گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں ٹیکنالوجی نے جس تیزی سے
ترقی کی ہے، اس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سوشل
میڈیا، جو کبھی صرف رابطے کا ذریعہ تھا، آج ایک طاقتور پلیٹ فارم بن چکا ہے
جو رائے سازی، خبر رسانی، کاروبار، حتیٰ کہ سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہا
ہے۔
سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ہمیں پل بھر میں دنیا کے کسی
بھی کونے سے جوڑ دیتا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر (ایکس)، انسٹاگرام اور واٹس ایپ
جیسے پلیٹ فارمز نے افراد، خاندانوں اور برادریوں کے درمیان فاصلے مٹا دیے
ہیں۔ تعلیمی مواد، خبروں کی تیز تر رسائی، کاروباری مواقع، اور عوامی مسائل
کو اجاگر کرنے میں اس کا کردار قابلِ ستائش ہے۔
تاہم، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک رسائی آسان
بنائی ہے، وہیں جھوٹی خبروں، گمراہ کن پروپیگنڈے، اور کردار کشی کے رجحان
کو بھی فروغ دیا ہے۔ نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا کی سب سے بڑی صارف ہے، ایک
ایسی دنیا میں جی رہی ہے جہاں ظاہری چمک دمک کو اصل زندگی پر فوقیت دی جا
رہی ہے۔ یہ رجحان نفسیاتی مسائل، خود اعتمادی میں کمی اور غیر حقیقی توقعات
کو جنم دے رہا ہے۔
مزید برآں، سوشل میڈیا پر وقت کا ضیاع، ذاتی معلومات کا غلط استعمال، اور
معاشرتی اقدار کا بگاڑ بھی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بہت سے افراد
سوشل میڈیا پر "لائکس" اور "فالورز" کے نشے میں اصل زندگی سے دور ہوتے جا
رہے ہیں۔ یہ رجحان معاشرتی رشتوں میں خلا پیدا کر رہا ہے۔
ہمیں سوشل میڈیا کو بطور سہولت استعمال کرنا چاہیے، نہ کہ اپنی زندگی پر اس
کا قبضہ ہونے دیں۔ والدین، اساتذہ، اور معاشرتی رہنماؤں کی یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ نئی نسل کو اس کے مثبت استعمال کی جانب راغب کریں۔ حکومت کو بھی
چاہیے کہ سائبر قوانین کو مزید مؤثر بنائے تاکہ جھوٹی خبروں اور نفرت انگیز
مواد کی روک تھام ممکن ہو۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا ایک تیز رفتار گھوڑا ہے، جسے اگر
قابو میں رکھا جائے تو یہ منزل تک پہنچا سکتا ہے، مگر اگر بے لگام ہو جائے
تو خود بھی گرتا ہے اور سوار کو بھی گرا دیتا ہے۔
|