سیرت رسولﷺ اور شخصی تعمیر کے طریقے (سیرت سیریز)
(Dr Zahoor Danish, karachi)
|
سیرت رسولﷺ اور شخصی تعمیر کے طریقے (سیرت سیریز) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر ) دنیا نے ہمیشہ یہ سوال کیا کہ کامل انسان کیسا ہوتا ہے؟کہیں فلسفے نے جواب ڈھونڈا، کہیں نفسیات نے، اور کہیں نظامِ تربیت نے۔مگر وقت کی ہر مسافت، علم کی ہر کائنات، اور اخلاق کی ہر بلندی ایک ہی نام پر ختم ہوئی —محمد مصطفی ﷺ۔ وہ ہستی جنہیں قرآن نے "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ( (الاحزاب: 21)۔ یعنی "بہترین نمونۂ حیات" قرار دیا، صرف ایک نبی نہیں،بلکہ اخلاق کے معلم، دلوں کے معالج، انسانیت کے معمار، اور کردار کے بادشاہ تھے۔آپ ﷺ کی سیرت صرف عبادت یا عقیدے کی کتاب نہیں،بلکہ روحانی سکون، نفسیاتی توازن، معاشرتی اعتدال، اور عملی برتری کا مکمل نصاب ہے۔یہ دور نفسیاتی الجھنوں، کردار کی بے وزنی، اور روح کی پیاس کا دور ہے —ایسے میں اگر کوئی روشنی ہے تو سیرتِ محمدی ﷺ کا چراغ ہے،جو دل کو بھی جلاتا ہے اور راہ کو بھی۔ہم اس مضمون میں کوشش کریں گے کہ نوجوان نسل کے لیے۔سیرتِ مصطفی ﷺ سے شخصیت کی تعمیر کے اصول سادہ، جدا جدا اور عام فہم انداز میں پیش کیے جائیں۔تاکہ یہ علم صرف صفحے پر نہ رہے، بلکہ زندگی کا حصہ بن جائے۔ آئیے — ہم سیرت کے آئینے میں خود کو سنوارنے کے سفر پر چلتے ہیں۔ خود آگہی (Self-Awareness) کی ابتدا نبی کریم ﷺ غارِ حرا کی خلوتوں میں اس وقت بھی غور و فکر کرتے تھے جب دنیا شہرت و تجارت میں گم تھی۔یہی تفکر اور خلوت خودی کی دریافت اور تعمیر کی بنیاد ہے۔ قال رسول الله ﷺ تفکر ساعة خیر من عبادة سبعین سنة." "ایک گھڑی کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔ (تفسیر روح البیان، سورة الجاثیة، الآیة: ۱۳، ۸ /۵۹۳، ط: دار احیاء التراث العربی) نفسیاتی حکمت: آج کے شور و غل، سوشل میڈیا اور بیرونی شور میں نوجوان کا اپنی ذات سے تعلق ٹوٹ رہا ہے۔ سیرت ہمیں اندر کی آواز سننے کا شعور دیتی ہے۔ ________________________________________ سچائی اور اعتماد کی بنیاد آپ ﷺ کو "الصادق، الامین" کہا جاتا تھا۔ یہ لقب اعلانِ نبوت سے پہلے کا ہے، جب آپ کے کردار نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ آپ پر اندھا اعتماد کریں۔جب قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود رکھنے پر اختلاف کیا تو سب کی آواز تھی۔ هذا الأمين، رضينا به حكماً(سیرۃ ابن ہشام، باب: بناء قريش الكعبة،جلد 1، ص: 183-184،مطبوعہ: دار ابن کثیر، بیروت) یہ امین ہیں ہم ان کے حکم پر راضی ہیں ۔ نفسیاتی بصیرت: اعتماد دوسروں سے پہلے خود پر ہونا چاہیے، جو سچائی، استقامت اور کردار کی صفائی سے پیدا ہوتا ہے۔ ________________________________________ جذبات پر قابو – Emotional Intelligence نبی ﷺ نے زندگی کے ہر سخت لمحے میں جذبات پر قابو رکھا۔طائف میں جب آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے تو بدلے کی جگہ دعا کی: اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لا يَعْلَمُونَ(البيهقي، شعب الإيمان، باب: في الصبر على الأذى۔ حدیث نمبر 7544) ۔"اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے۔" نفسیاتی نکتہ:یہ Emotional Regulation کی انتہا ہے۔آج کی نسل کے لیے غصے، depression اور anxiety کو قابو میں لانے کا سب سے مؤثر طریقہ سیرتِ نبوی ﷺ کا مطالعہ ہے۔ ________________________________________ خود اعتمادی اور وقار آپ ﷺ مکہ کے سب سے باوقار اور پر اعتماد فرد تھے، چاہے حالات کتنے ہی مخالف ہوں۔صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مشرکین نے "محمد رسول اللہ ﷺ" لکھنے سے انکار کیا، تو آپ نے صبر سے معاہدے کی خاطر خود اپنے ہاتھ سے "رسول اللہ" کے الفاظ مٹا دیے۔( صحیح مسلم، کتاب: الجهاد والسير، حدیث نمبر1783) نفسیاتی گہرائی: یہ سکھاتا ہے کہ وقار کا مطلب ضد نہیں ہوتا، بلکہ مقصد کی بڑی کامیابی کے لیے وقتی قربانی دینا اعلیٰ ظرفی ہے۔ ________________________________________ مزاج کی نرمی اور تربیت کا فن نبی ﷺ نے کبھی کسی کو براہِ راست شرمندہ نہیں کیا۔ آپ کا اندازِ تربیت نرم، غیر جارحانہ اور محبت سے بھرپور ہوتا۔ایک نوجوان نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی، صحابہ برہم ہوئے، مگر آپ ﷺ نے نرمی سے پوچھا: "کیا تم یہ اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے لیے پسند کرو گے؟"( مسند احمد بن حنبل، جلد 5، ص: 256، حدیث: 22211،) نوجوان نے کہا: "نہیں!"آپ نے ہاتھ اس کے سینے پر رکھا اور دعا دی، وہ شخص ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ نفسیاتی سبق: یہ reframing technique آج کل modern therapy میں استعمال ہوتی ہے: مخاطب کے زاویۂ نظر کو بدلے بغیر اس کی سوچ بدل دو۔ ________________________________________ طرزِ قیادت (Leadership by Character) نبی ﷺ نے کبھی "عہدہ" یا "اقتدار" سے قیادت ثابت نہیں کی بلکہ کردار اور اخلاق سے دل جیتے۔فتحِ مکہ کے دن، جب آپ ﷺ کے ہاتھ میں سب کچھ تھا، تو آپ نے ان ظالموں کو عام معافی دی جنہوں نے آپ کو مکہ سے نکالا تھا "لا تثريب عليكم اليوم، اذهبوا فأنتم الطلقاء"( سیرۃ ابن ہشام، جلد 4، ص 54، باب: فتح مکہ) "آج تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو!" یہ ایک فاتح نہیں، دلوں کے بادشاہ کی بات تھی۔ جدید مینجمنٹ سبق: اصل لیڈر وہ ہوتا ہے جو سزا سے نہیں، رحم اور کردار سے اثر ڈالے۔ ________________________________________ تعلق باللہ اور روحانی بنیاد سیرت کا بنیادی ستون اللہ سے تعلق ہے۔ نبی ﷺ کی شخصیت کا مرکز عبادت، دعا، اور توکل تھا۔ رات کی تاریکی میں قیام فرماتے ۔ "إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا" (سورہ المزمل: 6) "بیشک رات کا اٹھنا (نماز کے لیے) نفس کو پامال کرنے والا اور بات کو درست کرنے والا ہے" صدق و خیر خیرات تو پیارے آقاﷺ کا معمول تھا۔ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، (صحیح بخاری، حدیث 6) نبی ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ وہ روحانی قوت تھی جس نے آپ ﷺ کو طوفانوں میں بھی ثابت قدم رکھا۔ نفسیاتی نکتہ: روحانی بندھن ہمیں existential crisis، خوف اور مایوسی سے محفوظ رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکھنے کا شوق – Lifelong Learning نبی ﷺ نے فرمایا:آپ ﷺ کی پوری زندگی سیکھنے، سکھانے اور علم پھیلانے کے لیے وقف تھی۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔( ابن ماجہ، کتاب: المقدمة، باب: فضل العلماء، حدیث نمبر: 229) بدر کے قیدیوں سے بچوں کو پڑھوانے کا بندوبست کیا۔