میں مبتلا ہے۔ جسکا نام ہے رزم تنہائی ، یہ جنگ نفسیاتی، فکری۔ اور روحانی سطح پر لڑی جارہی ہیں ۔ بد قسمتی سے زیادہ تر اس معرکے میں شکست کھا کر اضطراب اور جنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر یہی افراد اپنی تنہائی کو ایک باطن درسگاہ سمجیں اپنی فکر کو وسیع کریں اور اپنے انداز کی اواز کو سننے کا ہنر سیکھ لیں تو یہی تنہائی ان کے لیے ایک معلم ، ایک رہنما اور ایک زینہ بن سکتی ہے جو انہیں عام انسان سے فلسفی کے درجے تک لےجا سکتی ہے۔

‎لب لباب یہ ہیں کہ برائی اور بھلائی، سود و زیاں، شعور و جنون ، سب انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اب یہ ہمارے فہم و فراست پر منحصر ہے کہ ہم تنہائی کی اس خاموش جنگ میں فلسفی بنیں یا سودائی
 

Muhammad Jibran Noor
About the Author: Muhammad Jibran Noor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.