یہ زندگی نہ ہوتی تو اچھا ہوتا

کتنی آسانی سے یہ جملہ زبان پر آ جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے چھپی اذیت کو شاید کوئی نہ سمجھ پائے۔ میں بھی کبھی سوچتا تھا کہ زندگی ایک انمول تحفہ ہے، ایک خوبصورت سفر ہے، جس میں خواب ہیں، امیدیں ہیں، خوشیاں ہیں۔ مگر اب، اب جب سانسیں بوجھ لگنے لگیں، دل سسکنے لگے، اور وجود ٹوٹ پھوٹ جائے، تو لگتا ہے کہ اگر زندگی ہی نہ ہوتی تو شاید یہ سب کچھ نہ سہنا پڑتا۔ شاید یہ سسکیاں، یہ محرومیاں، یہ تنہائیاں کبھی نہ ہوتیں۔ شاید کوئی زخم دل پر نہ لگتا، کوئی رات آنکھوں میں کٹنے کے لیے نہ بچتی۔

محبت کی خاموش کہانی، جسے کبھی لبوں تک نہ لایا، وہ کہانی ہی دل میں زہر بن کر بہنے لگی۔ جن خوابوں کو کبھی آنکھوں میں سجا کر جیا، وہ خواب اب ملبے میں دب چکے ہیں۔ جن لمحوں کی آس میں دن رات گزارے، وہ لمحے کبھی نہ آئے، نہ آئیں گے۔ میں نے خود سے جتنی جنگیں لڑیں، جتنی قربانیاں دیں، جتنی خاموش دعائیں مانگیں، وہ سب کہیں کھو گئی ہیں۔ اور اب جو بچا ہے وہ صرف ایک تھکن ہے، ایک ایسی تھکن جو جسم سے نہیں، روح سے لپٹ گئی ہے۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اگر زندگی نہ ہوتی تو نہ یہ محبت ہوتی، نہ یہ یکطرفہ تڑپ، نہ یہ مسلسل ہار، نہ یہ زبردستی کے قہقہے۔ نہ وہ خواب ہوتے جو دن دہاڑے بکھر کر دل کو لہو لہان کر جاتے ہیں۔ نہ وہ دعائیں ہوتیں جو سسکیوں میں تحلیل ہو کر واپس لوٹ آتی ہیں۔ نہ وہ یادیں ہوتیں جو دل میں چھریاں چلانے سے باز نہیں آتیں۔

لوگ کہتے ہیں وقت سب کچھ ٹھیک کر دیتا ہے، مگر میرے لیے وقت نے صرف ایک کام کیا ہے: زخموں کو اور گہرا کر دیا ہے، یادوں کو اور زندہ کر دیا ہے، تڑپ کو اور شدید کر دیا ہے۔ وقت نے میری امیدوں کو سست روی سے مارا ہے، ایسا مارا ہے کہ نہ جینے کی ہمت رہی، نہ مرنے کی دعا میں جان رہی۔

یہ زندگی، کبھی سوچتا ہوں، اگر یہ نہ ہوتی، تو شاید نہ وہ چہرہ دل میں بسا ہوتا، نہ اُس کے کھونے کا غم، نہ اُس کی بے خبری کی اذیت۔ نہ ہنسنے کی جھوٹی کوششیں کرنی پڑتیں، نہ تنہائیاں پلکوں پر بوجھ بن کر اُترتیں۔ نہ یہ امید کی بے جان لاش ہر دن گھسیٹنی پڑتی۔ نہ راتیں سسکیوں میں ڈوبتیں، نہ دن بےحسی میں گزرتے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو یہ سوال بھی نہ ہوتے، نہ یہ بےسکونی ہوتی، نہ یہ دل کا خالی پن، نہ یہ بھری دنیا میں اکیلے پن کی اذیت۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو نہ وہ لبوں پر آ کر رکا ہوا نام ہوتا، نہ وہ دعائیں ہوتیں جنہیں میں نے اپنی ہچکیوں میں دفن کر دیا۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو شاید میں آزاد ہوتا، آزاد اپنی ہی قید سے، اپنی ہی بےبسی سے۔

اب جب زندگی ہے تو ہر گزرتا دن لگتا ہے جیسے سزا کا ایک اور قسط ہو۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل کہیں نہیں، صرف درد کا ایک لمبا راستہ ہے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ راستہ جلد ختم ہو، کہ یہ اذیت اب اور نہیں سہی جاتی۔ زندگی اب بوجھ بن گئی ہے، سانسیں قید کی زنجیر جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ چاہتا ہوں کہ یہ زنجیریں ٹوٹ جائیں، کہ یہ سفر کسی موڑ پر تھم جائے، کہ یہ اذیتوں کا طوفان کسی کنارے جا کر دم توڑ دے۔

کبھی کبھی آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں، کاش میں ہوتا ہی نہ، کاش یہ دل وجود میں آتا ہی نہ، کاش یہ محبت، یہ امیدیں، یہ خواب، کچھ بھی نہ ہوتے۔ کیونکہ جو نہ ہو، وہ تکلیف بھی نہیں دیتا۔ جو خواب دیکھے ہی نہ جائیں، اُن کے ٹوٹنے کا غم بھی نہیں ہوتا۔ جو دعائیں مانگی ہی نہ جائیں، اُن کے نہ سننے کی اذیت بھی نہیں ہوتی۔ جن کی خواہش ہی نہ کی جاے، اُن کے نہ ملنے پر محرومیوں کا احساس بھی نہ ہوتا۔