علم کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ شخصیت سازی نکتہ: آج کی نسل اگر سیکھنے کو عبادت اور ترقی کا ذریعہ سمجھ لے، تو وہ مسلسل ارتقاء کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ ________________________________________ مشورے سے فیصلے – Collaborative Personality قرآن میں فرمایا:"وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ) آل عمران: 159(۔(ان سے مشورہ کرو) نبی ﷺ اپنی امت، صحابہ اور حتیٰ کہ نوجوانوں سے بھی مشورہ لیا کرتے تھے۔اس کی مثال جب جنگ بدر کے وقت نبی ﷺ نے قریش کے قافلے پر حملے یا پیچھے ہٹنے پر مشورہ کیا،تو حضرت مقدادرضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذرضی اللہ عنہ جیسے صحابہ نے رائے دی۔( سیرۃ ابن ہشام، جلد: 2، باب: غزوۃ بدر، صفحہ: 254 (مطابق مطبوعہ دار ابن کثیر)) شخصیت سازی نکتہ: ایک کامیاب انسان وہ ہے جو اکیلے نہیں بلکہ دوسروں کی رائے، تجربے، اور مشورے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ teamwork، humility اور shared vision کا سبق دیتا ہے۔ ________________________________________ معافی، درگزر اور Soft Personality حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "نبی کریم ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو نہیں مارا — نہ کسی عورت کو، نہ کسی نوکر کو — سوائے اس کے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں۔اور اگر کبھی آپ کو ذاتی طور پر کوئی تکلیف پہنچائی گئی، تو آپ نے کبھی بھی اس شخص سے انتقام نہیں لیا،البتہ جب اللہ کی حرمت توڑی جاتی، تو آپ اللہ کے لیے غضبناک ہوتے۔"( صحیح بخاری، کتاب: المناقب، حدیث نمبر: 3560،) شخصیت سازی نکتہ: درگزر ایک "مضبوط شخصیت" کا نشان ہے، کمزوری نہیں۔ ________________________________________ وعدے کی پاسداری Integrity آپ ﷺ نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی، چاہے قیمت کچھ بھی ہو۔ عن عبد الله بن أبي الحمساء قال: بَايَعْتُ النبيَّ ﷺ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ، فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، فَجِئْتُ، فَوَجَدْتُهُ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: "يَا فَتَى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ"( سنن ابی داود، کتاب: الأدب، باب: في الوفاء بالوعد، حدیث نمبر: 4999) حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"میں نے نبی کریم ﷺ سے (بعثت سے قبل) ایک خرید و فروخت کا معاملہ کیا،اور میرے ذمے کچھ چیز (رقم یا سامان) باقی رہ گئی۔میں نے نبی کریم ﷺ سے وعدہ کیا کہ میں فلاں جگہ آپ کو وہ چیز لا کر دوں گا۔لیکن میں وہ وعدہ بھول گیا، پھر تین دن بعد یاد آیا۔جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ابھی تک وہیں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:"اے نوجوان! تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں!" شخصیت سازی نکتہ: سچے انسان کی پہچان یہی ہے:وعدہ کرو تو نبھاؤ، چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے۔ہ عادت انسان کو معاشرے میں قابلِ اعتماد اور باوقار بناتی ہے۔ ________________________________________ عاجزی و انکساری – The Root of Greatness نبی ﷺ کے پاس پوری دنیا کی قیادت تھی، مگر آپ خود زمین پر بیٹھ کر کھاتے، جھاڑو دیتے، بچوں کو گود میں لیتے، اور غلاموں سے محبت کرتے۔ كان رسولُ الله ﷺ يأكلُ وهو جالسٌ على الأرض، ويقول: إني آكلُ كما يأكلُ العبدُ، وأجلسُ كما يجلسُ العبدُ"( مسند أحمد (حدیث 23408) ترجمہ :میں ایسے کھاتا ہوں جیسے کوئی غلام کھاتا ہے، اور ایسے بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے سألت عائشة رضي الله عنها: ما كان النبي ﷺ يصنع في بيته؟ قالت: كان يكون في مهنة أهله، فإذا حضرت الصلاة خرج إلى الصلاة"( صحیح بخاری، حدیث 676) ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: "نبی کریم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟"تو انہوں نے فرمایا:"آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے کاموں میں مدد کرتے تھے، اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر تشریف لے جاتے"( صحیح بخاری، حدیث 676)
أن النبي ﷺ كان يُقبّل الحسن بن علي، فرآه الأقرع بن حابس فقال: إن لي عشرة من الولد ما قبّلتُ منهم أحدًا، فقال رسول الله ﷺ: من لا يرحم لا يُرحم"( صحیح بخاری، حدیث 5997) ترجمہ : نبی کریم ﷺ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دے رہے تھےایک صحابی نے کہا: "میرے دس بچے ہیں، کبھی کسی کو نہیں چوما"نبی ﷺ نے فرمایا:"جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا" "إخوانكم خَوَلُكم، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده، فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا يكلفه من العمل ما يغلبه" ( صحیح بخاری، حدیث 30) ترجمہ :نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ہاتھوں کے نیچے دیا ہے، لہٰذا جو کھاؤ، ان کو کھلاؤ، جو پہنو، ان کو پہناؤ،اور ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جو وہ نہ اٹھا سکیں" شخصیت سازی نکتہ: عاجزی وہ درخت ہے جس کا پھل محبت، مقبولیت اور قربِ الٰہی ہے۔ ________________________________________ عبادت کا مزاج – روحانی شخصیت کا جوہر نبی ﷺ راتوں کو قیام کرتے، آنکھوں میں آنسو ہوتے، اور دل میں خوف و محبت کا عجیب امتزاج ہوتا۔ صحابہ کہتے تھے۔آپ ﷺ کا چہرہ عبادت میں چمکتا جیسے چاند ہو۔ قرآن مجید: "إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا" (سورہ المزمل: 6) "بیشک رات کا اٹھنا (نماز کے لیے) نفس کو کچلنے والا، اور بات کو درست کرنے والا عمل ہے" "قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا"(المزمل: 2) "اے نبی! رات کو قیام کریں، تھوڑا کم یا زیادہ" یہ آیات نبی ﷺ کے قیام اللیل کے فرض ہونے اور شب بیداری کے آغاز کا اعلان تھیں۔ حضرت عبداللہ بن شخیررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "أتيت النبي ﷺ وهو يصلي، ولجوفه أزيز كأزيز المرجل من البكاء" (سنن ابن ماجہ، حدیث: 1334) ترجمہ :میں نبی ﷺ کے پاس آیا جب آپ نماز میں تھے، اور آپ کے سینے سے ایسا آواز آ رہی تھی جیسے ہانڈی اُبل رہی ہو — یعنی آپ رو رہے تھے" "كان رسول الله ﷺ يقوم حتى تتفطر قدماه، فقيل له: أليس قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر؟قال: أفلا أكون عبدًا شكورًا؟(" صحیح مسلم، حدیث: 2820) ترجمہ:"نبی ﷺ اتنی طویل نماز پڑھتے کہ پاؤں سوج جاتے۔عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! اللہ نے تو آپ کے سب گناہ معاف کر دیے؟ شخصیت سازی نکتہ: نماز، دعا اور ذکر صرف رسم نہیں، بلکہ باطنی پاکیزگی اور روحانی استقامت کا ذریعہ ہیں۔ ________________________________________ نرمی سے دل جیتنا – Social Harmony حدیث:نرمی جس چیز میں ہو، اسے زینت دیتی ہے۔ (مسلم)۔