کاش اس دل پر کبھی کوئی نام نہ لکھا جاتا، کاش ان آنکھوں نے کبھی کوئی خواب نہ بسایا ہوتا، کاش ان لبوں پر کبھی کوئی دعا نہ ٹھہری ہوتی، کاش ان قدموں نے کبھی کسی امید کی طرف سفر نہ کیا ہوتا۔ مگر قسمت نے یہ سب لکھ دیا اور اب قسمت ہی بوجھ بن چکی ہے۔ اب تو ہر جاگتا لمحہ ایک تھکن کا اضافہ کرتا ہے، ہر رات ایک نئی بے بسی کی سلگتی آگ جلاتی ہے، اور ہر صبح ایک نئے زخم کی نوید لے کر آتی ہے۔

مگر افسوس کہ زندگی دی گئی ہے، اور اب دی گئی ہے تو ختم ہونے کا انتظار ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ یہ انتظار زیادہ طویل نہ ہو، کہ یہ زخم زیادہ گہرے نہ ہوں، کہ یہ آنسو مزید نہ بہیں، کہ یہ بےبسی کا سفر کہیں تھم جائے۔

اور جب کبھی یہ سانسیں رکیں، جب یہ زندگی دم توڑے، تو شاید پہلی بار دل کو سکون ملے، شاید پہلی بار یہ بےقراری تھمے، اور شاید پہلی بار میں سچ مچ ہنس سکوں، بغیر کسی بوجھ، بغیر کسی دکھ کے۔

اب جو زندگی ہے، تو بس یوں محسوس ہوتی ہے، جیسے کوئی تھکا ماندہ مسافر ہو جو کسی بے انت سفر پر نکلا ہو، جس کی کوئی منزل نہ ہو، اور جسے ہر قدم پر بس ایک ہی بات یاد آتی ہو، کاش یہ سفر شروع ہی نہ ہوا ہوتا۔ کاش میں وہ خوش نصیب ہوتا، جسے محبت کی ان دیکھی آگ میں جلنا نصیب نہ ہوتا، جسے دعاؤں کی قبولیت کا انتظار رگ رگ میں نہ سہنا پڑتا، جسے راتوں کی بےچینیاں اور دنوں کی سسکیاں نصیب نہ ہوتیں۔ کاش میں وہ ہوتا جسے زندگی کا مفہوم کبھی نہ سمجھ آتا، کیونکہ سمجھنے کے بعد تو بس ایک سوال رہ جاتا ہے، کہ یہ زندگی کیوں ہے؟ اب دعا یہی ہے کہ یہ امتحان ختم ہو، یہ دکھوں کی قید ٹوٹے، یہ بےنام مسکراہٹیں دفن ہوں، اور یہ دل جو دن رات ٹوٹتا ہے، آخرکار خاموشی میں جا بسے۔

اور اب جب راتیں بھی اجنبی ہو چکی ہیں، جب خوابوں نے بھی پلٹ کر آنا چھوڑ دیا ہے، جب دل کے اندر صدا دیتی ہوئی سسکیاں بھی خاموش ہو گئی ہیں، تو میں تھک کر، ٹوٹ کر، بکھر کر بس ایک ہی دعا دہراتا ہوں, اے زندگی، بس اب تو ختم ہو جا۔ اب اور نہیں، اب مزید نہیں، اب تیرے ہر پل کا بوجھ میرے اندر سے چیخ اٹھتا ہے، اب تیری ہر سانس میری ہڈیوں میں گھُٹتی چبھتی ہے۔ اب نہ کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں، نہ کوئی امید باندھنی ہے، نہ کوئی دعا مانگنی ہے۔ بس اب چاہتا ہوں کہ یہ سانس جو زبردستی چل رہی ہے، یہ دل جو زبردستی دھڑک رہا ہے، یہ آنکھیں جو زبردستی کھلی ہیں، سب تھم جائیں۔ ایک آخری خاموشی ہو، ایسی خاموشی جو نہ کوئی خواب لائے، نہ کوئی یاد، نہ کوئی اذیت، نہ کوئی فریاد۔ ایسی خاموشی جو بس ہو، اور میں اس خاموشی میں، ہمیشہ کے لیے گم ہو جاؤں، بغیر کوئی نقش چھوڑے، بغیر کوئی آواز، بغیر کوئی نشانی۔ اور تب، شاید کہیں اس اذیت بھری زندگی کا حساب برابر ہو جائے۔

تب ایک ایسی ٹھنڈی سانس نکلے، جو ساری تھکن، ساری بےبسی، ساری ٹوٹ پھوٹ اپنے ساتھ لے جائے، اور دل کی آخری دھڑکن، ایک بےآواز چیخ بن کر، خاموشیوں کی بےکراں وادی میں کھو جائے۔ آنکھیں آہستہ سے بند ہوں، ایسے جیسے اب ان پر کوئی بوجھ نہ ہو، اور لب، جو برسوں سے ایک نام پکارتے رہے، بےصدا ہل کر آخری بار خدا کو یاد کریں، کلمہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں لبوں پر لرزے، اور پھر سب کچھ ساکت ہو جائے۔ نہ کوئی صدا، نہ کوئی درد، نہ کوئی انتظار، بس اک ہلکی سی ٹھنڈی خاموشی، جو اس وجود کی ساری تھکن کو اپنے اندر جذب کر لے، اور اس کہانی کا وہ انجام ہو، جس کا خواب بھی شاید کبھی زندگی نے خود نہ دیکھا تھا۔ بس، ختم، بےصدا، بےنشان، بےفغاں۔۔۔

ہاں، یہ زندگی نہ ہوتی تو اچھا ہوتا۔ یہ سانسیں نہ ہوتیں تو اچھا ہوتا۔ یہ سسکیاں نہ ہوتیں تو اچھا ہوتا۔ یہ خواب، یہ محبت، یہ امید، یہ بےبسی، سب کچھ نہ ہوتا، تو شاید بہت ہی اچھا ہوتا۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 18 Articles with 6644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.