آپ ﷺ نے دلوں کو مار کر نہیں، پیار سے فتح کیا۔ قال رسول الله ﷺ: "إِنَّ الرِّفْقَ لا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ" "نرمی جس چیز میں ہو، اُسے زینت بخشتی ہے،اور جس چیز سے نرمی نکال لی جائے، وہ بدصورتی اختیار کر لیتی ہے۔" (صحیح مسلم، کتاب: البر والصلة والآداب، اب: فضل الرفق۔ حدیث نمبر: 2594) شخصیت سازی نکتہ: نرمی سے غصے والے کو پرسکون، غلطی والے کو راہ پر، اور دشمن کو دوست بنایا جا سکتا ہے۔ ________________________________________ . خاموشی کا فن – Power of Silence آپ ﷺ ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ جب بولتے تو جامع، مختصر، بامعنی الفاظ استعمال کرتے۔ عن عائشة رضي الله عنها قالت:"ما كان رسول الله ﷺ يسرد سردكم هذا، ولكنه كان يتكلم بكلامٍ بَيِّنٍ فَصْلٍ، يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ" ( صحیح بخاری: کتاب المناقب، حدیث: 3568) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:"نبی کریم ﷺ تمہاری طرح مسلسل بولنے والے نہ تھے، بلکہ آپ کی گفتگو واضح، ٹھہر ٹھہر کر، اور ایسی ہوتی کہ ہر سننے والا اسے سمجھ لیتا۔" عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:"بُعِثتُ بجوامع الكلم"( صحیح بخاری: کتاب الدعوات، حدیث: 6611) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"مجھے جامع کلمات (کم الفاظ میں گہرا مفہوم) کے ساتھ بھیجا گیا ہے" شخصیت سازی نکتہ: کم بولنا، لیکن ایسا کہ بات دل تک جائے — یہ ذہین اور باوقار شخصیت کی علامت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محنت اور خود انحصاری – Self-Reliance & Hard Work نبی کریم ﷺ بچپن ہی سے بکریاں چرایا کرتے تھے۔ تجارت کی، سفر کیے، اور کبھی سستی کا مظاہرہ نہ کیا۔ "کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر رزق کبھی نہیں کھایا۔(بخاری شریف ) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:"ما بعث الله نبيًّا إلا رعى الغنم"قالوا: وأنت يا رسول الله؟قال: "وأنا كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة ( صحیح بخاری، کتاب: الإجارة، باب: رعي الغنم على قراريط، حدیث نمبر: 2262) ترجمہ : سول اللہ ﷺ نے فرمایا:"اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا، وہ بکریاں ضرور چرایا کرتا تھا۔"صحابہ نے پوچھا: "اور آپ بھی؟"آپ ﷺ نے فرمایا:"ہاں، میں مکہ والوں کی بکریاں کچھ قراریط (چاندی کے سکے) پر چرایا کرتا تھا۔" تربیتی نکتہ: اپنے زورِ بازو پر اعتماد، زندگی میں ذمہ داری اور محنت کا شعور پیدا کرتا ہے۔ ________________________________________ مساوات – Equality in Social Behavior نبی ﷺ نے غلاموں، کمزوروں، غریبوں اور بادشاہوں سے یکساں سلوک کیا۔وہ کبھی اونچا نہ بیٹھتے، کبھی کسی کو حقیر نہ جانتے۔جب صحابہ نے Persian بادشاہوں کے شان و شوکت کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔ "كان رسول الله ﷺ يجلس حيث ينتهي به المجلس، ولم يكن يرفع نفسه على أحد"( سنن أبي داود، حدیث: 4801) ترجمہ : ترجمہ:"نبی کریم ﷺ جہاں مجلس میں جگہ ملتی، وہیں بیٹھ جاتے،اور کبھی خود کو کسی پر اونچا نہ سمجھتے تھے۔" شخصیت سازی نکتہ: عاجزی اور مساوات ایک باوقار انسان کی پہچان ہے — نہ کسی کو کمتر سمجھے، نہ خود کو برتر۔ ________________________________________ ہنسی مزاح میں اعتدال – Balanced Humor آپ ﷺ کبھی کبھار صحابہ سے خوش طبعی کرتے، مگر سچ اور اخلاق کے دائرے میں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں (مزاح میں بھی) سچی بات کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ (أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في المزاح، 4 / 357، الرقم: 1990، ) نفسیاتی نکتہ: مزاح اگر مثبت ہو تو دلوں کو قریب لاتا ہے، بوجھ ہلکا کرتا ہے، اور شخصیت کو محبوب بناتا ہے۔ ________________________________________ بچوں سے شفقت – Child-Friendly Personality آپ ﷺ بچوں کو سلام کرتے، کندھوں پر اٹھاتے، ان کے ساتھ کھیلتے۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو گود میں بٹھایا، چومتے اور فرماتے:"جو بچوں پر رحم نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں (ترمذی) أنس رضي الله عنه قال:"أن النبي ﷺ مر على غلمانٍ فسلم عليهم"( صحیح بخاری، حدیث: 6247) ترجمہ:نبی کریم ﷺ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا۔ أن النبي ﷺ كان يحمل الحسن بن علي على عاتقه ويقول: اللهم إني أحبه فأحبه (اللهم إني أحبه فأحبه) صحیح بخاری، کتاب الفضائل، حدیث: 3759) ترجمہ:نبی ﷺ حضرت حسنؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے اور فرماتے:"اے اللہ! میں اسے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما!" تربیتی نکتہ: شفقت و محبت، بچوں کی شخصیت کی بنیاد ہے۔ یہ اعتماد، محبت، اور امن سکھاتی ہے۔ ________________________________________ نبی ﷺ اور فلاحی کام – Social Responsibility نبی ﷺ نے پڑوسیوں، یتیموں، مسافروں، قیدیوں، اور دشمنوں تک کی بھوک، علاج اور مدد کو اہم سمجھا۔ فتح مکہ کے دن، آپ ﷺ نے گھر کے دروازے کھلوانے سے پہلے فرمایا:"آج جو ابو سفیان کے گھر جائے، وہ محفوظ ہے" "وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا" "اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم، اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں"(" سورۃ الدہر: آیت 8)
من دخل دار أبي سفيان فهو آمن"(صحیح مسلم، کتاب الجهاد والسیر، حدیث: 1780) نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا:’’جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، وہ محفوظ ہے‘‘ شخصیت سازی نکتہ: اصل انسان وہی ہے جو دوسروں کی بھلائی سوچے — خدمت خلق ایک عظیم اخلاقی فریضہ ہے۔ ________________________________________ وقت پر خاموشی اختیار کرنا – Wisdom in Silence نبی ﷺ جب بات کرتے، تو موقع، وقت، اور سامع کو مدنظر رکھتے۔ کبھی خاموشی، کبھی مشورہ، اور کبھی محض مسکراہٹ جواب ہوتی۔ عن عائشة رضي الله عنها قالت:"كان كلام النبي ﷺ كلامًا فصلاً، يفهمه كل من يسمعه، ولم يكن يسرد الكلام كسردكم هذا"( صحیح بخاری، حدیث: 3568) ترجمہ:"نبی کریم ﷺ کی گفتگو واضح، بامعنی، اور ٹھہر ٹھہر کر ہوتی،اور ہر سننے والا اسے بآسانی سمجھ لیتا۔ آپ مسلسل بولنے والے نہ تھے۔" تربیتی نکتہ: بولنا فن ہے، لیکن خاموشی حکمت ہے۔ ایک باشعور شخصیت جانتی ہے کہ کب کیا اور کتنا بولنا ہے۔ ________________________________________ . مایوسی سے بچاؤ – Anti-Despair Mindset نبی ﷺ نے کبھی مایوسی نہیں پھیلائی۔طائف، احد، ہجرت، قریش کی مخالفت – ہر موقع پر آپ نے امید، دعا، اور صبر کو اپنایا۔اللہ کی رحمت سے صرف گمراہ لوگ مایوس ہوتے ہیں۔ "وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ" ترجمہ:"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو — بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر (گمراہ) لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (سورۃ یوسف، آیت: 87) روحانی سبق: مایوسی ایمان کو کھا جاتی ہے — باوقار شخصیت وہ ہے جو اندھیرے میں بھی امید کا چراغ جلائے۔
قارئین : ہم نے وقت کی نزاکت اورآپ کی مصروفیت کے پیش نظر اہم ترین موضوع میں اختصار کو پیش نظر رکھاہے تاکہ آپ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں ۔اس تمام حاصل شدہ معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کامل شخصیت کا حقیقی نمونہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے، جنہیں قرآن نے "اُسوةٌ حَسَنَة" قرار دیا۔آپ ﷺ نہ صرف نبی، معلم اور رہبر تھے، بلکہ انسانی نفسیات، تربیت، قیادت، اور روحانیت کے کامل مربی بھی تھے۔ • غارِ حرا کی خلوتیں نبی ﷺ کی فکری خودی کا آغاز تھیں۔تفکر، خاموشی، اور تنہائی خود کو پہچاننے کی پہلی سیڑھی ہے۔ • "الصادق، الامین" کا لقب آپ ﷺ کو اعلانِ نبوت سے پہلے ملا۔اعتماد دوسروں سے پہلے اپنے سچ اور کردار سے پیدا ہوتا ہے۔طائف میں بدلہ نہیں لیا، بلکہ دعا کی۔سیرت ہمیں غصہ، anxiety اور depression پر قابو سکھاتی ہے۔صلحِ حدیبیہ میں قربانی دے کر بڑے مقصد کی کامیابی حاصل کی۔اصل وقار ضد نہیں، صبر اور ظرف ہے۔زنا کی اجازت مانگنے والے نوجوان کو نرمی سے سمجھایا۔Reframing سے ذہن بدلے، تذلیل نہیں ہوئی۔فتح مکہ پر دشمنوں کو معاف کیا۔اصل قائد وہ ہوتا ہے جو سزا سے نہیں، کردار سے جیتے۔رات کا قیام، آنسو، ذکر، دعا — سیرت کی روحانی استقامت کی بنیاد۔روحانیت، اندرونی سکون اور مقصدیت دیتی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے" • سیکھنا، سکھانا، اور علم کو صدقہ بنانا شخصیت کا کمال ہے۔بدر، اُحد، خندق میں صحابہ اور نوجوانوں سے مشورے لیے۔ • ذاتی بدلہ کبھی نہیں لیا۔درگزر کمزوری نہیں، بلکہ عظمت کی پہچان ہے۔تین دن ایک بھولے ہوئے نوجوان کا انتظار کیا۔وعدہ نبھانے سے شخصیت میں بھروسہ، وقار اور شرافت پیدا ہوتی ہےزمین پر بیٹھنا، جھاڑو دینا، بچوں سے کھیلنا — آپ ﷺ کی عظمت، سادگی اور محبت کا امتزاج۔ قیام اللیل، رونا، شکر — آپ ﷺ کی روحانی پختگی اور تقویٰ کی نشانیاں۔ • "نرمی جس چیز میں ہو، اسے زینت دیتی ہے" سخت دل، سخت بات نہیں — نرمی سے اصلاح۔آپ ﷺ کم بولتے، مگر اثر دار۔• Silence is wisdom, خصوصاً جذباتی لمحوں میں۔بکریںچرائیں، تجارت کی، سستی کبھی نہیں کی۔ • محنتی شخصیت معاشرے کی بنیاد ہے۔غلاموں، غریبوں، اور بادشاہوں کو برابر سمجھا۔کبھی اونچا نہیں بیٹھے، کسی کو حقیر نہ جانا۔آپ ﷺ نے ہنسی مزاح کیا، لیکن سچائی اور اخلاق کے دائرے میں۔متوازن مزاح دلوں کو جوڑتا ہے۔ • سلام کرنا، کندھوں پر اٹھانا، گود میں لینا ۔بچوں کو محبت، تحفظ اور اعتماد دینا سیرت کا اہم پہلو ہے۔ یتیم، مسکین، قیدی، حتیٰ کہ دشمن — سب کی بھوک، علاج، اور سلامتی کا خیال رکھا۔سیرتِ نبوی ﷺ شخصیت سازی کا وہ جامع، فطری، اور لازوال ماڈل ہے جوایمان کو شعور دیتا ہے۔اخلاق کو کردار میں ڈھالتا ہے۔اور زندگی کو کامیابی کے سفر پر گامزن کرتا ہے قارئین: ہمارے لیے سیرت مصطفی ﷺ بہترین رول ماڈل ہے ۔آئیے بے مثال اور لازول زندگی گزارنے کے لیے سیرت کو اپنائیں اور دونوں جہانوں کی بھلائیاں پائیں ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
|